اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-05-23

پیار کرو تو ان سے کرو
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

اس ترقی یافتہ دور میں کاٹھ کباڑ کے لوگوں کی تعدار بڑھتی جا رہی ہی۔کاٹھ کباڑ کے لوگ جب کسی خوبصورت پارک،کسی خوبصورت کھیت یا کسی جنگل میں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ اس میں موجود خوبصورت درختوں کی ہوا میں لہلہاتی ٹہنیوں کو دیکھ دیکھ کر مسرورہونے کے تصور کو ہی احمقانہ سمجھتے ہیںوہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ درخت میرے لئے کتنے مکعب فٹ لکڑی مہیا کر سکتے ہیں۔میں اس لکڑی سے کیا کیا بنا سکتا ہوں اور کتنا منافع کما سکتا ہوں۔ گزشتہ برس مجھے اتنا منافع ہوا تھا اور اس برس میں پچھلے سال کی نسبت کیسے زیادہ منافع کما سکتا ہوں۔ جب خوبصورت نظارے باہیں پھیلا کر ان کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ انگلیوں پر جمع تفریق کر رہے ہوتے ہیں ۔حسِ جمال والے لوگ جب کسی منظر ،کسی نظارے کسی جنگل میں سے گزرتے ہیں تو اپنے آپ کو خوشی سے بھر لیتے ہیں۔وہ درختوں کوصرف منافع کمانے کی نیت سے ہی نہیں دیکھتے بلکہ اِن کے حسن و جمال کے پہلو کو بھی سامنے رکھتے ہیں ۔ جب فطرت اُن کے لئے اپنا آنچل سرکاتی ہے تووہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے نہیں پائے جاتے بلکہ نقاب کشائی کے وقت جلوووں سے اپنے آپ کو مسرور کرلیتے ہیں۔ وہ ایسے لمحوں میں سود و زیاں سے بے
نیاز ہو جاتے ہیں ۔ وہ وقت کو روک لیتے ہیں۔وقت ان کے لئے تھم جاتا ہی۔ وہ اپنے حال میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ شعور کی آنکھ سے فطرت کی بکھری بل کھاتی زلفوںکے حسن و جمال سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ اس کے حسن و جمال کو ہر زاوئیے سے پرکھتے ہیں۔ خوشی ان کے اندر عود کر آتی ہے اوان کے رگ و ریشے میں سما جاتی ہے اور وہ گنگنا اُٹھتے ہیں۔
یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو
اپنے حواس کو کھولنے اور حقیقی طور پر بیدار کرنے کے لئے ہمیں مستقبل کے ساتھ ساتھ ماضی سے بھی دست بردار ہونا پڑتا ہے اور کچھ دیر کے لئے اپنے حال میں مقیم رہنا پڑتا ہی۔ قدرتی طور پر یہ کیفیت بچوں کو نصیب ہوتی ہے اور وہ ایسے لمحات سے اکثر مستفید ہوتے رہتے ہیں لیکن جوں جوں ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے وہ اس اہلیت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی یادداشت میں ان لمحات کی ہلکی سی یاد محفوظ رہ جاتی ہے اور باقی ماندہ زندگی کے دوران وہ ان لمحات کی یاد میں آہیں بھرتے رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے سفر پر گامزن ہوجاتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی ماسوائے موت کی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ناخوشی کی زندگی بسر کرنے کے عادی پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس دنیا کی ہر چیز سے خوشی کشید کرنے کے فن کے ماہر ہوتے ہیں۔ گندم کا ایک ہوا میں لہلہاتا ہوا کھیت ۔ ایک سر سبز و شاداب پہاڑی۔ بادل کا جھوم کے آنا، موسم سرما کی پہلی برف باری ، ننھے ننھے پودوں پر صبح کے وقت کی شبنم۔ان سب چیزوں سے ایسے لوگوں کے من کے تار خود بخود ہلنا شروع ہو جاتے ہیں اورایک جلترنگ سی بجنے لگتی ہی۔
بھیگی ہوائوں میں ایسی فضائوں میں، ہوش مجھے ہے کہاں، مستی بھرا ہے سماں
بہت سے ایسے لمحات سے جو خوشیوں سے لبریز ہو ںہماری رونمائی کے منتظر ہوتے ہیں محض اس لئے خوشی کشید نہیں کرپاتے کہ ہم زیادہ منافع کمانے کی دھن میں مگن ہوتے ہیں۔ہم اپنے روزمرہ کے کام کاج میں شعور کاصرف ایک فیصد حصہ استعمال کر رہے ہوتے ہیں بقایا 99 حصے ہم آنے والے کل کے خواب دیکھنے یا گزرے ہوئے کل کو یاد کرنے میں صرف کر دیتے ہیں ۔اگر ہم فوری طور پر ماضی اور مستقبل کی سوچوں سے کنارہ کشی اختیارلیں، ان سے دست بردار ہو جائیں۔حتٰی کہ ایک سیکنڈ کے لئے ہی تو ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں معصوم بچوں کی طرح آ کر ہم سے چمٹ جائیں۔ہم ان خوشیوں کو اپنے سینے پر لٹانے کے خواہشمند تو ہوتے ہیں لیکن ان کی طرف غصیلے نظروں سے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم اس خوشی کو حاصل کرنے کے متمنی بن جاتے ہیں تو سارے نظارے بلا جھجھک ہمارے قریب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سورج غروب ہونے کا منظر ۔ چاند کی ہر سو پھیلی ہوئی چاندنی۔بارش کے بعد ٹپ ٹپ گرتے پانی کے قطروں کی آواز ، کوئل کی کو کو ، پپیہے کی پی پی ٹھنڈی ہوا، جھومتی ڈالیاں اور نہ جانے کیا کچھ۔
مستی میں جھومے فضا۔گیت سنائے ہوا
کلیوں کے مکھڑے شبنم سے نکھری۔ رنگ سہانے کھیتوں میں بکھری
چھانے لگا ہے نشہ۔ گیت سنائے ہوا
ندیا کی لہریں کرنوں سے کھیلیں۔ پیڑوں سے لپٹیں بل کھاتی بیلیں
خوشیوں کی چھائی گھٹا۔ گیت سنائے ہوا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved