اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-07-19

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
مغرب اور امریکہ میں وہ کونسی خرابی ہے جو موجو د نہیں۔ شراب خانے ہیں ، جواخانے ہیں، ڈسکو قلب ہیں جہاں برہنہ رقص ہی۔ ہم جنس پرست ہیں۔ بچوں پر جنسی تشدد ہے ،۔ ایسے سینکڑوں ساحل ہیں جہاں لوگ صرف قدرتی لباس میں جا سکتے ہیں۔سکولوں میں جنسی تعلیم دی جاتی ہی۔ ایڈز ہی۔ غیر قانونی بچوں کی بھرمار ہی۔ ان سب خرابیوں کے باوجود ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر مغرب اورامریکہ نقل مکانی کرتے ہیں۔لوگ دس دس بیس بیس لاکھ روپے میں امریکہ کے ویزے خریدتے ہیں، سمندروں صحرائو اور جنگلوں میں چوری چھپے سفر کر کے امریکہ پہنچتے ہیں وہاں دو نمبر شہری کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں۔باعزت خاندانوں کے چشم و چراغ چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔جن ممالک سے یہ نوجوان نقل مقانی کر کے جاتے ہیں وہاںنہ شراب ہوتی ہی،نہ جوا ،نہ رقص اورنہ جنسی بے راہ روی ۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ اپنی روایات اوراپنے اسلامی معاشرے کوچھوڑ کر ایسے ملکوں میں کیوںجا نے کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔جن کی ہر چیز غیر اسلامی ہی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب اور امریکہ میں انصاف ہی، روزگار ہی، آگے بڑھنے کے مواقع ہیں۔ سسٹم آسان ہے آپ قرضہ لینا چاہتے ہیں فون کریں بینک کا نمائندہ آپ کے گھر آ جائے گا۔آپ کو کوئی مسلہ ہے پولیس کا نمبر ڈائل کریں پانچ سات منٹ میں پولیس آپ کے پاس ہوگی۔ آپ ہسپتال فون کریں ایمبولینس آئے گی آپ کو ہسپتال لے جائے گی ۔ جب تک آپ صحت یاب نہیں ہوتے کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں۔ مساوات ہے برابری ہی۔ہر شہری کی انا وقار اور عزت نفس محفوظ ہی۔ تعلیم بچوں کا حق ہے اگر والدین نہیں دیتے تو حکومت دے گی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انہوں نے یہ مقام پایا کیسی۔انہوں نے یہ مقام دن رات کی محنت سے پایا ہی۔ہمارے نوجوان سمندروں اور جنگلوں سے گزر کر جب ان ممالک میں داخل ہوتے ہیں تو کوہلو کے بیل کی طرح جت جاتے ہیں۔دن رات محنت کرتے ہیں۔ان میں سے بعض دوستوں سے سنا ہے کہ اگر ہم اس سے آدھی محنت بھی اپنے ملک میں کریں تو دوگنا کما لیں۔ مسلمانوں کے مغلوب ہونے کی دوسری جدید علوم سے دوری ہی۔اس دور میںجبکہ غاروں میں بیٹھے مجاہدوں پر سمندر میں کھڑے جہاز بمباری کر رہے ہیں ،بعض نہاد علماء تیروں اور تلواروں سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں،اونٹوں گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار ہو کر دشمن کا حملہ پسپا کرنا چاہتے ہیں۔کیا اب بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ کیا اب بھی انہیں ہوش نہیں آیا کہ جنگ تلواروں تیروں سے نکل کر جدیدعلوم کی محتاج ہو گئیں ہیں۔علم کا سمندر ہماری چوکھٹ کے قریب ٹھاٹھیں مار رہا ہے لیکن ہم اس سمندر میں اس لئے غوطہ نہیں لگا رہے کہ اس سمندر کا پانی پلید ہی۔کمپویٹر اور انٹرنیٹ ہر گھر کی دہلیز پر دستک د ے رہا ہے لیکن نام نہاد مبلغین اسے شیطان کی کارستانی بیان کر رہے ہیں۔اس علم سے کافروں کا سمندر سمجھ کر پہلو تہی کی جارہی ہی۔چندہ اکٹھا کر کے ہجروں میں کمپیوٹر رکھنا تو درکنار یہ جس جگہ پڑا ہو اُس جگہ کو پاک کرنے کے فتورے صادر ہو رہے ہیں۔ایسے لوگ ایجادو تخلیق کے اس لئے بیری ہیں کیونکہ خود فکری طور پر بانجھ ہیں۔یہ تحقیق و تخلیق کے اس لئے حریف ہیں کہ تخلیق ان کے بس کی بات نہیں۔اسی لئے یہ سب جھوٹ ہے کی بانسی بجاتے پھر رہے ہیں۔ یہ مبلغین اپنے اصل مسائل سے اس طرح آنکھیں موندے بیٹھے ہیں جیسے بلی کے حملہ آور ہونے سے پہلے کبوتر آنکھیں موند لیتا ہی۔عوام کی کسی محرومی مجبوری کا ذکر ان کی تبلیغ کا حصہ ہی نہیں ہوتا۔بھوک، بیماری ،بے روزگاری اور ان مسائل کا حل ان کی تبلیغ کا حصہ ہی نہیں ہوتا۔وقت کی ضرورت ہے کہ علماء کرام عوام میں محنت کی تحریک پیدا کریں۔ علماء کرام جدید علوم کا شوق ابھاریں۔جس طرح مسجدوں کے لئے چندہ مانگا جاتا ہے اسی طرح مسجدوں سے ملحقہ مدرسوں میں چندہ مانگ کر کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے قیمتی ترین بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ کیا جا سکے ۔دنیا اقتصادی سائنس کی بدولت چند عشروں میں ترقی کر رہی ہی۔چین ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا ۔ جس چین کو کبھی نشیوں کا ملک کہا جا تاتھا وہ دنیا کی دوسری بڑی سپر طاقت بن گیا ہی۔ہم بھی اگر خلوص نیت سے ہر سطع پر اپنے حالت بدلنے کی تگ و دو شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں عوام کو طفل تسلیاں دینے کی بجائے کہ ہم اپنی اقتصادی حالت نہ بدلیں
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved