اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-06-13

آج
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

ایک وقت میں ایک قدم اُٹھایا جائے لیکن ہر قدم جما ہوا اور مستحکم ہو تو کوہ ہمالیہ جتنی مشکلات پر بھی آہستہ آہستہ قابو پایا جا سکتا ہیں۔ایک ایک لمحہ میں ایک ایک بیج بو یا جائے تو بنجر زمینوں میں لہلہاتی فصلیںاور ویران جگہوں پر ہرے بھرے جنگل اُگائے جا سکتے ہیں۔ایک ایک لمحہ میں گرنے والا ایک ایک قطرہ آہستہ آہستہ چشموں اور دریائوں کو جنم دے دیتا ہی۔ایک ایک لمحہ میں لکھا جانے والاایک ایک لفظ آہستہ آہستہ عظیم تخلیقات کی شکل اخیتار کر لیتا ہی۔ ایک ایک لمحہ میں لگایا جانے والاایک ایک پتھر آہستہ آہستہ ایک عظیم الشان محل تعمیر کر دیتا ہی۔ایک وقت میں ایک دشواری کا حل آہستہ آہستہ زندگی کی تمام مشکلات کو حل کر دیتا ہی۔ ایک وقت میں علم کا ایک موتی جمع ہوتے ہوتے ذہن کو فہم و دانش کے انمول خزینوں سے بھر دیتا ہی۔اس زندگی کا خرچ ہونے والا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک دن آخر کاراُس آخری منزل تک پہنچا دیتا ہے جسے ہم عرفِ عام میں موت کہتے ہیں۔ثابت ہوا کہ لمحہ لمحہ مل کر یا تو تعمیر کرتے ہیں یا تخریب۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم گزرنے والے لمحے میں اپنی تعمیر کرتے ہیں یا تخریب۔
جب سے ہم کچھ کر نے لگے ہیں ۔ لمحو ں میں رنگ بھر نے لگے ہیں
لمحوں میں جب زندگی بانٹی ۔ لمحے خود ہی سنور نے لگے ہیں
من کے آ نگن ہوئی ہریا لی ۔ جگنو اس پہ اتر نے لگے ہیں
امیدوں کے قطرے بن بن ۔ رم جھم رم جھم گرنے لگے ہیں

ہماری توانائیوں کے ضائع ہونے کی وجہ وہ بیشتر چیزیں ہیںجن کے لئے ہم وقت سے پہلے فکر مند رہتے ہیں۔یہ فکر مندی مستقبل میں پیش آنے والے وقت کی پلاننگ کے لئے نہیں ہوتی بلکہ محض توانائی کو ضائع کرنے کے لئے ہوتی ہی۔ مستقبل میں پیش آنے والی چیزیں ایسی نہیں ہیں جو آج سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ وہ ہیں جن کے ہونے کا امکان کل یا اس کے بعد ہوتا ہی۔ خوشگوار اور کامیاب زندگی بسر کرنے کے لئے اگرہم ایک سنہرے اصول کو اپنا لیں توہمارے سر سے بہت بڑا بوجھ اتر جائے جسے ہم نے بلاوجہ اپنے سر پر لاد رکھا ہی، وہ اصول یہ ہی،جو مسلہ آج دریپش ہے اس کو حل کرنے کی فکرآج کی جائے اور جو مسلہ کل درپیش ہوگا اس کے لئے فکر کو کل تک ملتوی کر دیا جائے تاکہ آج والے مسلہ پر پوری پوری توانائی صرف کی جا سکے اور کل والے مسلے پر آج کی توانائی ضائع نہ ہو۔ کسی پریشانی کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے لئے پریشان ہونا دانشمندی نہیں ہی۔اگر کسی ٹائپسٹ کو ملازمت سے قبل ایک ایسے کمرے میں لے جایا جائے جہاں ہزاروں لاکھوں خطوط اور کاغذات کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں اور اس کو بتلایا جائے کہ یہ دورانِ ملازمت اس کو ٹائپ کرنے ہوں گے تو سوچئے کہ وہ کیا کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ فوراِ یہی جواب دے گا۔ میں باز آیا ایسی ملازمت سے اور راہ فرار اختیار کرے گا۔لیکن تھوڑا تھوڑا کرکے یہ سب کام وہ بخوشی کر لے گا۔یہی صورتحال زندگی کی بھی ہے ہزاروں لاکھوں مسائل اور پریشانیاں ایسی ہیں جن سے ہمیں زندگی میں سابقہ پڑتا ہے اور جنہیں ہم نے حل کرنا ہوتاہی،اگر ہمیںیہ سب مشکلات اور پریشانیاں اکٹھی پڑی ہوئی کہیں نظر آ جائیں توہم یقینا بد حواس ہو جائیں۔ہمیں زندگی ناقابلِ برداشت محسوس ہی اسی لئے ہوتی ہے کہ ہم نے آنے والے وقت اور گزرنے والے وقت کو ایک ساتھ اپنے دماغ میں لادا ہوا ہے اور اس بوجھ کی وجہ سے ہمارے سانس پھولے ہوئے ہیں۔ گزرے ہوئے کل آنے والے کل کی مشکلات کو ہر وقت سر پر لادے لادے پھرنے سے حل نکلنے کی بجائے الجھائو میں اضافہ ہوتا جاتا ہی۔اصولی طور پر ایسا ہونا چاہیے کہ گزشتہ دن کی پریشانیاں تمام ہوچکیں ان سے تجربہ اور سبق حاصل کر کے انہیں فراموش کر دینا چاہےی،کل جو فیصلے کرنے ہیں وہ وقت آنے پر سوچے جائیں گی۔جن کے سوچنے کا ابھی وقت ہی نہیں آیا ان کے لئے سوچنا اور پریشان ہونا آ بیل مجھے مار والی بات ہوگی۔ ہماری تمام تر توجہ آج کے مسائل کا حل کرنے پر ہونا چاہیے اور ان سے بہر صورت آج نمٹ لینا چاہےی۔اگرہمارا طرز عمل یہ ہو تو زندگی خوشگوار اور آسان ہو جائے گی ۔ بھرپور زندگی اپنی تمام تر پریشانیاں کے باوجود، آج ،میں ہی۔اپنی توانائیوں کو اس فکر میں ضائع کرنا کہ کل کیا ہوگا حماقت ہے یا گزشتہ روز جو غلطیاں ہو گئیں اس کے غم میں گھلتے رہنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہی۔ اگر ہم فکر کرنا ضروری تصور کرتے ہیں تو جو کچھ آج ہو رہا ہے اس کی فکر کریں۔

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved