اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-04-18

گل پوشی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
اپنے آپ کو خوش رکھنا زندگی کا مشکل ترین چیلنج ہے جس کو قبول کرنے کے لئے بہت بڑے عزم و استقلال اور جرات وحوصلے کو بروئے کار لانا ہوتا ہی۔خوش رہنا ایک فن اور ٹیکنیک ہی،جہاں خوش رہنے کے لئے عزم و استقلال اور جرات و حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اس ٹیکنیک سے واقفیت اور آگاہی بھی ضروری ہی۔ بہت سے خوشیاں ہم اپنی ذاتی کوشش سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خوشیوں کے خیالات آکر کوئی ہمارے دماغ میں نہیں ڈال جاتا نہ ہی بازار سے اس طرح کی کوئی سی ڈی ملتی ہی۔ یہ ہم ہی ہیں جس نے اپنے ذہن کا کوڑا کرکٹ باہر نکال کر اس میں سبزہ و گل لگانا ہی۔خوش رہنے کے لئے ہمیں خوش فکر ہونا چاہیے یعنی اپنی سوچ اور اپنے خیالات کو خوش کن رکھنا چاہیے لیکن کیا ہم عموماَ اس کے برخلاف عمل نہیں کرتے لوگ ہماری ستائش میں جو کچھ کہتے ہیں اس کو تو نظر انداز کر تے چلے جاتے ہیں لیکن مخالفت اور برائی میں کہی ہوئی باتوںکو اپنے آپ کے لئے سولی بنائے رکھتے ہیں۔کڑوی کسیلی باتوں کو اپنے ذہن پر حاوی رکھنے سے خوشی کیسے نزدیک پھٹک سکتی ہی۔ ذہن ہی خوشیوں اور ناخوشیوں دونوں کا ذمہ دار ہے اگر خیالات خوش کن رہیں تو خوشی ہوگی اور اگر خوش کن نہ رہیں تو ناخوشی ہوگی۔ خیالات پر قابو رکھنا ہمارے اپنے اختیار میں ہوتا ہی۔ برش اور رنگ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے من کے کینوس پر بہار پینٹ کریں یا خزاں پینٹ کریں۔جو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ردِعمل کے طور پر کڑھتے رہتے ہیں ان کا ذہن ایک کوڑے دان کی مثا ل ہوتا ہے جس میں وہ برسوں پرانا کوڑا کرکٹ جمع رکھتے ہیں۔ اس نے فلاں محفل میں میری بے عزتی کی تھی، اب ہو سکتا ہے دوسرا بے عزتی کروانے کے لئے اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات ہی نہ کرے تو اس تندور میں خود کو جلانے کے لئے وہ کئی سو من لکڑیاں جھونک چکا ہے وہ تو اُس میں خود ہی جل کر بھسم ہوگیا۔خوش رہنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے گھر کو پاک صاف،دلکش ، خوشنما او ر دلفریب ر کھا جائے آپ کو اپنی قیمتی اور خوبصورت اشیاء سجا کر رکھنا ہوتا ہے اور بیکار کوڑا کرکٹ نکال کر باہر پھینک دینا ہوتا ہی۔ گھر کی سجاوٹ کے لئے سلیقہ شعار ہونابھی لازم ہی، اس طرح خوش رہنے کے لئے بھی خوبصورت اور دلکش چیزوں کی تلاش ہماری بصیرت پر منحصر ہوتی ہی۔ ایک شخص بارش کے بعد کھڑکی سے رقص کرتی ہوئی ڈالیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا شخص عین اُسی وقت بارش میں ذرا سا پھسل جانے سے بارش ہی کو لعن طعن کر رہا ہوتا ہی۔یہ بارش تو ہوتی ہی ہاتھ پائوں توڑنے کے لئے ہے نہ اگر میں پیٹھ کے بل گر جاتا اور میرا چوکنا ٹوٹ جاتا تو کون ذمہ دار تھا۔اگر ہم ناخوش ہیں ، مسرتوں سے محروم ہیں اور افسردہ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہم چاہتے ہیں زندگی ویسی نہیں ہے جیسی زندگی کے آرزو مند ہیں وہ ہم کو نصیب نہیں جو توقعات اور خواہشات رکھتے ہیں ، زندگی اس پر پوری نہیں اترتی ہی۔ اس لئے ہم آزردہ ہیں اور ناخوش ہیں، ہم سوچتے ہیں، نہ جانے ہمیں زندگی میں خوشی کب نصیب ہوگی۔ تو سنئے : حضرت آدم سے لیکر آج تک کوئی زندگی ایسی تخلیق نہیں ہوئی جس میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں اور پریشانیوں کا شائبہ تک نہ ہو۔ شادمانی اور غم زندگی کے لازم و ملزوم حصے ہیں۔ جس نے غم نہیں برداشت کیا وہ خوشی کا مزہ کیا جانی۔جس طرح تیز مرچ مسالہ والا سالن کھانے کے بعد میٹھی ڈش مزا دیتی ہے اِسی طرح غم کے بعد خوشی کا مزا ہی دوبالا ہو جاتا ہی۔ ہر زندگی نشیب و فراز سے گزرتی ہی۔ہرزندگی ناکامیوں اور کامرانیوں سے عبارت ہی۔ایک لاطینی مفکر کا قول ہے کہ اللہ تمہیں مصائب میں اس لئے ڈالتا ہے کہ تمہارے جسم کے پٹھے مضبوط ہو جائیں۔کچھ لوگ زندگی میں خوشی کا انتظار یوں کرتے ہیں جیسے یہ کوئی ریلوے اسٹیشن ہو جو زندگی کے سفر میں ایک دن خود بخود آ ہی جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ انتظار کرنے والوں کو خوشی کبھی نہیں ملتی۔ ہم میں سے ہر ایک کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے خوش رہنا ہے اور پھر اس کے لئے اپنی سمتیں بدلنا ہوں گا۔ جب ہم فیصلہ کر لیں گے تو ہمارے آس پاس ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں خوشی فرش پر ہمارے پائوں سے ٹکراتی ہوئی نظر آئی گی۔کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کی شکل میں جسے ہم دفتر کی واپسی پر نظر انداز کرکے گزر جاتے تھی۔زندگی میں بہت سی ایسی ہی دوسری چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن کا تعلق دولت سے ہوتا ہی نہیں لیکن ہم دولت کے خبط کو اپنے دماغ پر اس طرح طاری کر لیتے ہیں کہ اپنی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی دولت حاصل ہونے تک ملتوی کرتے چلے جاتے ہیں۔بس عزم کر لیجئے کہ ہم نے خوش رہنا ہے ، اس عزم کے بعد اپنے ارد گرد بکھری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو جھاڑ پھونک کر اٹھاتے جائیے چند دنوں میں آپ کے آنگن میں خوشیوں کے انبار لگ جائیں گی۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved