اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔11-04-2011

مفت کاحج
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  انورگرے وال
حج ایک خالصتاً ذاتی مذہبی معاملہ ہے، جو صاحب ِ نصاب ہے ، اس پر فرض ہے ، یہ الگ بات ہے کہ معاشرے میں بے شمار صاحبانِ نصاب ”غیرنصابی “ سرگرمیوں میں زندگی گزار جاتے ہیں مگر حج جیسے اہم فرض کی طرف توجہ نہیں کرتے۔یہ بھی عجب بات ہے کہ بے شمار ایسے لوگ جو نصاب کی شرائط پوری نہیں کرتے ، اپنی سچی لگن کی بنا پر ان کی رات دن کی دعائیں اور حسرتیں کام آ جاتی ہیں، ان کی منظوری کے سرٹیفیکیٹ کا بندوبست خود ہی ہوجاتا ہے۔
حاجیوں کے قافلوں کی روانگی یا واپسی کامنظر دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ ان میں بہت سے لوگ عمر رسید ہ اور کمر خمیدہ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں بلا کی چمک او ر دل میں خالقِ کائنات اور وجہ تخلیقِ کائنات ﷺ کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے،ان کی نظروں میںیہاں کی کوئی چیز نہیں سماتی ، یہی وجہ ہے کہ اس کا دل ان سب چیزوں سے اچاٹ ہوتا ہے ، ان کی لو کسی اور جگہ لگی ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو انتظار کی سولی پر لٹکا کے یہ رتبہ حاصل کیا ہوتا ہے، پائی پائی جوڑ کر یہ رقم اس قدر بنتی ہے کہ حج کے اخراجات پورے ہوسکیں، ان کی زندگی کی اہم ترین حسرت یوں پوری ہوتی ہے۔
کچھ قافلے ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں کوئی نہ جاتے ہوئے دیکھ سکتا ہے ، اور نہ اس مقدس سفر سے واپسی پر کسی کو ان کے آنے کی خبر ہوتی ہے،یہ خصوصی اور وی آئی پی لوگ خصوصی طیارے میں سب سے آخر میں جاتے ہیں اور اسی جہاز پر سب سے پہلے واپس لوٹ آتے ہیں، ان کا خرچہ قومی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے، اور قومی خزانہ عوام کو نچوڑ کر ، ان کا خون چوس کر یا غیر ملکی امداد اور قرض حاصل کر کے بھرا جاتا ہے۔ مال ِ مفت ، دلِ بے رحم کے مصداق حکمران ، ان کے دوست احباب اور من پسند صحافی مفت حج کے مزے لوٹ آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری فاقہ مستی رنگ لائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے راستہ نکال لیا ہے۔
رواں سال میں حج کے موقع پر حکومتی سطح پر کرپشن کے قصے زبان زد عام ہوئے تو معاملہ عدالت عظمیٰ تک جا پہنچا، مفتے کے حاجیوں کی بد قسمتی کہ عدلیہ آزاد ہے ، اور اب کرپشن کی اس طویل داستان کے تمام کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عمل کا آغاز ہوچکاہے۔ وزیر مذہبی امور فی الحال اپنی وزارتی ذمہ داریوں کی جوابدہی کے لئے جیل میں موجود ہیں، عوام کی خواہش ہے کہ اس کہانی کے دیگر اہم کردار بھی جلد سامنے لائے جائیںتاکہ قوم اپنے مخلص رہنماو ¿ں کے اصلی چہرے دیکھ سکیں۔ لیکن یہ مفت حج والا معاملہ دوسری کرپشن سے ذرا مختلف ہے۔ جیسے حج میں کرپشن شروع سے ہوتی آئی ہے ، ایسے ہی مفت کے حج کا کلچر بھی بہت پرانا ہے۔
مفتیان کرام سے معلوم کیا جاتا کہ آیا قومی خزانے سے مفت حج کرنا جائز ہے یا ناجائز ، مگر دل خود ہی مفتی بن بیٹھا ہے، کسی طرح اس عمل کو جائز ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا، حکمرانوں کے سرکاری حج سے لے کر ان کے پسندیدہ افراد تک کے یہ حج کیسے قبول ہوسکتے ہیں ، جس پر انہوں نے اپنی جیب سے خرچ ہی نہیں کیا۔ اب عدالت عظمیٰ نے حکم جاری کیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں جن لوگوں نے بھی مفتہ لگاکر فریضہ حج ادا کیا ہے ، وہ دو ہفتے کے اندر اندر اس کے اخراجات کی ادائیگی کردیں۔ اب ان لوگوںکو ادائیگی تو کرنی ہی پڑے گی ، بہتر ہو کہ یہ فوری اور نیک ارادے سے یہ رقم ادا کردیں نہ کہ ایک جرمانہ یا مصیبت جان کر ،کیونکہ حج وہی ہے جو اپنے خرچ پر اور اپنی خوشی سے کیا جائے۔
ماضی میں جن لوگوں نے بھی عوام کے پیسوں سے عوام کی مرضی کے برعکس حج کیا ہے ، وہ خود ہی نیک نیتی سے رقوم خزانے میں جمع کروادیں، تاکہ ان کا حج ان کے اپنے کھاتے میں لکھاجائے۔ ویسے بھی اگر عدالت میں 32سال پرانے کیس ری اوپن ہورہے ہیں، جس کے اکثر گواہ اور جج وغیرہ اس عارضی دنیا سے کوچ کرچکے ہیں، تو جو لوگ مفت کے حج والے ابھی زندہ و سلامت ہیں وہ خود ہی سامنے آئیں اور اپنے حج والے سال کے حساب سے رقم قومی خزانے میں جمع کروادیں،عدالت عظمیٰ کے کسی فیصلے سے قبل ہی اپنے ضمیر کا فیصلہ صادر کریں اور اس پر عمل کرگزریں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ساری رقم سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کردی جائے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved