اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-05-04

بوٹی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
اُستاد اور بزرگ بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکتے تھی۔ امتحانی عملہ اس قدر صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جاتا تھا کہ آخری پرچے تک سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ دیکھنے کی پالیسی پر کاربند رہتا۔ہمارے وقتوں میں بوٹی کے فن کو سکھانے کے لئے طلباء کی باقاعدہ نجی تربیت گاہیںہوا کرتی تھیں۔ایسے ایسے نابغہ روزگار تھے کہ اگر اُن وقتوں میں اُن کی ذہانت کو مثبت سمت میں استعمال کیا جاتا تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا۔ طلباء ان تربیت گاہوں کے ماہرین کے زیرِ تربیت رہنے کے بعد بھی جب بوٹی بردار ہو کر کمرہ امتحان میں جاتے تو بعض اوقات من کی مراد نہ پاسکتی۔فارسی کا مقولہ ہے نقل را عقل است۔باقی تو سارے بندوبست ہو جاتے لیکن عقل کی کھڑکیاں کھولنے کی زحمت گوارا نہ کی جاتی۔ ایسے ایسے جید کند ذہن طلباء بھی ہوتے تھے جو بقیہ اگلے صفحے پر موجود ہے بھی جواب میں لکھ آتے اور یوںمحنت و ریاضت کو دماغ کا خرچہ نہ کرنے کی وجہ سے ضائع کر آتی۔بعض پیپر چیکر نرم دِل والے بھی ہوتے اورامیدوار کی اس عاجزانہ درخواست پر پسیج کر پاس مارکس دے دیتے کہ اگر آپ نے مجھے پاس نہ کیا تو میری شادی نہ ہو سکے گی۔جو طلباء نقل کی ٹریننگ کے بغیرہی میدانِ کارزار میں کودنے کی جسارت کرتے اگر گرمی ہوتی تو تھر تھر کانپ رہے ہوتے اور اگر سردی ہوتی تو پسینے سے شرابور ہو جاتی۔اَن ٹرینڈ طلباء پر بوٹی کے استعمال کے وقت رعشہ طاری ہو جاتا تھا اورامتحانی عملہ انہیں یوں دبوچتا جیسے چیل مرغی کے بچے کو دبوچتی ہی۔گھاگ بوٹی بردار یوں بوٹی لگارہے ہوتے جیسے ساری رات یہ مطالعہ میں غرق رہے ہوں اور اب اُن پر جوابات کا عرفان طاری ہو۔یہ کئی کئی فالتو شیٹیں لگاکر امتحانی عملہ کواپنی قابلیت اور ذہانت سے اس قدرمرعوب کردیتے کہ یہ ہونٹوں کے نیچے انگلی دبائے انہیں دیکھتے رہ جاتے ۔حضرت قسم کے طلباء کو اگر مطلوبہ جوابات نیفے میں ڈالی ہوئی کاغذ کی چٹوں،جسم کے خفیہ حصوں پر لکھے ہوئے نوٹس یا گتے کی پچھلی طرف لکھی ہوئی تحریروں سے میسر نہ آتے تو انہیں جلد ہی ٹائلٹ جانے کی حاجت محسوس ہونے لگتی۔جہاںارد گرد اُن کا کوئی نہ کوئی معاون پوری کتاب لئے گھوم رہا ہوتا۔یہ ٹائلٹ میں قضائے حاجت سے بھی فارغ ہوتے رہتے اورمتعلقہ جوابات کو بھی کتاب کے تن سے جدا کرتے رہتی۔پرانے وقتوں کی باتیں نئے وقتوں میں بہت بوسیدہ لگتی ہیں۔ زمانہ بہت جدید ہو گیا ہی۔آج کے طلباء امتحانی عملہ کو مرغن غزائیں کھلانے کی بجائے خطرناک اسلحہ کی جھلکی کروا کر ان سے پرچے حل کرواتے ہیں اور اگر ان میں حل کرنے کی اہلیت نہ ہو تو ان سے مرغن غزائیں کھاتے ہیں۔ماہرینِ تعلیم گرتے ہوئے معیارِ تعلیم کا رونا ایسے ہی روتے رہتے ہیں ورنہ یہ حضرت قسم کے طلباء ملک و قوم کا سرمایہ ہیں اور آج یہ جس انداز سے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں بدخواہوں کی بدخواہی سے یہ بچے رہے اور کسی بد نظر کی نظر ان کی جعلی ڈگری پر نہ پڑ گئی تو ایک دن ایسا آئے گا کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر چاند بن کر ابھرے گا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved