اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-06-28

ذہانتوں کا انخلا
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

ہم ان چند بد نصیب ممالک میں سے ہیں۔جس کے ذہین ترین لوگوں کی کثیر تعداد جب باہرپڑھنے گئی نوکری کرنے گئی توپھرو ہیں کی ہو کے رہ گئی۔ ےہاں تک کہ ان کی دوسری اور تیسری نسلیں تک آ گئیں۔جن ملکوں نے ترقیاں کیں کیا وہاں بھی ایسا ہوا۔ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں تجارت کرنے آئے کیا کسی نے ےہاں گھر بنایا۔ ےہاں کی شہرت حاصل کی ۔ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ جب ےہ لوگ وہاں سے نکلے تھے تو انگلستان میں اس قدر غربت تھی کہ کئی کئی دن کے فاقے وہاں کا معمول تھا۔ وہاں فقرا اتنے تھے کہ لوگوں کا بازاروں میں چلنا مشکل تھا۔ پورا یورپ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بدنام تھا۔ بچوں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا ۔ اُس وقت برصغیر سونے کی چڑیا ہوا کرتا تھا۔ جنگِ عظیم دوم میں جرمنی اور فرانس اےسے اجڑ گئے تھے کہ جیسے کھنڈر ہوتے ہیں۔پوری کی پوری سلطنت کو ازسرِ نو تعمیر کرنا تھا۔نئے سرے سے سارے نظام کو مضبوط بنانا تھا ۔کوئی بتا سکتا ہے کہ کتنے جرمن ڈاکٹر انجینئر پروفیسر اور ہنر مند امریکہ جاکر آباد ہوئے کہ اب اپنے ملک میں کیا رہنا ےہاں تباہی و بربادی کے سوا رکھا کیا ہے۔ اپنی اولاد کو مستقبل جا کر امریکہ میںسنوارتے ہیں۔ جاپان پر ایٹم بم گرے تو پورا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا۔ صحت تعلیم سڑکیں سب کچھ تباہ ہو گیا لیکن کتنے پڑھے لکھے جاپانی تھے جو اپنا ملک چھوڑ کر گئے کہ ہم زرمبادلہ کما کر بھیجیں گے تو ےہ ملک ترقی کرے گا۔ انہیں علم تھا کہ ملک باصلاحیت افراد کی موجودگی سے ترقی کرتا ہے۔ےہی وجہ ہے کہ وہ صرف تین سال بعد ہی عالمی اقتصادی طاقت بن چکے تھے۔ قوموں کی تاریخ میں برے سے برے دن آئے، قیامتیںٹوٹیں لیکن وہاں کے رہنے والوں نے اسی ماحول میں رہ کر خود کر پھر سے بہتر بنایا۔ ان ملکوں میں ساری کی ساری قومیں ایماندار نہیں تھیں کرپشن سے پاک نہیں تھیں ۔ سہولیات سے مزین نہیں تھیں لیکن ان کے ہنر مند وہیں رہے۔ آج دنیا بھر کے معاشیات دان ہمارے جیسے معاشروں کا ایک ہی المیہ بتاتے ہیں اور وہ ہے ذہانتوں کا انخلائ۔ یعنی قابل لوگوں کا کسی ملک کو چھوڑ جانا۔ےہ قابل لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں اس پاکستان کو چھوڑ گئے۔ آج ہوتے تو ایک توازن کا باعث ہوتے۔ےہ اپنے ساتھ ہزاروں لوگوں کو بھی ایماندار ی اور بہتر ماحول پر قائل کرتے۔ جس ملک میں ایک لاکھ وکیل ایک تحریک جنم دے لیں اور پوری قوم ان کے پیچھے چل پڑے وہاں ملک سے باہرکئی لاکھ ڈاکٹر اور انجینئر اگر اس ملک میں ہوتے تو کیا آج اس ملک کی ےہ حالت ہوتی۔ےہ باہر آباد ہونے والے سب ایمانداری سے رزق کمانے والے تھے۔ جس ملک میں اتنے ایماندار موجود ہوں اسے کوئی کیسے بے ایمان بنا سکتا تھا۔ جس ملک کا سرمایہ انسانوں کی صورت میں منتقل ہو رہا ہو وہاں معیشت زبوں حالی کا شکار نہ ہو تو کیا ہو۔کیسے کیسے جواز اور کیسی کیسی دلیلیں دیتے ہیں ےہ لوگ۔ پاکستان میں کس قدر کرپشن ہے۔ ناانصافی ہے، حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا، بے ایمان اور سفارشی کو سب کچھ حاصل ہے۔ امن و امان کی حالت اس قدر خراب کہ جانیں بھی محفوظ نہیں۔پولیس کے ظلم عدالتوں کی بے انصافی اور میرٹ کی بے قدری ہے۔بے روزگاری بھوک افلاس ہے۔ علاقائی تعصب ہے۔ ےہ درست لیکن اسی طرح ضرورت ہے جیسے ایک بیمار ماں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بیٹھے دور دراز اپنے قابل لائق اور صاحبِ حیثیت بھائی کو پکارا کرتے ہیں ۔ کیا کریں نہ آنے کے جواز اور دلائل تو ہر اس بیٹے کے پاس بھی ہزاروں ہوتے ہیں جو اپنے ماں باپ کی تکلیف و پریشانی بیماری مصیبت حالتِ نزاع کے وقت بھی ان تک نہیں پہنچ پاتا۔مصروفیت نوکری چھٹی کا نہ ملنا، کیرئیر تباہ ہونے کا خطرہ اےسے بہت سے جوابات ہم اور آپ سنتے ہیں لیکن ان سارے جوابات اور پھر سوالات کے تناظر میں مجھے ان سولہ کروڑ معصوم انسانوں پر بڑا ترس آیا جو انہی حالات میں ایسی ہی بے انصافی میں میرٹ کی بے قدری میں بددیانت قیادت میں زندگی کے دن ےہاں گزار رہے ہیں۔ اور پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ےہ سب بددیانت نہیں، چور نہیں قاتل نہیں یا دہشت گر دنہیں۔ چند اےسے بھی ہونگے مگر زیادہ تر گرمی کی دھوپ میں کھیت میں کام کرتے ہیں ، کارخانوں ، دکانوں دفتروں میں پسینہ بہاتے ہیں۔ہر وہ کام جس میں ان کی محنت سے اس ملک میں بہار کا موسم آتا ہے ان سولہ کروڑ لوگوں کے نصیب میں لکھی ہے۔ ےہ سب جواز اور وطن چھوڑنے کی دلیلیں انہیں بھی آتی ہیں لیکن سلام ہے ان پر جن کی محنت سے ہمارے کھیت آباد ہمارے کارخانے زندہ ہمارے جہاز ٹرین بس اور رکشے چلتے ہیں۔ ان سب کو بھی معلوم ہے کہ ان کی محنت پر چند لٹریرے عیش کرتے ہیں چند بے ایمان لوگوں کی تجوریاں بھرتی ہیں ۔ےہ سب برداشت کرتے ہیں لیکن نزاع کے عالم میں چھوڑ کر نہیں جاتے۔ےہ سب ڈاکٹر انجینئر سائنس دان جن پر میرے ملک نے لاکھوں روپے اس غریب قوم کے ٹیکسوں سے خرچ کر کے تعلیم دلوائی۔ اگر کوئی ایک ڈاکٹر اپنی پوری تعلیم کا خود خرچہ اٹھاتا تو اس کی جائیداد تک بک جاتی۔ےہ سب میڈیکل کالج انجینرنگ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے اس ملک کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں۔ کسی نے اس بات کی پرواہ کی کہ ےہاں مجھے وہ سب اس قوم کو واپس لوٹانا ہے۔ وہ ہنر اس قوم کے لئے استعمال کرنا ہے۔ ےہ سب ہنر مند اگر اپنے ملک میں ہوتے ۔جیسے باقی سولہ کروڑ وہاں ہیں ویسے ہی سختیاں برداشت کرتے تو شاید انہی لوگوں میں سے کوئی اس ملک کا نجات دہندہ نکل آتا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر جب اپنا سب عیش و آرام چھوڑ کر پاکستان آئے تھے تو تین امیر ترین ملکوں کی طرف سے انہیں عربوں ڈالر کی پیشکش ہوئی تھی۔ وہ جن مرعات میں ےہاں کام کرتے رہے وہ اس پیشکش سے کہیں کم تھیں ان کے ساتھ اس ملک نے کیا سلوک کیا لیکن جن کو اپنی دھرتی ماں سے محبت ہوتی ہے وہ اس کے ساتھ رہتے ہیں گلے شکوے اور جواز نہیں ڈھونڈا کرتے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved