اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

منظور قاد ر کالرو

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-08-17

نمک حلالی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
ہم ان چند بد نصیب ممالک میں سے ہیں۔جس کے ذہین ترین لوگوں کی کثیر تعداد جب باہرپڑھنے گئی ،نوکری کرنے گئی توپھرو ہیں کی ہو کے رہ گئی۔جن ملکوں نے ترقیاں کیں کیا وہاں بھی ایسا ہوا۔ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں تجارت کرنے آئے کیا کسی نے یہاں گھر بنایا۔ یہاں کی شہرت حاصل کی ۔ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ جب یہ لوگ وہاں سے نکلے تھے تو انگلستان میں اس قدر غربت تھی کہ کئی کئی دن کے فاقے وہاں کا معمول تھا۔ وہاں فقرا اتنے تھے کہ لوگوں کا بازاروں میں چلنا مشکل تھا۔ پورا یورپ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بدنام تھا۔ بچوں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا ۔ اُس وقت یہ برصغیر اُن کے لئے سونے کی چڑیا ہوا کرتا تھا۔ جنگِ عظیم دوم میں جرمنی اور فرانس ایسے اجڑ گئے تھے کہ جیسے کھنڈر ہوتے ہیں۔پوری کی پوری سلطنت کو ازسرِ نو تعمیر کرنا تھا۔نئے سرے سے سارے نظام کو مضبوط بنانا تھا کوئی بتا سکتا ہے کہ کتنے جرمن ڈاکٹر انجینئر پروفیسر اور ہنر مند امریکہ جاکر آباد ہوئے کہ اب اپنے ملک میں کیا رہنا یہاں تباہی و بربادی کے سوا رکھا کیا ہی۔ اپنی اولاد کو مستقبل جا کر امریکہ میںسنوارتے ہیں۔ جاپان پر ایٹم بم گرے تو پورا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا۔ صحت تعلیم سڑکیں سب کچھ تباہ ہو گیا لیکن کتنے پڑھے لکھے جاپانی تھے جو اپنا ملک چھوڑ کر گئے کہ ہم زرمبادلہ کما کر بھیجیں گے تو یہ ملک ترقی کرے گا۔ انہیں علم تھا کہ ملک باصلاحیت افراد کی موجودگی سے ترقی کرتا ہی۔یہی وجہ ہے کہ وہ صرف تین سال بعد ہی عالمی اقتصادی طاقت بن چکے تھی۔ قوموں کی تاریخ میں برے سے برے دن آئی، قیامتیںٹوٹیں لیکن وہاں کے رہنے والوں نے اسی ماحول میں رہ کر خود کر پھر سے بہتر بنایا۔ ان ملکوں میں ساری کی ساری قومیں ایماندار نہیں تھیں کرپشن سے پاک نہیں تھیں ۔ سہولیات سے مزین نہیں تھیں لیکن ان کے ہنر مند وہیں رہی۔ آج دنیا بھر کے معاشیات دان ہمارے جیسے معاشروں کا ایک ہی المیہ بتاتے ہیں اور وہ ہے ذہانتوں کا انخلاء۔ یعنی قابل لوگوں کا کسی ملک کو چھوڑ جانا۔یہ قابل لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں اس پاکستان کو چھوڑ گئی۔ آج ہوتے تو ایک توازن کا باعث ہوتی۔یہ اپنے ساتھ ہزاروں لوگوں کو بھی ایماندار ی اور بہتر ماحول پر قائل کرتی۔ جس ملک میں ایک لاکھ وکیل ایک تحریک جنم دے لیں اور پوری قوم ان کے پیچھے چل پڑے وہاں ملک سے باہرکئی لاکھ ڈاکٹر اور انجینئر اگر اس ملک میں ہوتے تو کیا آج اس ملک کی یہ حالت ہوتی۔یہ باہر آباد ہونے والے سب ایمانداری سے رزق کمانے والے تھی۔ جس ملک میں اتنے ایماندار موجود ہوں اسے کوئی کیسے بے ایمان بنا سکتا تھا۔ جس ملک کا سرمایہ اور انسانوں کی صورت میں منتقل ہو رہا ہو وہاں معیشت زبوں حالی کا شکار نہ ہو تو کیا ہو۔کیسے کیسے جواز اور کیسی کیسی دلیلیں دیتے ہیں یہ لوگ۔ پاکستان میں کس قدر کرپشن ہی۔ ناانصافی ہی، حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا، بے ایمان اور سفارشی کو سب کچھ حاصل ہی۔ امن و امان کی حالت اس قدر خراب کہ جانیں بھی محفوظ نہیں۔پولیس کے ظلم عدالتوں کی بے انصافی اور میرٹ کی بے قدری ہی۔بے روزگاری بھوک افلاس ہی۔ علاقائی تعصب ہی۔ یہ درست لیکن جیسے ایک بیمار ماں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گھبرا کردور دراز اپنے قابل لائق اور صاحبِ حیثیت بھائی کو پکاراتا ہے ۔ ایسے ہی پکارنے کا وقت آن پہنچا ہے لیکن کیا کریں نہ آنے کے جواز اور دلائل تو ہر اس بیٹے کے پاس بھی ہزاروں ہوتے ہیں جو اپنی ماں باپ کی تکلیف و پریشانی بیماری مصیبت حالتِ نزاع کے وقت بھی ان تک نہیں پہنچ پاتا۔مصروفیت نوکری چھٹی کا نہ ملنا، کیرئیر تباہ ہونے کا خطرہ ایسے بہت سے جوابات ہم اور آپ سنتے ہیں لیکن ان سارے جوابات اور پھر سوالات کے تناظر میں مجھے ان سولہ کروڑ معصوم انسانوں پر بڑا ترس آیا جو انہی حالات میں ایسی ہی بے انصافی میں میرٹ کی بے قدری میں بددیانت قیادت میں زندگی کے دن یہاں گزار رہے ہیں۔ اور پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہ سب نہ تو بددیانت ہیں نہ چور ہیں، نہ قاتل ہیں اور نہ ہی دہشت گرد ہیں۔ چند ایسے بھی ہونگے مگر زیادہ تر گرمی کی دھوپ میں کھیت میں کام کرتے ہیں ، کارخانوں ، دکانوں دفتروں میں پسینہ بہاتے ہیں۔ہر وہ کام جس میں ان کی محنت سے اس ملک میں بہار کا موسم آتا ہے ان سولہ کروڑ لوگوں کے نصیب میں لکھی ہی۔ یہ سب جواز اور وطن چھوڑنے کی دلیلیں انہیں بھی آتی ہیں لیکن سلام ہے ان پر جن کی محنت سے ہمارے کھیت آباد ہمارے کارخانے زندہ ہمارے جہاز ٹرینیں اوربسیں چلتی ہیں۔ ان سب کو بھی معلوم ہے کہ ان کی محنت پر چند لٹریرے عیش کرتے ہیں ،چند بے ایمان لوگوں کی تجوریوں بھرتی ہیں ۔یہ سب برداشت کرتے ہیں لیکن نزاع کے عالم میں چھوڑ کر فرار حاصل نہیں کر تی۔یہ سب ڈاکٹر انجینئر سائنس دان جو تھو تھو کر کے اس ملک سے بھاگے ہیں، ان پر میرے ملک نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں۔ اس ملک کی غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہی۔ اگر کوئی ایک ڈاکٹر اپنی پوری تعلیم کا خود خرچہ اٹھاتا تو اس کی جائیداد تک بک جاتی۔یہ سب میڈیکل کالج انجینرگ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے اس ملک کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں۔ کسی نے اس بات کی پرواہ کی کہ یہاں مجھے وہ سب اس قوم کو واپس لوٹانا ہی۔ وہ ہنر اس قوم کے لئے استعمال کرنا ہے یہ سب ہنر مند اگر اپنے ملک میں ہوتے جیسے باقی سولہ کروڑیہاں ہیں اور سختیاں برداشت کر رہے ہیں ویسے ہی سختیاں برداشت کرتے تو شاید انہی لوگوں میں سے کوئی اس ملک کا نجات دہندہ نکل آتا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر جب اپنا سب عیش و آرام چھوڑ کر پاکستان آتے تھے تو تین امیر ترین ملکوں کی طرف سے نہیں کوئی عرب ڈالر کی پیشکش ہوئی تھی۔ وہ جن مرعات میں یہاں کام کرتے رہے وہ اس پیشکش سے کہیں کم تھیں ان کے ساتھ اس ملک نے کیا سلوک کیا لیکن جن کو اپنی دھرتی ماں سے محبت ہوتی ہے وہ اس کے ساتھ رہتے ہیں گلے شکوے اور جواز نہیں ڈھونڈا کرتی۔
 
 
نصیر ظفر ایڈیٹر

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved