اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-05-12

اندازِ زندگی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
زندگی گزارنے کے تین انداز ہیں۔زندگی گزارنے کا پہلا انداز جا نوروں کی سی زندگی کا ہے یعنی کھائو پیو اور مر جائو۔ پہلے انداز میں انسان کی زندگی کا محور و مرکز پیٹ ہوتا ہی۔انسان دنیا کے مسائل سے لاتعلق محدود سی زند گی جیتا ہے ۔اسے پڑھنے پڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اسے زندہ رہنے کا ہنر سیکھنے کی ہدایت دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔انسان بس اپنے طے شدہ حالات اور معاملات کے مطابق وقت گزارتا رہتا ہے جس میں رات کو سونا دن کو محنت مزدوری کرنا اور پھر رات کو تھک کر سوجانا شامل ہوتا ہی۔ زندگی گزارنے کے دوسرے انداز میں انسان زندگی کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے یہ کاروبار ہو۔بہت سے کامیاب مرد اور عورتیں یہ یقین رکھتے ہیں کہ زندگی ایک کاروبار ہی۔ایسے لوگ اپنے کردار کو اسی کے مطابق ترتیب دے لیتے ہیں۔اپنی سوچ کو اسی سانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔دنیا میں اس طرح کا رویہ رکھنے والے لوگوں کی خوشی کا انحصار مقابلے کی کامیابی پر ہوتا ہے یعنی مقابلے میں کامیابی ہوئی تو خوش اور ناکامی ہوئی تو ناخوش۔زندگی کے اس روئیے کے تحت طاقتورا پنی طاقت کے بل بوتے پر کمزور کی محنت اوراس کے حصے کی آمدنی سے دولت بناتاہی۔ایسے لوگ انتہائی سوچ سمجھ کر چالاکی سے دوسرے پر حملہ آور ہو تے ہیںاور انتہائی ہوشیاری سے اپنے آپ کو بچا تے ہیں۔اس طرزِ زندگی کا بنیادی فلسفہ گرمجوش مقابلہ اور ذاتی کمال یا لیاقت ہے یعنی جو جتنا ہوشیار اور چالاک ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہی۔آج کل لوگوں کی بڑھتی ہوئی مصروفیات، نفسا نفسی اورخود غرضی اسی طرزِ زندگی کا نتیجہ ہی۔اس طرح غلامی جنگیں طبقاتی تفریق اور ترقی یافتہ قوموں کا ترقی پذیر چھوٹی قوموں کے ساتھ ناانصافیاں بھی اسی طرزِ زندگی کا نتیجہ ہی۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے پر یقین رکھنے والے لوگوں کا زندگی کے متعلق سخت کاروباری رویہ ہوتا ہی۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کی طرح کی انتہائی انا پرستی انسان کو مختلف قسم کے اعصابی دبائومیں مبتلا کر دیتی ہی۔مقابلہ جیتنے اور کامیابی حاصل کرنے کی شدید خواہش انسان کو ہر وقت نئے نئے منصوبے بنانے میں مصروف رکھتی ہے اور انسان مشین بنتا جاتا ہی۔ انسان زندگی کی اصل خوشیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہی۔کبھی کبھی انسان اپنے جنون میں اتنا مست ہوتا ہے کہ اسے اپنی کامیابی کا جشن منانے کا وقت بھی نہیں ملتااور جس مقصد کے لئے سب کچھ کیا ہوتا ہے جب وہ موقع آتا ہے تو موقع

vail

 ہی نہیں کرپاتا۔کاروباری انداز سے زندگی گزارنے والے نجی زندگی میں سخت ناکام ہوتے ہیں۔ایسے لوگ جذبات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔جذباتی چیزوں کو بھی کاروباری نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔پیار، انس ومحبت،ہمدردی، شفقت یہ سب چیزیں کاروباری انداز سے زندگی گزارنے والوں کے لئے بے معنی ہوتی ہیں،اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے افراد کے ساتھ خاندان کے کسی فرد حتٰی کہ اولاد کی بھی قلبی روحانی وابستگی نہیں ہو پاتی۔جب ایسے لوگوں کو کسی موقع پر یعنی بیماری شادی غمی کے موقع پر دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔نجی محفلوں میں بھی انہیں بھر پور اپنایت نصیب نہیں ہوتی۔کاروباری نقطہ نظر سے زندگی گزارنے والا دولت تو اکٹھی کر لیتا ہے لیکن وہ صرف اپنی ذات کے ہی خول میں قیدرہتا ہی۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں، خاندان کے ساتھ خوش گپیاں،چھوٹی چھوٹی تفریحیں ایسے لوگوں کی زندگی سے نکلتی چلی جاتی ہیں۔ غصیلی آنکھوں سے ذاتی مفادات کیلئے جینے والا اندازِ زندگی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کاباعث بنتا ہے اور لوگوں کو جرم گمراہی اور دیوانگی کی طرف لے جاتا ہی۔زندگی گزارنے کا تیسرا انداز ہے کہ میں زندگی کو کیا دے سکتاہوں۔اس کا رس کیسے نچوڑ سکتا ہوں ۔اس میں کس قسم کے رنگ بھر سکتا ہوں۔زندگی گزارنے کا یہی وہ انداز ہے جو دامن میں خوشیوں کے انبار لگائے ہوئے ہی۔زندگی گزارنے کے اس انداز میں بھی سخت جدوجہد اور کاوش ہوتی ہے لیکن اس جدوجہد اور کاوش کے درمیان دوسرے کو پچھاڑتے ہوئے آگے بڑھنا نہیں ہوتا۔اس طرزِ زندگی میںدوسروں کو پچھاڑتے جانے کی بجائے دوسروں کے گال پر چٹکی لیتے جانا ہوتا ہی۔زندگی کے لئے سخت جدوجہد اور محنت تو کرنا لیکن رک رک کر آس پاس بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی سمیٹتے چلے جانا ہوتا ہی۔گرتوں کو تھامتے چلے جانا ، روتوں کو ہنساتے چلے جانا،ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے جانا۔بھری محفلوں،دلکش نظاروں اور چھوٹی چھوٹی تفریحوں سے لطف اندوز ہوتے چلے جانا ہوتاہی۔ زندگی گزارنے کا یہی وہ رویہ ہے جو انسانی خوشیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہی۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved