اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

منظور قاد ر کالرو

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-16

لسی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
دیہاتی بزرگوں کے حساب کتاب میں یہ بات آہی نہیں سکتی کہ کوئی شخص لسی پئے بغیر بھی گر میوں میںزندہ رہ سکتا ہی۔اگر ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی بھی جائے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو لسی پئے بغیر زندہ رہ لیتے ہیں تو وہ فوراَ کہہ دیں گے اگر تم جھوٹ کو سچ منوانے پر بضد ہو تو تمہاری خاطر مان لیتے ہیں۔ اگر نرمی اور آہستگی سے یہ بات انکے ذہن میں ڈالنے میں کسی طرح کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ ایسے لوگوں کی زندگیوں پر دیر تک ترس کھاتے رہیں گے جو لسی پئے بغیر زندہ رہ رہے ہیں۔لمبا سان لینے کے بعد کہیں گے اُف یہ بھی بھلا کوئی زندگی ہی۔لسی کی اِس اہمیت کے پیش نظر کئی لخت جگر تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہو سکتی۔اُن کا نظریہ ہے کہ اگر طالب علم دیسی گھی نہیں کھائے گا اور دودھ لسی نہیں پئے گا تو اُس کا دماغ پڑھائی پر خاک چلے گا۔ہمارے دیہاتی والدین کا خیال ہے کہ ایسی تعلیم کو آگ میں ڈالو جو دودھ،دہی، مکھن،دیسی گھی کا پراٹھا اور لسی چھڑوادی۔ان کا نظریہ کہ کالج کے باہر بھینس بندھی ہونا چاہیے اور ہر پیریڈ کے بعد بچے کو یا تو ایک گلاس دودھ ملنا چاہیے یا اس کے سر میں دھاریں ماری جانا چاہےیںتاکہ اُس کے دماغ میں طاقت آئی۔ بعض دیہاتی والدین کا خیال ہے ’نو یاں پڑھائیاںتے شہراں دی چاہ نے بچے کالے شاہ کر دتے نوں‘۔اُنکے خیال میں رنگ کا سیاہ ہونا اور جسم پر گوشت کے کم ہو جانے کی وجہ شہری پڑھائیاں ہیں ۔جو والدین لسی اور تعلیم کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں ان کے بچوں کو عالم خواب سے بیدار کر کے پروفیسر صاحبان یہ یاد دلاتے ہیں کہ یہ پیریڈ اردو کاہے یا تاریخ کا۔اگر وہ آدھے پیریڈ میں بھی بیدار رہیں تو انہیں ذہین طلباء میں شمار کر لیا جاتا ہی۔ایسے تن پرور طلباء پیریڈ کے درمیان نیند پوری کرنا اچھی صحت کی علامت سمجھتے ہیں۔ دیہات میں ڈالڈا گھی کو گائوں والے کُوندا کہتے ہیں۔ اور اس کے ا ستعمال کرنے والے کو گنہگار سمجھا تو نہیں جاتا لیکن قریب قریب اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بے چارہ کہنے سے پہلے ایک آہ بھرتے ہیں۔ جس کے گھر میں دودھ دینے والی بھینس نہیں ہوتی لوگ اسے تسا (پیاسا) کہتے ہیںیعنی جس کے گھر میں دودھ نہیں ہوتا چاہے دوسری ہر نعمت موجود ہو لیکن اسے غرباء اور مساکین کی صف میں شامل کیا جاتا ہی۔جن بیماروں کا دُودھ اور لسی بند کر دی جائے اِن پر دوسرے لوگ ترس کھاتے ہیں کہ ایسے جینے سے تو مر جانا ہی بہتر ہی۔اس پر ہیز کو بد پرہیزی میں بدلنے کے لئے تیمار دار اہم رول ادا کرتے ہیں۔یہ کہتے ہوئے کہ یار اگر دودھ ،لسی پیتے مرنا لکھا ہے تو مرنے دو۔گھر والوں سے آنکھ بچا کر مریض کولسی پلا دینا خصوصی مروت ہوتی ہے اور مریض اس مروت کو ٹھکرانا کفر سمجھتا ہی۔پہلے پہل لوگ دیسی گھی اور لسی کو جسمانی مشقت کے ذریعے ا ستعمال میں لاتے تھے لیکن اب وہ پھکیوں کے ذریعے چار پائی پر پڑے پڑے اسے ہضم کرنے کی ترکیبیں سو چتے رہتے ہیں۔اسی لئے ریح ہوا ان کے قابو میں نہیں آتی۔بلڈ پریشر کے خوف سے دودھ، دہی ،گھی اور مکھن تو چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن جسمانی مشقت کو کمیوں والا کام سمجھتے ہیں۔ چاٹی کی لسی وہ مشروب ہے جس کی آس میں دیہاتی مرد و خواتین صبح سے شام تک کام کر تے ہیں۔جس وقت { XE "1" }پٹھانوں نے اسے خشک کرنا شروع نہیں کیا تھا۔غریبوں کو بھی یہ نعمت میسر تھی لیکن اب لسی میں بھی انڈسٹری آگئی ہی۔لسی صرف ائیر کنڈیشن مشروب ہی نہیں اعلی قسم کا شیمپو بھی ہی۔خشکی اور سکری کے علاوہ دماغی تراوت کا بھی تریاق سمجھی جاتی ہی۔بزرگوں کا خیال ہے اس سے صبح نہا لینے سے سارا دن غصہ نہیں آتا۔ہم تو یہ جانتے ہیںلسی پینے کے بعد آنکھ اس وقت ہی کھلتی ہے جب مکھی ناک کے اندرونی خطوط کا جائزہ لے رہی ہو اور بار بار اڑانے کے باوجود اندر تک دھنس جائی۔ اب بھی بعض جگہوں کے لوگ چائے کومریضوں کا مشروب سمجھتے ہیں۔انکا نظریہ ہے کہ مسلسل چائے پینے سے بندہ بالکل ہی ڈسکو سا بائو بن جاتا ہے یعنی اسکے جسم میں بس اتنی سی سکت ہی باقی رہ جاتی ہے جس سے قلم اور فائل اٹھا سکی۔
 
 
 
نصیر ظفر ایڈیٹر

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved