اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-04-21

بے حرکتی کی تبلیغ
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
 
ہمارے دور کا اہم ترین مسلہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے حرکتی، بے دلی ،سستی ، کاہلی اور جمو د ہے ۔کچھ نہ کرنے کی بیماری دن بدن روبہ ترقی ہی۔کوئی دانشور اس ہولناک کینسر کی نشاندہی بھی نہیں کر رہا۔حد تو یہ کہ بے حرکتی کو نیکی گردانا جاتا ہی۔بے حرکتی کو صبر سے جوڑا جاتا ہے لیکن صبر اور بے حرکتی میں فرق ہی۔صبر کا مطلب محنت کے بعد نتائج کو خدا پر چھوڑنے کا نام ہے اور پھر راضی بہ رضا ہونے کا نام ہے لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا نام صبر ہرگز نہیں۔مقامِ افسوس ہے کہ ہم کاہلی اور آرام طلبی کے نئے نئے بہانے بنانے میں بہت ہوشیارہوتے جا رہے ہیں ۔ہم کاہلی اور آرام طلبی کو بھی بعض اوقات دین داری بنا لیتے ہیں۔جن لوگوں کو بے حرکتی کی بیماری لگی ہوئی ہوتی ہے وہ اس خوف کے باعث زیادہ سے زیادہ مریض بنانے کے لئے لگے رہتے ہیں کہ کوئی ان پر تنقید نہ کردی۔ بے حرکتی کے مبلغ ہوائی باتیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ان گفتار کے غازیوں کے سامنے جو بھی موضوع آتا ہے وہ اس پر بلا تھکان بولتے چلے جاتے ہیں۔جن کو کسی وجہ سے مایوسی نے گھیرا ہوا ہے وہ کاہلی کا خود شکار ہی نہیں بلکہ اس بیمار ی یا عادت کو آگے پھیلانے کے مبلغ بھی بنتے جارہے ہیں۔ناکامی ایک ایسا عمل ہے جس سے بڑھ کر تھکا دینے والے عمل دنیا میں موجود نہیں ہی۔ ناکامی سے دوچار ایک شخص اپنے آپ کو جس قدر تھکا ماندہ محسوس کرتا ہے کوئی دیگر شخص بمشکل ہی اپنے آپ کو اس قدر تھکا ماندہ محسوس کرتا ہوگا۔ ناکامی سے بڑھ کر کمزور کر دینے والی شاید ہی کوئی سے دنیا میں موجود ہو۔ ناکامی سے دوچار ہونے والا شخص وہیں کھڑا رہ جاتا ہی۔ جب وہ کھڑا ہوتا ہے اس میں آگے بڑھنے کی ہمت مفقود ہو کر رہ جاتی ہی۔ ناکامی اپنے ساتھ تھکن بطور تحفہ لے کر آتی ہے اور یہی تھکن کام کاج سر انجام دینے اور ناکامی کے خول سے باہر نکالنے کی راہیں مسدود کر دیتی ہے اور ناکامی کے اثرات کو دو چند کر دیتی ہی۔ایسے افراد بے حرکتی کو نعمت میں بدلنے کے الفاظ گھڑ لیتے ہیں۔ آرام طلبی کے حق میں ایسے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ اچھے بھلے متحرک آدمی کا بھی جی چاہتا ہے کہ سارے کام چھوڑ دے اور بیٹھ کر گپ شپ کرتا رہے ۔اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے بلند ہمتی خود خدا کو بھی بہت پسند ہی۔اللہ تعالٰی قرآن میں یوں فرماتے ہیں۔کتنے ہی نبی (گزر چکے ہیں) نہ تو پست ہمت ہوئے وہ ان مصیبتوں کی وجہ سے جو پہنچیں انہیں اللہ کی راہ میں اور نہ کمزوری دکھائی (دشمن کے آگی) اور نہ بے دست و پا ہو کر بیٹھے اور للہ محبوب رکھتا ہے ثابت قدم رہنے والوں کو۔آلِ عمران ۔۸۸۱۔درمیانی عمر کی دہلیز پار کرتے ہوئے ایسے لوگ بھی آپ کو ملیں گی۔ جو اس عمر کی دہلیز پار کرنے کے بعد اپنے آپ کو کئی ایک فعال سرگرمیوں یا خوشیوں سے دست بردار کر رہے ہوں گی۔زندگی کی جدو جہد سے نکلنے کی وجہ معاشی بے فکری، بیماری کے آنے سے پہلے بیماری کا خوف یا چوہدراہٹ ہی۔ بد قسمتی سے زندگی کی جدوجہد سے فرار کو بھی چوہدراہٹ کا نام دے دیا گیاہی۔اگر گہرائی میں جا کر اِس مرض کی جڑوں کو تلاش کیا جائے تو یہ مرض پچپن میں ہی پنپنا شروع ہو جاتا ہی۔ ضرورت سے زیاد ہ محتاط والدین بھی کسی حد تک قصور وار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ اچھے بھلے والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کا باعث بنتے ہیں۔ اور ان کے مہم جوئی کے شعور کو زنگ آلود کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔ درخت پر مت چڑھو تم گر جائو گی۔ اس ویک اینڈ پر تم باہر نہیں جا سکتے کیونکہ بارش کا امکان موجود ہی۔کچھ نہ کچھ کرنے کا شعلہ بہت سے بچوں میں بھڑک رہا ہوتا ہے لیکن والدین اس شعلے کو آکسیجن فراہم نہیں کرتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حرکت اور بے حرکتی کے درمیان فرق واضح کریں ۔ضرورت اس عمرکی ہے کہ ہم اسے ایک بری عادت یا مرض تسلیم کریںاورزندگی میں ملوث ہونے کی دلچسپی سے عاری نہ ہوں۔بے حرکتی کی تبلیغ ایک ایسا زہر ہے جو بھولپن میں لوگوں کو انجیکٹ کیا جا رہا ہی۔ میں کیا کہوں کہ جس سے لوگ زندگی سے فرار حاصل کرنے کے عمل سے دست بردار ہو جائیں۔ یہ مانا کہ کچھ کرنے والوں کو کچھ کرنے کے لئے نہیں مل رہا۔بے روزگاری کی کیفیت سے میں گزرا ہوں اور اس درد کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔نمناک آنکھوں سے اس مسلے کے حل کے لئے رازقِ کائنات کے حضور دعا گو رہتا ہوں۔ میرا موضوع تو وہ لوگ ہیں جن کی حرکت سے کچھ کرگزرنے والوں کو کچھ کرنے کے لئے مل سکتا ہی۔میرا موضوع وہ لوگ ہیں جن کو کچھ کرنے کے لئے ملا ہوا ہے لیکن وہ اس کرنے سے فرار کی راہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔یہ کچھ نہ کرنے والے اگر کچھ کرنے لگ جائیں تو جن کو کچھ کرنے کے لئے نہیں مل رہا انہیں بھی کچھ کرنے کے لئے مل جائی۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved