اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-04-26

اندرونی تزئین و آرائش
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

یہ بجا کہ پیسے سے بہت سی راحتیں خریدی جاسکتی ہیں لیکن بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق پیسے سے ہوتا ہی نہیں۔ مناسب رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے یہ مسائل دیمک کی طرح انسان کو اندرسے چاٹ جاتے ہیں۔ان مسائل کے انبار کے نیچے سسکتی انسانیت کو اگر آگاہی مل جائے تو یقینا اپنے آپ کو کھینچ کھانچ کر نیچے سے نکال لے۔ان ہوائی مسائل سے چھٹکارا کے بعد مسائل کی مقدار بہت کم ہوجانے سے انسان روئی کے گالوں کی طرح خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرے۔ان ہوائی مسائل کی لسٹ کافی لمبی ہے۔ میں صرف یہاں بے مقصد بے زاری کا ذکر کرنے چلا ہوں۔مناسب رہنمائی سے اندرونی بے زاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔بے زاری اور افسردگی ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں انسان یوںمحسوس کرتا ہے جیسے گہرے سمندر میں پھینک دیا جائے لیکن اُسے تیرنا نہ آئے اور وہ گھبراہٹ میں ادھر اُدھر ہاتھ مارے۔افسردگی ایسی وقتی کیفیت ہوتی ہے جس میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا محسوس ہوتا ہے۔یہ کیفیت سوچوں کی بے ترتیبی،بے لگامی اورترتیب و تنظیم کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ سوچوں کو قابو میں رکھنا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ سوچوں کی تزئین و آرائش اور ترتیب تنظیم سے اس کیفیت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اگر منفی سوچوں کی جنم لیتے وقت ہی جڑیں کاٹی جاتی رہیں تو جذبات کے بھڑک اٹھنے کے بعد ہونے والے بے تحاشا نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ ہماری سوچیں ہمارے موڈ ترتیب دیتی ہیں۔ جس لمحے ہم جس سوچ کے حامل ہوں گے ہم اس سوچ کے عین مطابق روبہ عمل ہوں گے۔ جب ہم افسردگی اور آزردگی محسوس کرتے ہیں اس وقت منفی سوچوں کے حامل ہوتے ہیں ۔یہ منفی سوچیں بھی بے حقیقت ہوتی ہیں۔اگر ان منفی سوچوں کو چھاننی سے چھاننے لگ جائیں توسب کچرا نکلے گا۔دراصل چیزیں اتنی ہی بری دکھائی دیں گی جتنا برا ہونے کا تصورہم ان کے بارے میں کریں گے۔ یہی منفی سوچیں ہمارے تمام مصائب کی بنیاد بنتی ہیں۔ہم چھوٹے سے نقطے کو پھیلا لیتے ہیں۔کسی چھوٹی
سی ناکامی پر ہم اپنے آپ کو بدقسمت سمجھنے لگتے ہیں اور تب یہ سوچنے لگ جاتے ہےں کہ ہم مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہےں۔ یہ وطیرہ ہمیںاپنے آپ پر لعن طعن کرنے پر اکساتا ہے اورہماری ترقی کی راہیں مسدود کر کے رکھ دیتا ہے۔ تلخ تجربے سے دوچارہونے کے بعدہم اپنے آپ کو سند یافتہ بدقسمت تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ذاتی قدروقیمت ہمارا ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے تحت ہم اپنے آپ کے ساتھ ایک محبوب دوست جیسا سلوک کرتے ہیں۔دراصل ہم کسی بھی صورتحال کا کوئی منفی پہلومدِ نظر رکھ لیتے ہیں اور اسی میں بسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عمل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ایک ایسا چشمہ پہن لیا جائے جو مثبت چیزوں کو فلٹر کرتا جائے اور منفی چیزیں اندرچھوڑتا جائے۔اس طرح جب ہم اپنے مستقبل میں جھانکتے ہیں توسوائے اندیشوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔جب ہم اپنی ناکامیوں میں جھانکتے ہیں تو وہ ہمیں بڑی بڑی نظر آتی ہیں اور جب ہم اپنی کامیابیوں کی طرف جھانکتے ہیں تو وہ چھوٹی چھوٹی نظر آتی ہیں۔اس طرح ہمیں اپنی توانائی بھی ضرورت سے کم نظر آتی ہے۔یہ صورت حال ایسی ہوتی ہے سوئچ غلط پلگ میں لگ جائے۔اگر ہم سوئچ کو غلط پلگ سے نکال کر درست پلگ میں لگا دیں تو ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل سکتے ہیں۔جب انسان تذبذت کی حالت میں ہوتا ہے یعنی کبھی سوچے مجھے یہ کرنا چاہےے اور کبھی سوچے مجھے وہ کرنا چاہےے تو وہ بے زار اور افسردہ ہو جاتا ہے۔اس طرح کی تذبذت کی کیفیت کوئی سمت متعین کرکے تحریک پیدا کرنے کی بجائے توانائی کو فضول ضائع کرتی رہتی ہے۔انسانی احساسات سوچوں کاعکس ہوتے ہیں۔ اگرہماری سوچیں کسی مفہوم کی حامل نہ ہوں گی تو وہ جو احساسات تخلیق کریں گی وہ قطعی بیکار اور لا یعنی ہو ں گی۔ہمارے مصائب کا حقیقی حصہ ہماری مسخ شدہ سوچوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جب ہم ان مسخ شدہ سوچوں کو خیر باد کہہ دیں گے تو حقیقی مسلے سے نبٹنا ہمارے کے لئے کم تکلیف دہ ثابت ہوگا۔بعض اوقات مایوسی کی حالت میںہم دوسروں کے قصور کو بھی اپنا ہی قصور سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم ناکردہ گناہ کی سزابھی اپنے آپ کو دینے لگ جاتے ہیں۔جو کچھ کوئی دوسرا شخص کرتا ہے وہ قطعی طور پر اس کی ذمہ داری ہے نہ کہ ہماری ذمہ داری ہے۔ غلطی سرزد ہونے کی صورت میں غلطی سے یا تو تجربہ حاصل کرے یا تحریک حاصل کرکے ،دوبارہ غلطی سے بچے، لیکن اپنے آپ کو بدقسمت سمجھ کر جدو جہد سے ہاتھ کھینچنا مصیبت میں دوسری مصیبت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved