اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

منظور قاد ر کالرو

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-13

حقہ
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

اگر حقے کو حقہ نوش کی زندگی سے منفی کر دیا جائے تو باقی صفر بچتا ہی۔حقہ نوش کی تمام رونقیں حقے کے دم قدم سے وابستہ ہوتی ہو جاتی ہیں۔حقہ نوش کوآپ قلاقند دے دیں، کشمش دیں،کوفتے دیں یا قورما آپ نے اُسے کچھ بھی نہیں دیااور حقہ دے دیا تو گویا کونین بخش دیا۔حقہ نوش کی اصل خدمت تازہ کھانا نہیں بلکہ تازہ حقہ ہی۔کھانا دودھ یا چائے حقہ کش اس لئے پیتے ہیں کہ اس سے حقے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہی،کھانے سے وابسطہ ذائقے سے اِن کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔حقہ نوش کے سب فلیورصرف حقے کے دھوئیںسے وابسطہ ہو تے ہیں۔حقہ نوش جسمانی طور پر اگرکبھی حقے سے دُور چلا بھی جائے تو بھی روحانی طور پر وہ حقہ کے گرد ہی طواف کرتا رہتا ہے اور جب واپس آتا ہے تو اس قدر حقہ نوشی کرتا ہے کہ کانوں سے بھی دھواں خارج ہونے لگتا ہی۔حقے سے جدائی کے وقت سگریٹ انہیں ڈھارس بندھاتے ہیں۔حقہ کش حقے سے علیحدگی کے وقت دو دو تین تین سگریٹ اکٹھے پی جاتے ہیں لیکن پھر بھی پیاسے کے پیاسے رہتے ہیں۔حقہ کشی علیحدہ علیحدہ بھی ہوتی ہے اور باجماعت بھی۔تنہائی پسند حقہ کش حقے کو غمگسار سمجھتے ہیں۔ایسے حقہ کش خود ہی اما م اور خود ہی مقتدی ہوتے ہیں۔خود ہی انجمن اور خود ہی جانِ محفل ہوتے ہیں۔جب حقہ تازہ ہو تو کش لینے کے بعد راگ مال سری گاتے ہیں اور بجھا ہو اہو توجمائیاں لیتے لیتے کہنے لگتے ہیں پاکستان بنانے کی کیا ضرور ت تھی۔اگر کہہ دیا جائے کہ اب بن ہی گیا ہے تو اِسے چلانے کی کوئی سبیل کروتو کہتے ہیںپہلے کڑوا تمباکو ڈال کر حقہ تازہ کر دو پھر دیکھیں گی۔دوسری قسم خانہ بدوش حقہ کش ہیں۔یہ راہ چلتے مسافروں کے لئے فی سبیل اللہ اور صدقہ جاریہ کے طور پر یہ کنواںوقف کرتے ہیں۔حقیقت کچھ اور ہوتی ہی۔دراصل انہیں کوئی منہ نہیں لگاتا وہ سٹرک کے کنارے حقے سے کڑکی لگا کے بیٹھ جاتے ہیں۔جلد ہی اُن کے گرد حلقہ بن جاتا ہی۔وہ صاحبِ اقتدار ہونے کی وجہ سے وہ سب باتیں سنا لیتے ہیں جو عام حالات میں کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جہاں حقہ نوشی باجماعت ہوتی ہے وہاں کے حقوں کے پیندوں میں بیرنگ ہوتا ہی۔ ہر شخص دو کش لگانے کے بعد حقے کی نے اگلے ساتھی کی طرف سرکا دیتا ہے اور خوددھوئیں کو دانتوں سے نکالنے کے لئے خلال کرنے لگتا ہی۔ہلکے اشارے سے حقے کی نَے ایک سیکنڈ میں پورا چکر کاٹ کر دوبارہ پہلے امیدوار کے منہ پر تھپڑ کی طرح آ لگتی ہے اس لئے ہر اُمیدوار پہلے سے ہی باخبر ہو جاتا ہے اور پچھلے شخص کے آخری کش لگانے سے پہلے ہی ہوشیار ہو جاتاہے ۔جونہی مے کش نَے سے ہاتھ اٹھاتا ہے اگلا شخص اِسے جھپٹ لیتا ہے ورنہ تیسرے شخص کے پاس نَے پہنچ جائے تو دوسرا سبکی محسوس کرتا ہے ۔ اگر تیسرا واپس دوسرے کی طرف نٰے کرے تو اس کا انداز ایسا ہوتا جیسے ترس کھا کر واپس کر رہا ہو اور دوسرا بھی بادلِ نخواستہ کش تو لگا لیتا ہے لیکن شرمندہ سا ہو کر ۔جو شخص تازہ تازہ کھانا کھا کر حقہ پینے والوں کی صف میں شامل ہوتا ہے اس کا خاص خیال رکھا جاتا اوراُسے پے در پے کش لگانے کی مہلت دی جاتی ہی۔جب دھواں شاہ رگ تک پہنچ جاتا ہے تو دھوئیںکی طغیانی آ جاتی ہے اورکھانستے کھانستے حقہ نوش کی آنکھوں سے پانی آ جاتا ہے لیکن جب سانس بحال ہوتا ہے تو پھر حقہ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔اگلا امیدوار کانی آنکھ سے دیکھتا رہتا جونہی یہ فارغ ہوتا ہے وہ نے پکڑ لیتا۔ جو شخص کھانا کھانے کے بعد حقے پر حملہ آور ہوتا وہ اتنا سیر ہو جاتا ہے کہ دو تین ٹرموں تک اس کا سر چکراتا رہتا ہے اور تھوڑی دیر کے لئے ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہی۔اب یہ شخص ہر بار ہاتھ سے نے کو روکنے کی بجائے ذرا سا پیچھے ہو جاتا ہے اور اس کا اگلا امیداور سمجھ جاتا تھا کہ ان کا برتن ابھی تک لبا لب بھرا ہوا ہی۔اس خمار کی کیفیت میں زبان کو حرکت دینا ناگزیر ہو توتکلم ہاتھوں کے اشاروںسے ہوتا ہی۔حقہ کشی کے دوران متعدد موضوعات یعنی کاشتکاری سے لے کر حکومتی معاملات تک سب موضوعات زیرِ بحث آتے رہتے تھی۔حقے کے گرد گفتگو کے بڑے بڑے چیمپین اکٹھے ہو جاتے ہیں۔چارپائی کے ایک کونہ پر بیٹھے بارہ بارہ گھنٹے مسلسل بول سکتے ہیں۔یہ واقعاتی لوگ معمولی بات کو بھی واقع کی طرح سناتے ہیں۔مثلاَ آپ یہی پوچھ بیٹھے کہ آپ نے بالوں پر یہ خضاب کس سے لگوایا ہی۔وہ پہلے تو خضاب کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل آپ کو بتائیں گی۔پھر بتائیں گے کہ کون کون سی فرم اسے تیار کرتی ہی۔اسے تیار کرنے والی کونسی فرم خسارے میں ہے اور کونسی منافع میں ہی۔گورنمنٹ کی ان فرموں کے بارے میں پالیسی کیا ہی۔اس خضاب کے لگانے کے کیا کیا نقصانات ہیں۔اگر کبھی خضاب سے الرجی ہو جائے تو اس کے لئے کون کون سی دوائیں اور کہاں کہاں ڈاکٹر ہیں۔آپ جہاں بیٹھے ہیں وہیں کہیں ایک چمچ پڑا ہی۔آپ پوچھ بیٹھیں کہ یہ چمچ یہاں کیوں پڑا ہی۔وہ سب سے پہلے چمچ کے سائز پر بات کریں گے پھر چمچ کے مختلف ڈیزائن پر بات کریں گی۔کون کون سے ملک سے پاکستان چمچ درآمد کرتا ہے چمچہ کا سیاسی استعمال کیا ہی۔چمچ نہ ہو تو مہمان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہےی۔ان سب موضوعات میں ان کے پاس پہروں گفتگو کرنے کے لئے مواد موجود ہی۔اللہ نے ان لوگوں کے لئے شکار بھی پیدا کر رکھے ہیں۔جو پہروں ان کی شکل تکتے رہتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ میری بات کو بڑے غور سے سن رہا ہے حالانکہ وہ اپنے گھریلو مسائل پر سوچ رہے ہوتے ہیں۔ تازہ حقے سے حقہ نوش کے ذہن میں علمی قندیلیں روشن ہونے لگتی ہیں۔ان پڑھ آدمی بھی علمِ نجوم،علمِ ہندسہ ، علمِ ہیئت ،علمِ منطق، علمِ فلسفہ ، علمِ نباتات، علمِ فقہ، علمِ غیب،علمِ رمل، علمِ ریاضی، علمِ عروض، علمِ حدیث ، علمِ تصوف، علمِ مناظرہ اور علمِ موسیقی پرپر اپنی ماہرانہ رائے دینے لگتا ہی۔پہلی جماعت سے بھاگے ہوئے بھی کڑوا حقہ پینے کے بعد مقنن بن جاتے ہیں اور ایسے ایسے قانونی نقطوں کی موشگافیاں کرتے ہیں کہ بے چارے قانون دانوںکو اپنی روزی ہاتھ سے جاتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہی۔اگر تمبا کو میںچھوٹی الائچی شامل کر کے حقہ تازہ کیا جائے تو پینے والا پاس بیٹھے ہوئے کولیگوںکا جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے لگتا ہی۔کڑوے تمباکو کی تاثیرسے شعلہ بیانی آ جاتی ہے ورنہ گفتگو کرنے والا ہر فقرے سے پہلے جمائی لیتا ہے جس کے دوران دھوئیں کو اخراج کے لئے جو جگہ ملتی ہے وہیں سے خارج ہوتا چلا جاتا ہی، جیسے باورچی خانہ میں موجود چولہا لکڑیاں جلا کر گرم کیا جائے اور اس کا دروازہ اورکھڑکیاں بند کر دی جائیں تو دھواں کیواڑوں سے نکلتا ہی۔چھینک یاڈانٹ ڈپٹ کے وقت یہ صورتحال اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہی۔محفلِ حقہ کے میزبان صبح سے لے کر رات گئے تک ہر محفل میںپائنتی پر پڑے مسلسل حقہ تناول کرتے رہتے ہیں۔یہ حقے کے اِس قدر رسیا ہوتے ہیں کہ ا گر حجام شیو بھی بنا رہا ہوں تو حقے کی نال منہ کے قریب ہی رکھتے ہیں اور جس وقت نائی استرا صاف کرنے کا وقفہ کرتا ہے یہ پے درپے کش لگا لیتے ہیں۔اِس دوران جسم کے کسی حصے پر کھجلی ہو تو وہ بھی حقے کی نے سے ہی کر لی جاتی ہی۔حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر حقہ نوشی سے سوائے دو چار بار کھانسنے کے اُسے کچھ بھی نہیں ہوتا۔خواندہ حضرات ناک کے راستے جب دھواں خارج کرتے ہیں تو دھوئیں کے دو متوازی خطوط دور تک فضا میں جاتے ہوئے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے دور افق پررن وے سے طیارہ اُٹھ رہا ہو لیکن ناخواندہ حضرات دھوئیں کی کلیاں کر رہے ہوتے ہیں جنہیں خواندہ لوگ مے خانے کی توہین سمجھتے ہیں۔منہ سے کچھ نہیں کہتے لیکن اُن کی کیفیت ایسے ہوتی ہے جیسے کہہ رہے ہوں اُف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔خواندہ حضرات ان ناخواندہ لوگوں کو حقہ دینا سائیکل چلانا نہ جاننے والے کو اپنا سائیکل پیش کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔جن کے پاس اچھا تمباکو ہو وہ اپنے آپ کو اہلِ ثروت سمجھتا ہے اور جن کے پاس اچھا تمباکو نہ ہو اُسے حقہ نوش طبقہ ٹٹ پونجئے کہتے ہیں۔ابتدائی کشوں کو حقہ نوش دیسی گھی کے گھونٹ قرار دیتا ہی۔ ابتدائی کشوں کی حلاوت پر حقہ نوش بلخ بخارہ بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔حقہ تیار کرنے والا ابتدائی کش جزیہ کے طور پر لگا لیتا ہی۔یہ کش تزکیہ نفس کے لئے اکثیر سمجھے جاتے ہیں۔بے حد تھکا ہوا حقہ نوش بھی یہ ابتدائی کش لینے کے بعد چاک و چوبند ہو جاتا ہی۔ تجدیدِ حقہ نہ ہوئی ہو توحقہ نوش تیمم کرتے رہتے ہیں یعنی فوت شدہ چلم سے ہی غنچہ شوق کو ہرا کرتے رہتے ہیںاور تجدیدِ حقہ ہونے کے بعد قضائیں دیتے رہتے ہیں۔حقہ نوش حقے کو شافی امراض سمجھتے ہیں۔ جب کوئی حقہ کے خلاف بولتا ہے تو دفاع میںحقہ نوش اِسے اخراجِ بلغم

Expectorant

اور دافع ریح ہوا قرار دیتے ہیں اور تاریخی لحاظ سے اسے حکیم لقمان سے وابستہ کرتے ہیں۔اگر ڈاکٹر حضرات حقے کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہ پڑیں تو مقوی قلب قرار دینے سے بھی ذرا نہ ہچکچائیں۔ڈاکٹر اگر قلب کے مریضوں کو حقے کو تین طلاقیں دینے کے لئے کہتے ہیں تو ایک عددد ھواں دھار ڈکار سے نواز نے کے بعد کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب کوئی اور بات کریں اب حقے سے جدائی نہ ڈالیں۔اگر یہ لوگ صاحبِ فراش ہوں اور ڈاکٹر کہے کہ تیرا باطن بالکل سیاہ ہے تو کہہ دیتے ہیں ڈاکٹر صاحب آپ بھی جتنے پارسا ہیں ہمیں سب پتہ ہے اور ڈاکٹر کہہ دے کہ حقہ چھوڑ دیں تو فیس دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں کہ تمہیں تو ڈاکٹری آتی ہی نہیں ۔ ڈاکٹر کو بھی ایسے ایسے حقے کے فضائل بیان کرتے ہیں ۔خاص طور پر ہاضمے کی تمام خرابیوں کا شافع اِس طورحقے کو قرار دیتے ہیں کہ ڈاکٹر بھی گھر پہنچ کر حقہ تازہ کروالیتا ہے اور دو کش لینے کے بعد راگ مالکوس گانے لگتا ہی۔ جید حقہ نوشوں کے پھیپھڑوں میں روشنائی اس قدر اکٹھی ہو جاتی ہے کہ آس پاس کی مکھیاں بھی ان کے سانس باہر نکالنے کے عمل کے دوران جامِ شہادت نوش کر جاتی ہیں۔اگر کسی طرح اس روشنائی کو باہر نکالنے کا انتظام ہو جائے تو اس میں تھوڑا سا پانی ملانے سے پوری کتاب لکھنے جتنی روشنائی میسر آسکتی ہی۔اگر کوئی سوال کرے کہ حقہ نوش کتنے عناصر سے مل کر بنا ہے تو اس کا جواب ہے وہ صرف ایک عنصر سے بنا ہے اور وہ ہے کاربن۔اگر اکسیجن نے حقہ نوش کے پھیپھڑوں میں جانا ہے تو اپنی ہمت سے ہی جانا ہے ورنہ حقہ نوش نے اس کا ہر طرح سے ناطقہ بند کر رکھا ہوتا ہی۔جید حقہ نوش حقہ نہار منہ شروع کرتے ہیں اوررات گئے تک اس سے شغل فرماتے رہتے ہیں۔ایسے شب زندہ دار بھی ملتے ہیں جو چند خراٹوں کے بعد لمبی سی خر کے بعد جاگ اٹھتے ہیں اور حقہ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔رات کو سوتے ہوئے بھی جید حقہ نوش حقے سے فرقت برداشت نہیں کر سکتی۔حقہ نوشوں کا فلسفہ ہے کہ حقہ رات کو پینے سے انتڑیاں ملین رہتی ہیں اور خوراک تیزی سے ہضم ہو جاتی ہی۔ہرگورنمنٹ تھنکس ٹینکس کی کمی محسوس کرتی رہتی ہے ۔اگر گورنمنٹ کو تھینک ٹینکس کی ضرورت ہو تو کڑوے تمباکو پر مل سکتے ہیںاور وافر مقدار میں مل سکتے ہیں۔
گائوں کی ثقافت کا لازمہ حقہ ہوتا ہی۔ اس کے ابتدائی کشوں کو بھینس کے مکھن کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان میں وہ تاثیر ہوتی ہے کہ ان پڑھ آدمی بھی

IMF

کی رکی ہوئی قسطوں کی بحالی،بجٹ کی خامیوں اور بیرونی ادائیگیوں پر بات کرتا ہی۔ جب تک اہلِ خانہ دوسرا خمار آور مشروب یعنی لسی سے تواضع نہ کر لیں زبان بین الاقوامی مسائل سے نیچے بات ہی نہیں کرتی۔

 
 
نصیر ظفر ایڈیٹر

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved