اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

منظور قاد ر کالرو

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-05

ندامت اور پچھتاوا
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

ترقی کی راہ میں کوئی اور چیز اتنی رکاوٹ نہیں بنتی جتنی رُکاوٹ یہ پچھتاوے بنتے ہیں۔پچھتاوے انسان کی قوتِ عمل کو ضائع کرتے رہتے ہیں۔ انسانی توانائی فضول کام میں ضائع ہوتی رہتی ہے بلکہ سرے سے کوئی کام ہوتا ہی نہیں۔ پچھتاووں سی، کام کرانے والی قوت، کو ہی ہم خود، دیمک لگائے رکھتے ہیں۔اپنی ناکامیوں پر افسوس کرنا اور غلطیوں پر کڑھنا ایک روگ بلکہ ایک وبا بن چکا ہی۔ ُاے کاش یوں ہوتا‘ ُاگر مجھ سے یہ بھول نہ ہوتی‘ اگر میں جی لگا کر پڑھتا‘ اگر میرے ساتھ بہتر سلوک ہوتا‘ کاش اگر وہ نہ مرتا‘ یہ وہ پچھتاوے ہیں جن کے گر کولہو کے بیل کے طرح چکر لگا لگا کرہم اپنے حال کوبے کار کئے رکھتے ہیں۔ایسے خیالات دل پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہ خیالات کتنے ہی غلط ،فضول بے بنیاد اور فرضی کیوں نہ ہوں جب تک ان کا اثر غالب رہتا ہے ،یہ سخت نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔یہ تمام خیالات دراصل ماضی کے بھوت ہیں، ہم زندگی کے خواہ کسی بھی شعبے میں ہوں اور ہماری حیثیت کچھ بھی ہو ہمیں ان ماضی کے بھوتوں سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ بھوت کسی ایک چیز سے مخصوص نہیں ہوتی۔ بیماری،معاشرتی الجھنیں کاروباری ناکامیاں، کوئی بھی چیز کسی بھی وقت ان بھوتوں کا روپ دھار سکتی ہی۔بعض غلط فہمیاں جو بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں داخل ہو کر کسی شدید جذبے کے ساتھ دل کی گہرائیوں میں سرائیت کر گئی ہیں مزاج پر اس قدر حاوی ہو جاتی ہیں کہ انہیں دور کرنا بہت کٹھن ہو جاتا ہے ۔ کافی محنت اور پے در پے کوششوں ہی سے جھٹک جھٹک کر ہی انہیںدور کیا جا سکتا ہی۔یاسیت انگیز خیالات جن کے گرد چکر لگا لگا کر ہم اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہتے ہیں اگر ہم ان خیالات کو نکال دیں تو ہماری راہِ عمل صاف اور واضح ہو جائے گی اور جب ہماری راہ عمل صاف اور واضح ہو جائے گی تو ہم اپنی روح میں ایک نئی بیداری محسوس کریں گی۔اگر ہم ان یاس انگیز یادوں سے آزاد ہو جائیں تو ہمیں ایک بہت بڑا انعام حاصل ہوگا وہ یہ کہ ہمارے دل میں ایک مستی ایک ترنگ ایک والہانہ مسرت پیدا ہوگی۔ایسا محسوس ہوگا جیسے سینے سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔ ہم طبیعت کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کریں گی۔ دنیاوی کام دھندے بہت آسان معلوم ہونی۔ ہم محسوس کریں گے جیسے ہم عام سطح سے بہت بلند ہو گئے ہوں اور یہ احساس دوسرے لوگوں کو ہماری طرف کھینچنے میں ایک نہایت جاذب قوت بن جائے گا۔ نقصان دہ یادوں سے چھٹکارے کی مہم ایک جہاد کے طور پر ہی شروع کرنا چاہےی۔ اپنے آپ سے کچھ عہد لینے چاہےیں اور پھر انہیں نبھانا چاہےی۔یہ عہد کہ میں آئیندہ افسوس نہیں کروں گا کہ میں نے : بروقت صحیح علاج نہیں کروایا، میں نے پہلی عمر میں عمدہ کام نہیں کئی۔وہ لوگ جو مر چکے ہیں ان کے صدمہ، قلق افسوس اور دردکو فراموش کردوں گا۔ میں سابقہ ناکامیوں کی پریشان کن یادوں کو اپنے ذہن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محو کرتا ہوں کیونکہ موجودہ مشاغل میں بھی بہت کچھ دعوتِ فکرو عمل موجود ہی۔حال گوناں گوں مواقع کے ساتھ میرے پیشِ نظر ہے ۔میں اپنے کام کاج کو ایک نئے عزم اور نئے جذبے سے شروع کرنے کا عہد کرتا ہوں۔میں دوسروں کے جذبات کو صدمہ پہنچانے ،دوسروں کی ناکامیوں پر خوش ہونے اور کسی شخص کے سبقت لے جانے پر رنجیدہ اور دل گرفتہ ہونے کے خیالات کو تر ک کرنے کا عہد کرتا ہوں۔یہاں ایک وضاحت ضروری ہی۔اپنے گناہوں پر احساسِ ندامت اور چیز ہے اور پچھتاوے اور چیز ہیں۔اپنے گناہوں پر احساسِ ندامت بڑے کام کی چیز ہے لیکن پچھتاوے دیمک ہیں جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔احساسِ ندامت کے بعد انسان اپنے رب سے عہد کرتا ہے کہ اے میرے خالق و مالک میں اپنی سابقہ غلطی اور کوتاہی پر نادم ہوں، معافی مانگتا ہوں اور یہ عہد کرتا ہوں کہ یہ غلطی میں اب دوبارہ نہیں دہرائوں گا۔جب انسان اپنے اندر یہ عہد کرلیتا ہے تو یہ بھی یقین پیدا کر لے کہ معافی مل گئی ہے اور اُسے اپنے ذہن سے اتار دے ۔اگر احساسِ گناہ کو ذہن سے اتارا نہ جائے اور کولہو کے بیل کی طرح اس کے گرد چکر کاٹے جائیں تو یہ عمل روح کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیتا ہی۔گناہوں اور غلطیوں پراپنے آپ کو بار بار کچوکے مارتے رہنے کو پچھتاوا کہتے ہیں اور یہ روح کے لئے کینسر ہوتا ہی۔پچھتاوا انسان کے پر کاٹ کر رکھ دیتا ہے اس لئے ، غلطی پرنادم ہونی،سچے دل سے توبہ کرنے اور دوبارہ نہ دہرانے کے عزم کے بعد اسے ذہن کی کسی تہہ خانے میں دبانے کی بجائے ذہن سے یکسر اتار دینا چاہیے اور ایک نئے انسان کے روپ میں ایک نئے عزم کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرنی چاہےی۔
 
 
 
نصیر ظفر ایڈیٹر

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved