اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-07-05

چنگ چی رکشے
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

اللہ بھلا کرے چائنا والوں کا جنہوں نے گھوڑوں کو کوچوانوں اور قصابوں سے نجات دلائی اور مشینی گھوڑے ایجاد کر کے لوہے کے تانگوں کے سامنے جوت دئیے ۔جب پنشن یافتہ مریل ٹٹو بکثرت بطور خوراک استعمال ہونے لگے تو گھوڑوں کی مقدار کم ہونے سے تانگوں کی مقدار کم ہونے لگی ایسی صورت میں لوگ ایک مشینی گھوڑے تانگے کی ضرورت محسوس کرنے لگی۔اللہ بھلا کرے چائنا والوں کا اِدھر کسی چیز کی غریب ممالک نے ضرورت محسوس کی اُدھر وہ فٹ مارکیٹ میں دستیاب ہو گئی۔اس طرح قسم قسم کے عربی ایرانی لیکن مشینی گھوڑے جو بنا چابک اپنے سوار کی مرضی سے دوڑتے ہیں اتنی مقدار میں آ گئے ہیں کہ سوار کم اور سواریاں زیادہ ہوتی جارہی ہیں۔صدقے جائوں اس مقامی ٹیکنالوجی کے ،فضائوں سے دیکھنے والا یوں محسوس کرتا ہے جیسے زمین پر چاند گاڑی رینگ رہی ہو۔ٌٔؐؔ سر ہے نہ پیر ہی۔ باقی سب خیر ہی۔یہ سواری کئی روپ دھار لیتی ہی۔ موٹر سائیکل کے پیچھے اگر ٹرالی لگالیں تو یہ ٹریکٹر ہے اگر سیٹیں لگا لیں تو بس ۔ ہرطرح کی ضرورت کے لئے استعمال، چاہے تو سواریاں بٹھا لیں اور چاہیں تو انڈے لاد لیں۔ اس سواری کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ رکشے بنڑے کے لئے کار کی جگہ سجائے جانے لگے ہیں۔بعض جگہوں پر اب بنڑی ڈولی کی بجائی،چنگی چی رکشے پر بیٹھ کر پیا دیس سدھاتی ہی۔بند رکشے کی نسبت اس کے زیادہ فوائد ہیں۔دھواں اور گرد سے شغل فرمانے والے کو یہ سہولت میسر رہتی ہی۔راہ جاتی سواریوں پر سگریٹ کا دھواں پھینکنے کی سہولت ہوتی ہے اور راستے میں جاتے ہوئے دوست کی گال پر پیار سے چپت لگانے کی بھی سہولت ہوتی ہی۔یہ سب سہولیات ایک عرصے سے تانگے فراہم کر رہے تھی۔بند رکشوں میں سفر کی بدولت عوام سے یہ سہولیات چھن گئیں ۔اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے چائنا نے چنگ چی تانگے عوام کو فراہم کر دئےی۔ملک میں اگر کسی روزگار کے اس وقت دروازے کھلے ہیں تو وہ رکشہ ڈرائیوری ہی۔ اس پیشے کی آمدن اورعیاشیاں دیکھ کر ؎اب پان سگریٹ بیچنے والوں نے بھی رکشے بنانے لگے ہیں۔ جا بجا اڈے اور ان اڈوں پر رکشوں کے غول کے غول موجودہیں۔ سواری دیکھ کر رکشے والے یوں جھپٹ پڑتے ہیں کہ جیسے سواری بھنڈارا تقسیم کرنے آئی ہو۔ سواری کا اس تپاک خیر مقدم ہوتا ہے جیسے کوئی ترقی یافتہ ملک کا سربراہ امدادی رقوم کا اعلان کرنے آ رہا ہو۔ اگر ان رکشہ ڈرائیوروں کی دست برد سے سواریوں کے کپڑے محفوظ رہیں تو یہ اُن کے اپنے اچھے نصیب کی بدولت ہوتا ہی۔ان ڈرائیوروں کی فراخ دلی کا یہ عالم ہے کہ اگر انہیں سواریاں مل جائیں تو بھائی پھیرو سے کراچی بھی جانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور اگر آپ کراچی شفٹ ہونا چاہتے ہیں تو بھائی پھیرو سے کراچی آپ کے گھر کا سارا سامان بھی لے جانے کے لئے تیار ہو جائیں گی۔ اگر تھوڑی سی مبالغہ کی اجازت دیں تو میں کہنے چلا ہوں کہ انہیں صحیح کرایہ ملے تو سائنس دانوں کو چاند پرچھوڑنے چلے جائیں گی۔ڈرائیوراپنی زبان میں چنگ چی رکشوں کو گاڑیاں کہتے ہیں۔صرف گاڑیاں کہنے پر ہی اکتفا کرلیں تو پھر بھی خیر ہی، انہیں سبک رفتار اور تیز گام جیسے ناموں سے بھی پکارنے سے باز نہیں آتی۔ اگر ان سبک رفتار وںاور تیز گاموں کی سپیڈ بیس میل فی گھنٹہ سے تجاوز کرے تو یا توان کے چین ٹوٹ جاتے ہیں یا خودہچکیاں لینے لگتے ہیں۔اِتنے دُکھ درد سے ہچکیاں لیتے ہیںکہ کمزور دل ترس کھا کر رونے لگ جاتے ہیں۔روتی تو اُس وقت رکشے میں بیٹھی ہوئی سواریاں بھی ہیں لیکن اپنے دُکھوں کو۔کوئی اپنے سر کو پکڑ کر رو رہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے ٹخنے کو۔اُس دوران رکشے میں سواریاں یوں آگے پیچھے ہل رہی ہوتی ہیں جیسے ہاوند دستہ۔جن دنوں ملک میں پیٹرول کی قلت ہو جاتی ہے ، جگہ جگہ یہ سبک رفتار گاڑیاں سڑک کے کنارے کندھوں کے بل لیٹی نظر آتی ہیں۔ دیکھنے والا پریشان ہو جاتا ہے کہ شایدگاڑی چلتے چلتے تھک گئی ہے اِ س لئے ذرا سانس دِلوانے کے لئے لٹائی گئی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہی۔ پیٹرول ٹینکی کی دوسری طرف جو چند قطرے پیٹرول کے چپکے ہوئے ہوتے ہیں انہیں نالیوں میں لانے کے لئے رکشے کو الٹایا جاتا ہی۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سواریاں آس پاس کے کھیتوں میں اپنے مثانے ہلکے کر لیتی ہیں۔جب ڈرائیور گاڑی کو سیدھا کرتا ہے تو تیز بھگاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کر جائے لیکن بے چاری سواریوں کے ساتھ وہ کچھ ہوتا ہے جو رسہ گیروں کے بغیر چوروں کے ساتھ ہوتا ہی۔ کسی کا ہاتھ چھپاک سے تھپڑ کی طرح کسی کے منہ پر پڑ رہا ہوتا ہے تو کوئی اپنی ہی ناک ٹخنوں سے ٹکرانے کی وجہ سے سہلا رہا ہوتا ہی۔ہر سواری دور سے یوں محسوس ہوتی ہے جیسے کچھ پڑھتی پڑھتی وجد میں آکر جھومتی جا رہی ہو۔کوئی کسی سے شکایت نہیں کرتا ۔ سب سواریاں نصیبوں کا لکھا سمجھ کر یہ سب کچھ برداشت کر رہی ہوتی ہیں۔ ڈرائیور سے آہستہ چلانے کا کوئی
اس لئے نہیں کہتاکہ وہ جانتا ہے کہ ڈرائیور نالیوں میں موجود پیٹرول سے زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرنے کے لئے یہ کر رہا ہوتا ہی۔اس لئے مشترکہ مفاد کی خاطر سب سفر کی یہ سعوبتیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتی جا رہی ہوتی ہیں۔موٹر سائیکل کی ڈگی سیٹ کے نیچے ہی ہوتی ہے اس لئے پچھلی سیٹ کی سواریوں کی ٹانگیں اس سامان کی زد میں ہوتی ہیں، جو شہر سے شاپنگ کی صورت لے جایاجا رہا ہوتا ہی۔بعض تیز دھار چیزوں کے پنڈلیوں پر بار بار ٹکرانے سے پنڈلیاں جابجا زخمی ہو جاتی ہیں۔کوئی بھی سواری زبان سے ہائے ہائے نہیں کرتی کہ مبادا بزدلوں میں شمار نہ کر لئے جائیں۔ ہر سوار مردانگی کی لاج رکھنے کے لئے خاموشی سے سب کچھ سہتی جاتی ہی۔اگر زیادہ تعدار میں سواریاں مل جائیں تو ڈرائیور اس رز ق پر لات نہیں مارتا اور جہاں جگہ ملتی ہے بٹھاتا چلا جاتا ہی۔ ایک سواری اپنے پیچھے جیسے گھوڑے کی زین کے پیچھے بٹھایا جاتا ہے دو سواریاں موٹر سائیکل کی ٹینکی پراور تین چار سواریاں موٹر سائیکل کی چھت پر بٹھا لیتا ہی۔ ٹینکی پر بیٹھی ہوئی سواری سے ڈرائیوربار بار درخواست کرتا ہے کہ سر نیچا کرو ۔ جس وقت وہ سر نیچے کر لیتا ہے تو ڈرائیور سامنے دیکھ لیتا ہے ورنہ اندازے سے ہی چلاتا چلا جاتا ہے اور سامنے سے آتی ہوئی سواری کو دیکھ کر دور سے ہی پکارنے لگتا ہے ’بچ کے ’بچ کی‘ ۔ سامنے سے آنے والی سواری اس موتِ بے نیام کو دیکھ کر دور سے ہی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر لیتی ہے کہ نہ پہنچنے سے تو دیر سے پہنچنا اچھا ہی۔رکشے کی چھت پر بیٹھی سواریاں اپنے انجام سے بے خبر ملکی سیاست پر گرما گرم بحث کرتی جا رہی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی راستے میں ناخوشگوار واقع پیش آ بھی جائے اور ہڈی پسلی ٹوٹنے کی نوبت نہ آئے تو کپڑے جھاڑ کر دوبارہ چھت پر سوار ہو جاتی ہیں اور سلسلہ کلام وہیں سے شروع کر لیتی ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔بہت سی دیشی سڑکوں کی بڑی تاریخی اہمیت ہے مثلا اِس سڑک سے ماضی میں دورے کے دوران لیڈی ڈیانا گزری ہوتی ہے اور اُس سڑک پر سے کبھی فلم سٹارجیاپرادھا گزری ہوتی ہیں۔اس تاریخی اہمیت کے سبب اس کے گڑھوں کو پر نہیں کیا جاتا کہ یہ تاریخی گزر گاہیںاپنی اصلی ہیت ہی نہ کھو بیٹھیں۔ان تاریخی گزر گاہوں سے گزر گزر کا اس علاقے کے رہائشی اس دنیا میں ہی اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر جاتے ہیں۔صرف اگلی سیٹ پر درمیان میں بیٹھی سواری اس سعادت سے محروم رہتی ہی۔دائیں بائیں کی سواریاںکے کندھوں والے فرشتے منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی کھاتے بے باک لکھ کر رجسٹر داخل دفتر کر لیتے ہیں۔ رکشے کے کیل کابلے سواری کے جسم سے چھیڑ خانی کرتے کرتے اُسے اس نوبت تک پہنچا دیتے ہیں کہ رکشے سے اترتی ہوئی سواری کو دیکھ کر سامنے والے یوں محسوس کرتے ہے جیسے ابھی ابھی محاذِ جنگ سے لوٹی ہو۔جن لوگوں کی کمر کی ہڈی کی درد کئی ڈاکٹروں اور حکیموں کے علاج سے نہیں جاتی وہ اس سواری کی بدولت رفع ہو جاتی ہی۔ ان رکشہ ڈرائیوروں نے رکشے کے پیچھے نظر وٹو کے طورپرپرانا جوتا باندھ رکھا ہوتا ہے اور اس کے اوپر لکھا ہوتا ہے جلنے والے کا منہ کالا۔ تو کہیے صاحب منہ کالا کروانے کا ارادہ ہے یا نہیں
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved