اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-06-07

ہمارے پھول اور انکی پرورش
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
بچوں کی تربیت ایک ٹیکنیکل کام ہی۔ اس لئے بچوں کی تربیت کرنے والوں کا اس تکنیکی کام کے لئے تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہی۔ میرے خیال میں اس کام کے لئے چھوٹی اور بڑی سطح پر والدین اور اساتذہ کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہی۔ اساتذہ کی تربیت کا تو پھر بھی کسی حد تک انتظام کیا جا رہا ہے لیکن والدین کے لئے اس قسم کا کوئی انتظام نہ ہی۔یہ کام صرف گورنمنٹ کے زیرِ انتظام ہی سرانجام دیا جا سکتا ہی۔ آئیے اپنے طور پر بچوں کی تربیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ بچوں کو پڑھاتے وقت والدین اور اساتذہ کو بچوں کی ذہنی استعداد کو پیشِ نظر رکھنا چاہےی۔بچوں کی سابقہ معلومات کی مد دسے سبق پڑھایا جانا چاہےی،بچوں کی دلچسپی کو مدِ نظر رکھا جانا چاہےی،آسان سے مشکل کی طرف پیش قدمی کی جا نی چاہےی،بچوں کی انفرادیت کا خیال رکھا جانا چاہےی،اسباق کو آسان انداز میں پیش کیا جا نا چاہےی،اساتذہ کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہےی،سزا دینے سے نہ صرف بچے کی انا مجروع ہوتی ہے بلکہ تدریسی عمل سے اسکی دلچسپی کم ہو جاتی ہی۔ مزید براں سزا کے خوف سے بچے جھوٹ اور مکروفریب جیسی بری عادتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔بلوغت کے زمانہ میں لڑکوں اور لڑکیوں میںتخلیقی صلاحیت پید اہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بچے اس دور میں مصوری، شاعری، ڈرامہ نگاری کہانی نویسی، سائنسی ایجادات اور ماڈل بنانے کے مشاغل اپناتے ہیں ۔ اس دور میں معلم کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو تعمیری رنگ دیں۔گھر کا ماحول بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہی۔ اگر گھر کے افراد بچے سے پیار محبت اور شفقت سے پیش آئیں تو بچے کی جذبات نارمل رہتے ہیں۔ اور وہ بے راہ روی کا شکار نہیںہوتا۔ والدین کی ناچاقی اور گھریلو جھگڑوں سے بچے دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں اس کی طبیعت میں چڑ چڑا پن آ جاتا ہے وہ بات بات پر جھگڑتے ہیں اورجذباتی اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول کشیدگی کی فضا سے لبریز نہ ہو تو اس گھر کے افراد متوازن شخصیت والے ہوتے ہیں۔ مدرسے کو بچے کا دوسرا گھر کہا جاتا ہے ۔ بچہ مدرسے کے ماحول کے اثرات قبول کرتا ہی۔ مدرسے کی جمہوری فضا کھلے میدان، کشادہ عمارات ہوادار کمرے اور تفریحات سے بچے کے جذبات کو تسکین ملتی ہی۔بچے کا تعلق گھر اور مدرسے کے علاوہ معاشرہ کے ساتھ بھی ہوتا ہی۔ بچے کے معاشرتی ماحول میں گلی محلہ بازار رشتہ دار عزیز دوست شامل ہیں۔ بچہ اپنے دوستوں عزیزوں اور دیگر لوگوں کے طور و اطوار سے اچھی یا بری عادتیں اپناتا ہی۔مثبت اور تعمیری جذبات سے نہ صرف انسان جسمانی طور پر صحت مند رہتا ہے بلکہ اس کی ذہنی نشونما پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ہی۔ تعمیری جذبات سے انسان پر جستجو، تحقیق اور غوروفکر کی راہیں کھلتی ہیں۔ مثبت جذبات رکھنے والے خوشگوار شخصیت کے مالک ہوتے ہیں جبکہ منفی جذبات کے مالک افراد زیادہ تر مایوسی پریشانی اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں اور وہ مختلف جسمانی امراض کا شکار رہتے ہیں۔بچوں کے منفی جذبات کا رخ مثبت سمت میں موڑا جا سکتا ہے وہ

(hathrasis)

 کے ذریعے طلباء میں خوف کے جذبے کو احتیاط میں، حسد کے جذبے کو رشک میں اور غصے کی جذبے کو مقابلے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

کوئی سبق پڑھانے سے پہلے ذہنی اور جسمانی طور پر طلباء کا امادہ کرنا ضروری ہوتا ہی۔ اس مقصد کے لئے دوسری معلومات کے ذریعے بچوں میں تجسس کا جذبہ پیدا کرنا چاہےی۔جب بچہ کسی مہارت کو توجہ اور انہماک سے سیکھتا ہے تووہ بہت جلد اس پر عبور حاصل کر لیتا ہی۔دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے جس مضمون میں دلچسپی لیتے ہیں آسانی سے اس پر عبور حاصل کر لیتے ہیں۔ دلچسپی پیدا ہونے سے تکان یا بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔جب کسی بچے کو اس کی کارکردگی پر شاباش دی جاتی ہے توطالب علم کو اس کی محنت کا صلہ مل جاتا ہے اس لئے اس میں لگن کا جذبہ پید ا ہوا جاتا ہی۔ایک جیسے مشاغل کو بار بار دہرانے سے بچے یکسانیت اور بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں مثلاَبزمِ ادب میں اگر ایک ہفتہ حمدو نعت اور حسنِ قرات کو شامل کیا جائے تو دوسرے ہفتے مباحثوں مکالموں اور ڈراموں کو اہمیت دی جائے پروگرام تبدیل ہونے سے بچے میں تجسس کے جذبات برقرار رہتے ہیں۔ وہ سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے رہتے ہیں۔ تکان اور بوریت کے تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ذہنی یا جسمانی تھکاوٹ سے انسانی جسم کی کارکردگی میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور وہ مزید کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔بچے الگ الگ فطری رحجان رکھتے ہیں۔بچے اپنی اپنی پسند کے مضامین میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فطری رحجانات کے مطابق مضامین کے انتخاب میں طلباء کی مدد کرنی چاہےی،بچوں میں مسابقت کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ مسابقت کے جذبے کا تعلیم پر مثبت اثر پڑتا ہی۔ مسابقت کے جذبے کو طلباء میں فروغ دینا چاہےی۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved