اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-03

احساسِ ندامت
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

بچے بہت حساس ہوتے ہیں ۔ہم بچوں کے لئے بعض الفاظ بلا سوچے سمجھے استعمال کئے جاتے ہیں۔ہم جن الفاظ کو شغل کے طور پر استعمال کرتے ہیں بچے ان کا بھی اثر لیتے ہیں اور مصنوعی غصے میں کہے گئے الفاظ کا اثر بھی لیتے ہیں۔ بچے میں اتنی اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ تخصیص کر سکے کہ یہ الفاظ شغل میں کہے گئے ہیں اور ان کا اثر لینے کی ضرورت نہیں۔بچے ان الفاظ کا اثر براہِ راست لیتے ہیں۔ان ا لفاظ سے بچے کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہی۔وہ عمر بھر کے لئے ذہنی طور پر اپاہج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مثلاَشغل میں بچے کو ’کالو‘ ،’ لمبو‘ ’چھوٹو‘ ’موٹو‘ کہنا ہمارا روز مرہ کا معمول ہوتا ہی۔اس طرح کے الفاظ سے بچوں کو چھیڑنا گھر کے افراد کا دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے ۔لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ حوصلہ شکن الفاظ وہ تلوار ہوتے ہیں جس سے ہم نا سمجھی میں بچے کے روحانی اعضاء کاٹتے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات جب ہم شغل میں حوصلہ شکن الفاظ استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو ہم پر وہی موڈ طاری ہوتا ہے جیسے ہم اپنی عمر کے دوست سے چھیڑ خوانی کر رہے ہوں۔ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے دوست اور ایک بچے کی ذہنی سطح کا زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہی۔دراصل بچے میں معصومیت اور بھولپن قدرت کی طرف سے ودیعت کیا جاتا ہی۔اُس کا یہ بھولپن ہمیں اُسے چھیڑنے پر اُکساتا ہے ۔یہ پیار کا جذبہ قدرت نے اس لئے رکھا ہوتا ہے کہ ان کی پرورش کرنا ہم پر دشوار نہ گزرے لیکن اس پیار میں ہم اُس کے ساتھ بعض اوقات وہ کچھ کر جاتے ہیں جو اُس کے لئے نقصان دہ ہوتا ہی۔ بعض اوقات ہم اُس کی اصلاح کے لئے نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں لیکن یہ الفاظ اُس کی تعمیر کی بجائے تخریب کرتے ہیں۔مزاق یا ناراضگی میں بعض الفاظ میگزین میں بھرے ہوئے کارتوس بن جاتے ہیں جو اُس کا سینہ چھلنی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مثلاَ والدین کہیں گے یہ تو بہت نکما ہی، یہ بھلا زندگی میں کیا کرے گا۔ یہ ہمیشہ فیل ہوگا۔ یہ کبھی نہیں پڑھ سکتا۔یہ بہت کند ذہن ہے یہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ تو ذہنی مریض ہی۔ جو بچے اس قسم کے تنبیہی جملے ہر وقت سنتے رہتے ہیں ،ان میں خوفِ ملامت پلنا شروع ہو جاتا ہی۔یہ ملامتی جملے بچے کی خود اعتمادی کو مسمار کرکے رکھ دیتے ہیں۔بڑے ہونے پراچھے اور عمدہ کام کر لینے کے بعد بھی وہ ملامت کے خوف میں ہی مبتلا رہتے ہیں کیونکہ بچپن کے ملامتی جملے اُسے کچوکے مارتے رہتے ہیں۔ ان کے دل میں ہر لمحہ اس بات کاخوف رہتا ہے کہ دنیا ان سے نفرت کرتی ہے ان کی دشمن ہے اور انہیں قابلِ ملامت تصور کرتی ہی۔ایسے بچے جب رات کو سوتے ہیں تو ان کے ذہن کے لاشعور میں اس قابلِ ملامت اور سزا کی زندگی کا تصور بیدار رہتا ہی۔ وہ ابتدائی عمر کے ان دل آویز لمحات میں پہنچ جاتے ہیں اور جب وہ بیدار ہوتے ہیں تو بھی احساسِ ملامت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ذہن کے تہہ خانے میں بچھو بن کر دن کوڈنگ مارتا رہتا ہے ۔ایسے بچے ہر لمحہ قسمت کی ٹھوکروں کے منتظر رہتے ہیں۔ان میں خطروں سے کھیلنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہی۔ملامت کا احساس ان سے محنت کرنے ترقی پانی، دشواریوں پر عبور حاصل کرنے اور اپنی کوتاہیوں سے نجات حاصل کرنے کی لگن اور ہر مشکل پر قابو پانے کا حوصلہ چھین لیتا ہی۔ اس کو شدید مایوسی احساسِ محرومی اور کمتری اور شکست خوردگی کے احساس کا شکار بنا دیتا ہی۔والدین کا یہ فرضِ اولین ہے کہ وہ بچوں کی حوصلہ شکنی نہ کریں ، کبھی ایسے الفاظ نہ ادا کریں جو ان کو کسی کمتری ، محرومی یا عمر بھر کے احساس ندامت میں مبتلا کر دیں۔بچوں کے ساتھ تعمیری رویہ اپنایا جائی۔ مثال کے طور پرر نگ کالا ہے تو مزاق اڑانے کی بجائے اُن بڑے لوگوں کی مثال دی جائے جو رنگ کے کالے اور قد کے چھوٹے تھے لیکن وہ بہت بڑے نامور انسان بنی۔ اگر وہ فیل ہو گیا ہے اور سرزنش کرنامقصود ہو تو پیار سے یہ بھی کہا جا سکتا ہی،تم بھی محنت سے پڑھتے تو احمد کی طرح کلاس میں اول آجاتی۔ تم میں بھی صلاحیت موجود ہی۔ اب یہ عہد کر لو آج سے خوب جی لگا کے پڑھو گے اور آئیندہ سال اول آئو گی۔دنیا میں جو بھی افراد کامیاب شمار کئے جاتے ہیں ، جن کی کامیابیوں اور ترقی پر ہم رشک کرتے ہیں ان میں ایک بھی ایسا نہیں جس نے ناکامی کا سامنا نہ کیا ہو۔ ا ن میں اور آپ میں فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے کبھی ناکامی سے ہار نہیں مانی، ہر ناکامی کے بعد پہلے سے زیادہ محنت اورلگن کے ساتھ کامیابی کیلئے جدو جہد کی۔ اپنی ناکامی کے بنیادی سبب کو تلاش کیا اور اس کی تلافی کی اور پھر کامیابی کی منز ل سر کر کے ہی دم لیاآپ بھی یہی کریں۔ حوصلہ افزا الفاظ اور ہمت بڑھانے کا رویہ بچوں پر جادو اثر کرتا ہے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved