اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-01

دیہات میں تعلیمی کمپلیس
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
ہٹلر نے کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔اب میں کہتا ہوں جب تک تم مجھے دیہات میں پڑھی لکھی مائیں نہیں دے سکو گے میں تمہیں بہترین قوم نہیں دے سکوں گا۔آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کیاہی۔دور دراز کے دیہات میں ملازمت کرنے والی اُستانیاں مسائل میں گھر ی ہوئی ہیں۔ اِن اُستانیوں کومختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہی۔ زیادہ تر دیہات ،جہاں لڑکیوں کے سکول واقع ہیں مین روڈ سے بہت دور واقع ہیں۔ان دیہات میں شہر سے براہ ِکوئی سواری نہیں جاتی۔اُستانیوں کوان سکولوں تک پہنچنے میں کئی سواریاں تبدیل کر کے جانا پڑتا ہی۔عام طور پر کسی مین روڈ کے بس سٹاپ یا دیہات کے لاری اڈہ سے بعض خواتین کو تو چنگ چی رکشے مل جاتے ہیں لیکن زیادہ تر اُستانیوں کو دو تین کلومیٹر کا فاصلہ کھیتوں سے طے کرتے ہوئے سکول تک پہنچنا ہوتا ہی۔اِن دیہاتوں کے اوباش لڑکے اکیلی لڑکی کو روزانہ آتے جاتے دیکھ کر اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے اور کب عزت لوٹیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے
کھیتوں کھلیانوں میں چھپ کران معصوموں کی عزت لوٹ لیتے ہیں۔ عزت اچھالے جانے کے خوف سے ان میں سے زیادہ تر لڑکیاں اعلٰی حکام کو رپورٹ ہی نہیں کرتیں۔ یہ اوباش نوجوان اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ دھمکیاں دینے لگتے ہیں ، اگر تم نے کوئی قدم اٹھایا تو یہ یاد رکھو کہ تم نے روزانہ یہیں سے گزرنا ہی۔ یہ بے چاری ان خوفوں کی وجہ سے عزت کے لٹ جانے کا بدلہ نہیں لے سکتیں۔ زیادہ تر مجبور لڑکیاں ہی ملازمت کرتی ہیں ورنہ ابھی دیہاتی کلچر لڑکی کو ملازمت کروانے کے لئے موافق نہیں۔ یہ مجبور لڑکیاں کئی طرح کے نشتر جھیلتی ہیں۔ رشتہ دار گز گز بھر کی لمبی زبانوں سے طعنوں کے نشتر چلاتے ہیں اور والدین کو بیٹی کی کمائی پر پلنے کا طعنہ دیتے ہیں۔طعنوں کے یہ نشتر اتنے تیز ہوتے ہیں کہ دیہاتی لڑکی کو ملازمت نہیں کرنے دیتی۔ دیہات کی نسبت شہر میں تعلیم کی شرح زیادہ ہوتی ہے اس لئے زیادہ تر شہری لڑکیاں ملازمت کرتی ہیں۔ وہ
کوشش کر کے اپنا تبادلہ شہر کے سکولوں میں کروالیتی ہیں، اس طرح دیہاتی سکول پھر خالی ہو جاتے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ جہاں چار استانیوں کی ضرورت ہے وہاں صرف ایک اُستانی کام کر رہی ہے اور جہاںدو استانیوں سے کام چل جاتا ہے وہاں چھ استانیاں کام کر رہی ہیں۔سو پچاس کی تعداد میںطالبات کو ایک اکیلی اُستانی پڑھا رہی ہی۔گورنمنٹ کے اعلٰی حکام اوپر بیٹھے الفاظ کے گورکھ دھندے سے یہ اطلاع موصول کر لیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہی،سکولوں میں استانیوں کی تعداد پوری ہے ۔ الفاظ کے گورکھ دھندے میں تو تعدار پوری ہی ہوتی ہے لیکن عملاَ ایسا نہیں ہوتا۔کہیں بہتات ہوتی ہے تو کہیں برائے نام۔اعلٰی حکام اتنی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ باہر نکل کر معلوم کریں کہ حقیت
کیا ہی۔اُن کی سٹیٹ منٹ میں فی سکول چار استانیاں ہیں لیکن حقیقت میں چار اُستانیوں کی جگہ ایک استانی کام کر رہی ہوتی ہی۔وہ ایک اُستانی پڑھا رہی ہوتی ہے جو راستے کی کئی طرح کی دشواریاں سہتے ہوئے اور معاشرے کے کئی نشتر جھیلتے ہوئے ان سکولوں تک پہنچتی ہی۔آپ خود اندازہ کریں کہ وہ کس قسم کی اور کس طرح سے تعلیم دیتی ہوگی۔ان دیہاتی سکولوں میں تعینات اب زیادہ تر بڑی عمر کی خواتین ہیںجن میں کام کرنے کا جذبہ بہت حد تک سرد پڑ گیا ہوتا ہی۔اعلٰی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ نوجوان لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد بے روزگاری کی زندگی گزار تے گزارتے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہے لیکن ان دیہاتی سکولوں میں ان تھکی ماندی اُستانیوں سے مستقبل کی مائیں خاک بازی کا درس لے رہی ہیں۔گورنمنٹ نے اب پرائمری سکول کی سطح پر سرکاری سکولوں میںانگلش میڈیم لازمی قرار دے دیا ہی۔ان پکی عمر کی خواتین کے لئے ان گرمی کی چھٹیوں میں تربیت کا انتظام کیا گیا ہے ۔یہ خواتین عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکی ہیں کہ انہیں صرف اپنی تنخواہ سے غرض ہے اور کسی تبدیلی یا تعلیم سے دلچسپی نہیں رہی۔یہ انگلش میڈیم کی تعلیم کی تربیت تو لے رہی ہیںلیکن اس پر عمل درآمد ان کے بس کا روگ ہی نہیں۔رہنمائے استاتذہ کے کتابچے ان خواتین کو جاری کئے جاتے ہیں جو الماریوں میں پڑے خود ہی تعلیم حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جن پر چلنا اِن استانیوں کے لئے جان جوکھوں کاکام ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنی ڈگر سے ہٹ نہیں سکتیں۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے دور دراز کے دیہات میں جگہ جگہ سکول قائم کرنے کی بجائے آٹھ یا دس گائوں کے بیچ میں تعلیمی کمپلیکس قائم کئے جائیں۔جہاں مناسب عمارت ہو۔عمدہ ماحول ہو۔جہاںجدید سہولیات میسر ہوں۔جہاں عمدہ کمپیوٹر لیب ہو۔ جہاںسٹاف کو لانے لے جانے والی سواری کا مناسب انتظام ہو۔تعلیم کا ایک معیار ہو۔ چار پانچ سو طالبات کو پڑھانے کے لئے مناسب مقدار میں فریش سٹاف موجود ہو جو کام کرنے کے جذبہ سے لیس ہو۔اگر ایسا ممکن ہو تو ہم مستقبل کی پڑھی لکھی مائیں بنا کر اچھی قوم پروان چڑھا سکیں ورنہ موجودہ صورتحال ہمیں دیہی جاہلیت سے ہرگز نہیں نکلنے دے گی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved