اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-06-12

رویوں کی سائنس
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
پڑھے لکھے لڑکے جب درس گاہوں سے فارغ ہو کر زندگی کے عملی میدان میں کودتے ہیں تو انہیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہی۔ وہ لوگوں کے رویوں سے اسلئے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں کہ اانہوں نے اپنی درسگاہوں میں ان رویوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھا ہوتا۔ وہ پکار اُٹھتے ہیں یہ عملی زندگی کا تو کوئی علم ہی نیا ہی۔ انسانی رویوں کے بارے میں ہماری درسگاہوں میںکچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا جبکہ ان رویوں کی عملی زندگی میں قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہی۔ روئیے ہمارے خیالات ، احساسات، جذبات، تصورات اور پسند و ناپسند کے عکاس ہوتے ہیں ۔یہ محرکات کاکام دیتے ہیں۔مستقل روئیے تعلیم و تربیت، تجربات ،عقل وشعور اور دوسرے لوگوں سے میل جول کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر ہم سماجی رسومات کے متعلق لوگوں کے روئیے کا جائزہ لیتے ہیں لیکن کبھی کبھی ملکی سیاست کے متعلق لوگوں کی رائے بھی لے لیتے ہیں۔ بعض اوقات فیشن غیر ملکی اشیاء کی خریدو فروخت پر لوگوں کے ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ گویا تمام معاملات میں لوگوں کی پسند و ناپسند جذبات و خیالات اور احساسات کو جانچنے کے لئے رویہ کو دیکھنا پڑتا ہی۔ ایک ماحول میں ایک خیال تقویت پاتا ہی، اس لئے ایک رویہ تشکیل پاتا ہی۔ مثلاَ کسی گھر میں باپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یالڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے توا س گھر میں مردوں کی برتری کا رویہ تشکیل پا جائے گا۔ بار بار کے تجربات سے کبھی ایک خیال یا ردِ عمل کو تقویت پہنچتی ہے اور اس طرح یہ رویہ بن جاتا ہی۔ مثلاَ پاکستان کی فلموں کے گرتے ہوئے معیار کو دیکھتے ہوئے ہر نئی فلم کے متعلق ہم ایک رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ بے شک ان میں چند اچھی بھی ہو سکتی ہیں مگر مجموعی طور پر ہمارا رویہ یہ ہوگا کہ آجکل کی فلمیں بالکل خراب ہیں۔بعض اوقات تلخ اور سنگین حادثات اور واقعات تن تنہا کس روئیے کو جنم دیتے ہیں مثلاَ ایک ناکام محبت کے بعد تما م عورتوں سے نفرت ہو جاتی ہی۔ ایک فرد کی ناپسندیدگی پورے گروہ کی ناپسندیدگی بن جاتی ہے جیسے کسی رکشہ یا ٹیکسی ڈرائیور کے نامہذب برتائو سے ان کے گروہ کے متعلق غلط رائے قائم ہو جاتی ہی۔ کسی کھانے سے اگر طبیعت خراب ہو جاتی ہے تو اس چیز کو کھانے کو دوبارہ دل نہیں چاہتا بلکہ خوف سا پیدا ہو جاتا ہی۔رویہ کی تشکیل میں گھر پڑوس دوست مدرسہ اور ہم پیشہ لوگ سب ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم پہلے سے بنے بنائے اور موجود رویوں کو اختیار کر لیتے ہیں مثلا والدین کی پسند و ناپسند بچوں پر اثر انداز ہو تی ہی۔ دوستوں کی وجہ سے ہم بعض چیزوں کو اچھی اور بعض کو بری کہنے لگتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی فیشن کے رسیا بن جاتے ہیں۔ بڑوں کے عقائد اور تعصبات ہم ا پنا لیتے ہیں۔بڑے ہو کر ہم شعوری طور پر گروہی جماعتی صوبائی اور ملکی تعلق کا اظہار کرنے لگتے ہیں اپنی جماعت اور اپنے گروہ میں ہمیں کوئی خامی نظر آتی ہی۔حب الوطنی ایک جذبہ ہے لیکن بعض اوقات تعصب کی عینک بڑھ جانے کے بعد یہ خطرناک بن جاتا ہے ۔ روئیوں کی وجہ سے ہمارے نظریات میں کسی حد تک یک رنگی آ جاتی ہے دوسروں کی بہت سی باتوں میں ہم گھل مل جاتے ہیں لیکن یہ کمزوری خود ان لوگوں کو نظر نہیں آتی۔یک رنگی کو قائم رکھنے کا رحجان رویے کو قابو میں رکھنے والے عوامل سے ہوتا ہے ۔رویہ ایک بار تبدیل ہونے کے خاصی مدت تک اسی حالت میں رہتا ہے جب تک دوسرے حالات اسکو پھر کسی نئی صورت میں تبدیل نہ کردیں۔ہر انسان کے اندر خیالات اور احساست کے عکاس رویے موجود ہوتے ہیں لیکن ہر شخص کے روئیے جس طرح جدا ہوتے ہیں اس طرح رویوں کی کمی بیشی یعنی شدت اور کمی بھی موجود ہوتی ہی۔ ہرشخص کوئی نہ کوئی خاص رویہ رکھتا ہے لیکن زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کے نزدیک اس رویہ کی کیا اہمیت ہی۔ مثلاَ ہر شخص خدا کی ذات پر یقین رکھتا ہے لیکن ایک اس یقین میں جو ش اور جذبے کا مظاہرہ کرتا ہے جب کہ دوسرا اس میں عام انداز اختیار کرتا ہی۔ اس طرح خدا کے نہ ماننے والوں میں ایک خاموشی اختیار کرتا ہے لیکن دوسرا زور و شور سے دہریت کی تبلیغ کرتا ہے یعنی یہ کسی بھی روئیے کی شدت کہلاتی ہی۔ ایک جیسا رویہ رکھنے والوںمیں بعض افراد رویوںمیں تبدیلی قبول کر لیتے ہیں بعض اس تبدیلی کی مزاحمت کرتے ہیں اور مضبوطی سے اس پر قائم رہتے ہیں۔ جو لوگ رویوں کی انتہا پر ہوتے ہیں وہ تبدیلی قبول نہیں کر پاتے جن افراد میں رویوں کی شدت زیادہ نہیں ہوتی تبدیلی قبول کر لیتے ہیں جب ہم کسی سے نفرت کریں، محبت کریں ،اس کی مذمت کریں یا اس کی تعریف کریں یا تنقید ان سے ہمارے رویوں کا اظہار ہوتا ہی۔ بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک رویوں کی نشو ونما ہوتی رہتی ہی۔ بچہ کو رفتہ رفتہ اپنی شخصیت کا احساس ہوتا ہی۔ وہ ماحول اور خود میں تمیز کرتا ہی۔بچوں اور بڑوں سے خود کو الگ کرنے لگتا ہی۔ آگے چل کر یہی رویہ میرے اسکول تیرے استاد مذہب ملک موسم رواج وغیرہ میں ڈھلتا ہی۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved