اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-04-12

بہشت کے بادشاہ
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
 کہتے ہیں کہ بادشاہ صالح ،جو شاہان شام سے تھی، ایک عالم کے ساتھ رات کو باہر آتے تھے اور مساجد و مقابر و مزارات میں گھومتے تھے اور ہر شخص کی حالت معلوم کرتے تھی۔ ایک دن ایک مسجد میں دیکھا کہ ایک فقیر برہنہ سر سردی میں کانپ رہا ہے اور کہتا ہے یا اللہ بادشاہ لوگ دنیا میں ہم سے غافل ہیں اور ہم تکلیف سے ہیں۔ قیامت کے دن اگر تو نے بادشاہوں کو بہشت میں بھیجا تو میں بہشت میں ہرگز قدم نہ رکھوں گا، بادشاہ صالح یہ بات سن کر مسجد میں آئے اور کپڑے اور درہموں کا توڑا فقیر کے آگے رکھ کر روئے اور کہا میں نے سنا ہے کہ فقیر بہشت کے بادشاہ ہوں گی۔ آج میں بادشاہ ہوں اور تم فقیر ہو یہ تحفے قبول کر لو اور مجھ سے صلح کر لو،آج کے بعد جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے اپنا حق سمجھ کر مانگ لینا ۔اگر یہ سودا منظور ہے تو قیامت کے دن مجھے بھول نہ جانا۔آج یہ بہشت کے بادشاہ بھوک اور افلاس سے لوگ خود کشیاں کرتے پھر رہے ہیں مگرپیسے والوں کی جیب سے کسی بھوکے کی بھوک مٹانے کے لئے ایک دمڑی بھی نہیں نکل رہی۔قدیم اور نایاب تصویریں ، کتبے اور دوسرے بے جان ظروف کے لئے وہ کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں لیکن اس بہشت کے بادشاہ کے پیٹ کے دوزخ کو بھرناان کے نزدیک غیر زندہ دلی کا کام ہی۔صدیاں گزر جانے کے بعد جب بھوک اور آفت سے تباہ حال ان شہروں کی کھدائی کی جاتی ہے تو وہاں سے ملنے والی ایک سوئی یا ایک انگوٹھی بھی تاریخی حیثیت اختیار کر لیتی ہے اور ایک ایک تصویر لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوتی ہی۔ یہ انسانیت کے ساتھ مزاق نہیں تو اور کیا ہی۔ وہ زندہ تھا تو روٹی کے لئے ترستا رہا اور جب بھوک اور افلاس سے شہر کے شہر تباہ ہو گئے جب راکھ اڑ گئی تو بچی کھچی اشیاء کی قیمت بھی لاکھوں میں ہی۔کیا انسان کی یہی حیثیت ہی۔ اگر نہیں، تو جیتے جی غربت اور بھوک میں ایک انسان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی۔ ہم دے بھی نہیں سکتے اور ان مجبور و بے بس لوگوں کو ذلیل بھی کہتے ہیں۔ عبدالوہاب بن عبدالحمید ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایک جنازہ دیکھا۔ جس کو تین مرد اور ایک عورت لئے جا رہے ہیں اور کوئی آدمی جنازہ کے ساتھ نہیں تھا۔ میں ساتھ ہو لیا اور عورت کی جانب کا حصہ میں نے لے لیا۔ قبرستان لے گئے وہاں اس کے جنازہ کی نماز پڑھی اور اس کو دفن کرنے کے بعد میں نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ تھا۔ عورت نے کہا یہ میرا بیٹا تھا۔ میں پوچھا تیرے محلہ میں اور کوئی مرد نہ تھا جو تیری جگہ جنازہ کا چوتھا پایہ پکڑ لیتا۔ اس نے کہا آدمی تو بہت تھے لیکن اس کو ذلیل سمجھتے تھی۔کہنے لگی یہ مخنس تھا ناں (ہیجڑا)۔ مجھے اس عورت پر ترس آیا۔ میں اس کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا اور اس کو کچھ درہم اور کپڑے گیہوں دئیے ۔میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس قدر حسین گویا چودھویں رات کا چاندہو، نہایت سفید عمدہ لباس پہنے ہوئے آیا اور میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ میں نے پوچھا کہ تم کون ہو کہنے لگا کہ میں وہی مخنث ہوں جس کو تم نے آج دفن کیا۔ مجھ پر حق تعالٰی شانہ نے اس وجہ سے رحمت فرمادی کہ لوگ مجھے ذلیل سمجھتے تھی۔محتاجی بہت بری چیز ہے اور اگر یہ محتاجی بھی کسی کم ظرف کی ہو تو اندازہ کیجئی۔ سفید پوش لوگ بھوکے مر جاتے ہیں لیکن کسی کے سامنے اپنا پیٹ ننگا نہیں کرتی۔ یہ بھوک بھی بڑی ظالم چیز ہی۔ پیٹ ایسی چیز تو نہیں کہ صبح بھر دیں تو ایک ماہ تک اِسے بھرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔اسے صبح بھر دیا جائے تو شام کو پھر چیخے مارنے لگتا ہی۔شام کو اسے دوبارہ بھرنے کے لئے پھر ذلیل کہلانا پڑتا ہی۔اس کے باوجود کے حکومت نے دسترخوانِ محمدی بچھائے ہیں لیکن کچھ خود دار اب بھی چار دیواریوں کے پیچھے اپنی انا کی چادر اوڑھے بھوکے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ یہ خالی پیٹ والے جنہیں ہم ذلیل اور کمینے سمجھتے ہیںاُنکا خالق اُن کے بارے میں کیا فرماتا ہی۔خرچ کرو ایسے حاجت مندو ں پر جو رُکے بیٹھے ہیں۔ اللہ کی راہ میں نہیں طاقت رکھتے چلتے پھرنے کی زمین میں سمجھتا ہے انہیں ایک ناواقف آدمی خوش حال ، سوال نہ کرنے کی وجہ سے پہچان سکتے ہو تم ان (کی حالت) کو ان کے چہرے سے ،نہیں مانگتے لوگوں سے پیچھے پڑ کر ۔ اور جو بھی خرچ کرو گے تم کوئی مال بیشک اللہ اُسے جانتا ہی(پارہ تلک الرسل آیت نمبر۳۶۲)۔کون ہے جو قرض دے اللہ کو، قرضِ حسنہ ،تاکہ بڑھا چڑھا کر واپس کرے اللہ اُسے کئی گنا (پارہ سیقول آیت نمبر ۵۴۲)۔جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں پھر نہیں جتاتے خرچ کرنے کے بعد کوئی احسان اور نہ ستاتے ہیں ، ان کے لئے ہے اُن کا اجر ان کے رب کے پاس اورنہ کوئی خوف ہے ان کے لئے اور نہ وہ غمگین ہوں گی۔(پارہ تلک الرسل)۔اور جو بھی خرچ کرتے ہو تم کوئی مال (بطور خیرات) تو اس کا فائدہ تم ہی کو ہی۔ اس لئے کہ نہیں خرچ کرتے ہو تم مگر حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رضا اور جو بھی تم خرچ کرتے ہو کوئی مال (بطور خیرات) پورا پورا دے دیا جائے گا وہ تمہیں اور تمہاری حق تلفی نہ کی جائے گی (پارہ تلک الرسل آیت نمبر۲۷۲)۔ہرگز نہیں پہنچ سکتے تم نیکی کو جب تک کہ نہ خرچ کرو(اللہ کی راہ میں) اس میں سے جو تم محبوب رکھتے ہو اور جو بھی خرچ کرتے ہو تم کوئی چیز تو بے شک اللہ اس سے باخبر ہی۔(پارہ تلک الرسل)۔ متقی ( وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی میں اور تنگی میں اللہ محبوب رکھتا ہے حسن عمل کرنے والوں کو۔(پارہ تلک الرسل)۔ اور ہرگز نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس کے دئیے میں سے جو عطا کیا ہے ان کو اللہ نے اپنے فضل سے کہ یہ (بخل) بہتر ہے ان کے حق میں بلکہ یہ بہت برا ہے ان کے لئی۔ ضرور طوق بنا کر ڈالا جائے گا ان کی گردنوں میں اس چیز کا جس کے دینے میں بخل کرتے تھے قیامت کے دن۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved