اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-05-18

فاصلے سمٹے ہیں یا بڑھے
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
پہلے زمانے میں انسان کا زیادہ تروقت دوسرے انسانوں کی معیت ،محفل یا مجلس میں گزرتا تھا۔جب بھی کام سے فراغت ہوتی وہ تفریح کے لئے محفل جما لیتے تھی۔وہ ایک دوسرے کو مشورے دیتے اور مشورے لیتے تھی۔ وہ ہنستے اور ہنساتے تھی۔ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ رہتے تھے اور بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کے کام آتے تھی۔ لیکن آج کا انسان تفریح سے لیکر مساج تک کے لئے مشین پر انحصار کرتا ہی۔ مشین، اٹھتے بیٹھتی، سوتے جاگتی، کھاتے پیتی، انسان کی مستقل خدمت گار، ہم سفر،اُستاد اور رہبر و رہنما بنتی جا رہی ہی۔انسان نے زندگی پر حاوی ہونے کیلئے مشین ایجاد کی تھی مگر اب مشین اس کی زندگی پر حاوی ہوتی جارہی ہی۔بظاہر مشین انسان کا وقت بچاتی ہے مگر یہ بچا ہوا وقت بھی بعض اوقات انہی مشینوں کے کل پرزے درست رکھنے میں صرف ہو جاتا ہی۔ مشین نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے ہی دور نہیں کیا بلکہ اُسے اپنے آپ سے بھی دور کر دیا ہی۔ جب ایک انسان دوسرے انسان کے قریب بیٹھتا تھاتو وہ نہ صرف تہذیب و اخلاق سیکھتا تھا بلکہ ان کے درمیان ایک تعلق ایک اُنس ،ایک محبت، ایک رشتہ ،ایک ناطہ قائم ہوتا تھا۔ لیکن مشین نے یہ قربتیں ختم کر کے آپ کے فاصلے بڑھا دئیے ہیں آج کے دور کا بچہ بھی اپنی انا اور تکبر کی وجہ سے کسی کی قربت میں جانے کی بجائے مشین کی معیت اور قربت کو ترجیع دیتا ہی۔ اس رفاقت کا حاصل کیا ہی، ایک دوسرے کی خبر گیری اور گرم جوشی، ایک دوسرے کا احساس ، ایک دوسرے کا خیال ختم ہوتا جا رہا ہے ۔جذبات میں سرد مہری پیدا ہوتی جا رہی ہے اور بے لوثی کی بجائے خود غرضی بڑھتی جا رہی ہی۔شاعرِ مشرق اِسی بات کو یوں بیان کرتے ہیں
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت۔احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آسائشات تو بڑھتی جا رہی ہیں لیکن آپس کی مقناطیسیت کم ہوتی جا رہی ہی۔انسانوں کے درمیان انس و محبت کے سوتے خشک ہونے کی وجہ سے ااور نخوت و تکبر کے بڑھتے جانے کی وجہ سے انسان انسان کی تباہی کا سامان پیداکرنے لگا ہی۔ جس انسان نے کائنات کے بے آباد گوشوں کو آباد کرنا تھا اسے زمین کے آباد حصوں کو ویران کرنے سے ہی فرصت نہیں جسے باغ اگانے تھے وہ خارزاروں کی پرورش میں مشغول ہی۔فطرت کا سب سے بڑا نمائندہ ہر خلافِ فطرت کام کرنے پر کمر بستہ ہی۔مشینوں کی صحبت کا ہی شاید اثر ہے کہ آج کاانسان اپنی ذات کے دائرے میں جی رہا ہی۔ آج کے انسان کی ساری گفتگو اپنی ذات کے محور کے گرد گھومنے لگی ہی۔اُس کی ساری دلچسپیاں اور مصروفیات اپنے تک ہی محدود ہو کر رہ گئیں ہیں۔ ہر شخص صرف اپنے بارے میں باتیں کرنا چاہتا ہی۔اپنے مسائل، اپنی خواہشات اور اپنے عزائم کی باتیں اپنی کامیابیوں اور اپنے حریف کی ناکامیوں کی باتیں۔ہر ایک کو سننے والے کان کی تلاش ہی۔ ہر ایک کے لئے اپنے مسائل بہت اہم ہیں اور دوسرے کے مسائل بے معنی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی ہر شخص تنہائی کی شکایت بھی کرتا ہی۔ تنہا وہی ہوتا ہے جس کو اپنی ذات کے بارے میں باتیں سننے والا نہ ملی۔ اصل میں جو شخص محض اپنی ذات میں جئے وہ دوسرے کی ضرورت نہیں بن سکتا اور جو دوسرے کی ضرورت نہ بن سکے وہ لازماَ تنہائی میں مبتلا ہوتا ہے ۔دوسرے کے مسائل میںدلچسپی لینے والا، ان کی ضرورت پوری کرنے والا، دوسرے کی غمی خوشی میں شامل ہونے والا ہی دراصل دوسروں کے نزدیک اہم ہوتا ہے ۔ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دینے والا کبھی تنہائی کا شکار نہیں ہو سکتا۔ محض اپنی ذات میں دلچسپی رکھنا اور تنہائی کی شکایت کرنا دو متضاد رویے ہیں اور جب تک ان دونوں رویوں کی اصلاح کر کے انہیں ہم آہنگ نہ کیا جائے تنہائی ہی مقدر بنتی جاتی ہی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved