اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

منظور قاد ر کالرو

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-08

جہیز
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
پچھلے دنوں راولپنڈی کی تین بہنوں نے جہیز نہ ہونے پر خانپور ڈیم میں کود کر اپنی جان لے لی۔ سمرا، صائمہ اور آسیہ نے ایک ساتھ چھلانگ لگا لی۔ان تینوں کی منگنی ہو چکی تھی لیکن ان کے سسران جہیز کا تقاضا کرتے تھی۔ وہ جہیز تیار نہ ہو سکنے کی وجہ سے پیا دیس سدھانے کی بجائے ملک ِعدم سُدھا گئیں۔یہ ایک دن کی خبر ہو تو بندہ صبر کرے اس طرح کی رلانے والی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔مثلاَ معمولی جہیز کی بنا پر بیوی پر تیل چھڑک کر جلا دیا۔ کم جہیز لانے کی پاداش میں بیوی کو زہر پلا دیا۔ جہیز نہ لانے کے جرم میں شادی کے دوسرے روز دلہن کو قتل کر دیا۔کتنے دکھ اور کرب کی بات ہے کہ جگر کا ٹکڑا پال پوس کر جب دوسرے کے حوالے کرنے کا وقت آتا ہے تو دوسرابجائے سر تا پا شکر گزار ہونے کے نخرے کرنے لگتا ہے کہ دلہن ساتھ کیالا رہی ہی۔اس جرم کی سب سے بڑی مجرم ساس کو قرار دیا جانا چاہےی۔وہ عورت جو اپنی بیٹی کے لئے سر تا پا رحمت ہوتی ہے اچانک پرائی بیٹی بیاہتے ہوئے اُس کا روپ بالکل بدل جاتا ہی۔اُس کا نرم و گداز دل اچانک پتھر کا بن جاتا ہی۔ وہ عورت جو اپنی بچیوں کو بلا جہیز بیاہنے کی خواہشمند ہوتی ہے بہو کو جہیز سے لدا پھندا لانا چاہتی ہی۔ اگر گھر میں پیسہ ہو تو اولاد پر خرچ کرتے کسی کو بھی تکلیف نہیں ہوتی۔چاہے غریب والدین ہوں یا امیر والدین دونوں کا دل ایک سا ہوتا ہی۔ غریب بھی اپنے جگر کے ٹکٹروں کو سونے میں لاد دینا چاہتے ہیں لیکن وہ بے بس ہوتے ہیں۔سونے چاندی میں لادنا تو درکنار اُن کی دال روٹی بھی پوری نہیں پڑ رہی ہوتی۔اس مہنگائی کے طوفان میں بچت کہاں۔لیکن پھر بھی والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بھی بچت کرتے ہیں اور اپنی بچیوں کے جہیز کے لئے کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے رہتے ہیں۔اِس طرح کی پس انداز کی ہوئی رقم کو بھی دلہا کے گھر والے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔وہ مشکور ہونے کی بجائے دلہن کو تذہیق و تشنیع کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔مقامِ حیرت ہے کہ جگہ کم پڑتی جا رہی ہے اور چیزیں بڑھتی جا رہی ہیں۔چھوٹے چھوٹے گھروں میں جہیز کی ان چیزوں نے اتنی جگہ گھیری ہوئی ہوتی ہے کہ بیٹھنے سونے کو جگہ نہیں ملتی لیکن پھر بھی نئی دلہن کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان کو تقاضا ہو رہا ہوتا ہی۔جہیز کے ساتھ ساتھ بارات کا کھانا بھی اکثر لڑکی والوں کے ہی ذمہ ہوتا ہی۔بعض لڑکے والے تو اپنے گھر میں ولیمہ کا کھانا بھی بچا لیتے ہیں اور لڑکی کے ہاں سے کھانا وغیرہ کھلا کر مہمانوں کو فارغ کر دیتے ہیں۔صاحب ِ ثروت ہونا اور نمودو نمائش کا عنصر اس جرم کو پھیلانے کی محرک ہیں۔بھاری بھرکم جہیز کے پسِ پردہ جذبہ نمودونمائش بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور اکثر دیہی علاقوں میں تو جہیز کا سامان بھکیر کر اپنی دولت کے جاہ وجلال سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی تاکہ گائوں یا محلے میں جاہ و حشمت کی دھاک بیٹھ جائے اور سسرالی گھر میں بیٹی کی عزت بھی بن جائی۔رسم و رواجوں کے آہنی شکنجے میں جکڑے والدین بسا اوقات بھاری قرض لے کر اس انسانیت سوز رسم کا دم بھرتے ہیں اور پھر سالہا سال قرض اتارنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔بعض اوقات قرض اتارتے اتارتے والدین آنکھیں موند لیتے ہیں اور یہ قرض اگلی نسلوں کو منتقل ہو جاتا ہے ۔ا لڑ کی کا باپ ہونا معاشرے میں ایک بہت بڑا جرم بن گیا ہی۔قابلِ تحسین ہیں وہ والدین جو بچیوں کو اعلٰی تعلیم دلواتے ہیں۔ ان کو اعلٰی اخلاق سکھاتے ہیں اور عمدہ تربیت دیتے ہیں۔یہ کام وہ صرف اپنی بیٹی کی محبت میں کرتے ہیں اور کسی انعام یا وصولی کے لالچ کے بغیر کرتے ہیں۔رونا تو اُس وقت آتا ہے جب بچی کے والدین اپنی بچی کو اعلٰی تعلیم و اخلاق سے آراستہ کرنے کے بعد بھی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر بٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بہت سے پڑھے لکھے گھرانے بھی بچی کی اعلٰی تعلیم و اخلاق کو ہی سب سے بڑی خوبی سمجھتے ہوئے جہیز لینے سے انکار نہیں کرتی۔وہ جس انمول شخص کو مانگنے آتے ہیں بنا جہیز لینے کے لئے بضد نہیں ہوتی۔بہت سی تنظیمیں معرضِ وجود میں آ چکی ہیں لیکن آج تک ایسی کوئی تنظیم وجود میں نہیں آئی جو لوگوں میں شعور آگہی اور تحریک پیدا کرے کہ وہ جہیز سے اجتناب کریں۔نمودو نمائش سے معاشرے کو بچانے کے لئے اقدامات اٹھائی۔ گورنمنٹ کی طرف سے مشترکہ شادیوں کا پچھلی حکومت میں قدم اٹھایا گیا تھا۔ ان مشترکہ شادیوں کے اخراجات گونمنٹ برداشت کرتی تھی۔ بہت سے والداین اپنی سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے ان مشترکہ شادیوں سے اجتناب کرتے تھے لین یہ نہ ہونے سے بہت کچھ ہونا بہتر والی بات تھی۔بہت سے مجبور والدین کا فریضہ اس طرح ادا ہو رہا تھا۔گورنمنٹ کو اپنی مجبوریوں کے باجود اس پہلو پر نظر کرنا چاہےی۔ہزارو ں نہیں لاکھوں کی تعداد میں لڑکیاں اس قبیع رسم کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔یہ رسم ایک معاشرتی ناسور بن گئی ہی۔اس کی شکل و صورت بدلنے کی سخت ضرورت ہی۔یہ تو تصویر کا ایک رخ ہی۔دوسرا رخ یہ ہے کہ بڑے بڑے جاگیر دار گھرانوں کی بیٹیاں محض اس لئے گھر بٹھا لی جاتی ہیں کہ ان کے نام زمین ہوتی ہے اور ان کی شادی سے وہ زمین دوسرے خاندان کو منتقل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہی۔ایسے گھرانوں کی جن بچیوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا جاتا ہی، انہیں ذہنی طور پر اس حد تک بریف کر دیا جاتا ہے کہ وہ والدین سے اپنا حصہ مانگنے کو گناہِ کبیرہ سمجھتی ہیں۔اگر سو میں سے ایک یہ ہمت کرہی لیتی ہے تو برسوں تک اُسے اچھوت ہی سمجھا جاتا رہتا ہے اور اُس سے سب رشتے ناطے منقطع کر لئے جاتے ہیں۔شرع نے جہاں دوسرے مذاہب کے برعکس صنفِ نازک کے مقام و مرتبہ کو بلند کیا ہے وہاں جائداد میں بھی ان کا حصہ مقرر کیا ہی۔قرآنِ پاک میں واضع الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ مقرر کیا ہی۔بڑے بڑے دینداری کا دعویٰ کرنے والے بھی شریعت کے اس حکم پر جانتے بوجھتے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔لوگ جائیداد میں حصہ دینے کی بجائے جہیز کے ذریعے اس کی تلافی کرتے ہیں۔
 
 
نصیر ظفر ایڈیٹر

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved