اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-9320884970

Email:-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-06-14

قبولیت ِاسلام کاسبب حقانیت یافطرت
کالم ۔۔۔۔۔۔۔ صادق رضامصباحی،ممبئی
معاصر دنیاکے احوال کا جائزہ لیں تو اسلام کے تعلق سے ایک بڑا عجیب تضاد ہمارے سامنے آتاہی۔ اسلام اس وقت جس کشمکش کا شکار ہے اور اس کے ماننے والے جس قدر ذلت کا انبار اپنے سروں پر ڈھورہے ہیں اس وقت نہ تو وہ کسی قوم کے حصے میں ہے اور نہ کسی مذہب کے مگر حیرت یہ ہے کہ اسلام کو جتنا زیادہ مشق ستم بنایا جارہا ہے اوراسے مدفن میں کھدیڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اتنا ہی زیادہ اس کا پھیلائو وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے اورا س کی معنویت کاچاندبلندسے بلندترہورہاہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ آخر دنیا اسلام کے متعلق اس متضاد رویے کی شکار کیوں ہی؟ اس کاجواب ہم آئندہ سطور میں تحریر کریں گی۔
دنیا کواسلام کی ضرورت کل بھی تھی ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی بلکہ جوں جوں دنیابحرانی ادوار سے گزررہی ہے اسے اسلام کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہورہی ہی۔ جس مرض کا علاج دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہ ہو دینِ اسلام اس کے تمام امراض کا شافی علاج کرتا ہے اور نہ صرف یہ کہ جسم بلکہ وہ روح کے علاج کا بھی سامان فراہم کرتا ہی۔ آپ دنیا کے کسی بھی مذہب کا جائزہ لے لیں ان میں کہیں نہ کہیں جھول نظر آہی جاتی ہی۔ ان مذاہب کی تعلیمات یا تو صرف اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے تھیںیاصرف اسی زمانے میں ان پر عمل ہوسکتا تھا ۔اب وہ کرم خوردہ ہوچکی ہیںآج کے دورمیں ان پر عمل آوری مشکل ہی نہیں ناممکن نظرآتی ہے وہ تعلیمات آج کے انسان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتیں ان میں وہ رہنمائی موجود نہیں جو آج کے مسائل کا مطالبہ ہے لہٰذاآج کاانسان انہیںاپنانے سے قاصرہے ۔ ان مذاہب کے بانیوں کے حیات پر تاریخی نظر ڈالیں تو بھی ہمیں مایوسی ہاتھ آتی ہی۔ ان کی حیات کی ڈور اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ سرا نظر ہی نہیں آتا کہ جسے پکڑکروہ منزل مقصودتک پہنچ سکے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ادنیٰ سے ادنیٰ گوشہ بھی نہ صرف یہ کہ تاریخ کے کیمرے میں قید ہے بلکہ ان کے اصحاب،اہل خانہ،آباواجداد،ماحول اوراس زمانے کاچھوٹاسے چھوٹاپہلوبھی تاریخ کی نگاہوںسے اوجھل نہیںہی۔ان کی ولادت طیبہ سے لے کروصال مبارک تک اوراس کے بعدتک کے حالات کے مختلف پہلوئوںپردنیاکی ہرزبان میں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔یہ دعویٰ کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اوران کے متعلقین کی پوری تاریخ اورشجرہ نہ صرف یہ کہ کتابوں میںمحفوظ ہے بلکہ آج تک ہزارکوشش کے باوجودان میں ایسی تبدیلی نہیںکی جاسکی کہ ان کاکوئی پہلوبھی تاریخ کے اندھیرے میں گم ہوجائے ۔ اللہ عزوجل نے اسلام کی حفاظت کا یہ اتنا زبردست اور عظیم الشان انتظام فرمادیا کہ دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا دانشور بھی اسلام کی تاریخیت پر سوالیہ نشان نہیں لگا سکتا ۔اسلام کی یہ تاریخیت،ثقاہت واستنادیت کے اس درجے پر فائز ہے کہ دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا مذہب بھی اس معاملے میں اس کاپا سنگ ہونے کادعوی بھی نہیںکرسکتا۔ یہودیت ہو یا نصرانیت، ہندو ازم ہو یا بدھ ازم،بہائی از م ہو یااورکوئی ازم وہ کسی بھی اعتبار سے تاریخیت، جامعیت، کاملیت اورعملیت کے سارے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔یہ کہنابھی بجاہوگاکہ ان میں کسی ایک پہلوپروہ اپنے مکمل ہونے کاادعانہیںکرسکتا ۔ منطقی اور سائنسی اندازمیں اگر آج کاانسان غور کرے تو اسے اسلام کے سواایسا کوئی راستہ نظر نہیں آئے گاجوانسانیت کو اس کے مطلوبہ ہدف تک پہنچا دی۔
اسلام دینِ فطرت ہے یایوںکہیے کہ انسانی فطرت ہی کادوسرانام دین اسلام ہی۔فطرت انسانی جس چیز کا تقاضا کرتی ہے اسلام وہ اسباب مہیا کردیتا ہے اور ہر انسان کی فطری غذا فراہم کرتا ہی۔ حدیث شریف میں ہے کل ولد یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او یمجسانہ او ینصرانہ یعنی ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اس کو یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں۔ اس حدیث شریف میں یہودی، مجوسی یا نصرانی کی قید احترازی نہیں، اتفاقی ہی۔ ان مذاہب کے نام بطور مثال آئے ہیںاس کامطلب ہے کہ اس میں دنیا کے دوسرے تمام مذاہب بھی شامل ہوسکتے ہیں۔حدیث کامفہوم یہ ہے کہ انسان جب پیداہوتاہے توفطری طورپراس کی ذہنی ونفسیاتی ساخت اورفکری تشکیل وتعمیر اسلام ہی کے تابع ہوتی ہے دنیا میں اس کاپہلا قدم اسلام کی ہی طرف اٹھتا ہے مگر اس کے والدین،اس کے ارد گرد کا ماحول اس بچے کو دوسرے مذہب کی طرف موڑ دیتے ہیں۔فطرت اسلام پرپیداہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ مسلمان بن کر پیدا ہوتا ہے بلکہ اس کی پیدائش انسانی فطرت پرہوتی ہے اوراسی انسانی فطرت کادوسرانام اسلام ہی۔ اس کافطری وجود،اس کی فطری خواہشات اور اس کی فطری جبلتیں خودبخود اسلامیات کی خاموش تصدیق کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دوراور آج کا انسان فطرت کی تلاش میں میں نکل کھڑا ہواہے اور ہزار مخالفتوں اور زہریلے پروپیگنڈوں کے باوجود وہ فطرت یعنی اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہی۔ ان میں بہت سارے وہ بھی ہیں جو عملاً تو مسلمان نہیں مگر اپنی عقل ودانش،مطالعہ اور مشاہدے کی وجہ سے ان کے تحت الشعورمیںیہ بات رچ بس چکی ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو تمام مسائل کا حل ہے اور اسی کے دامن میں سکون واطمینان ہی۔ سطور ماسبق میں ہم نے جس تضاد کاتذکرہ کیا ہے وہ دراصل اسی تناظرمیںکیاگیا ہے یعنی ایک طرف تو اسلام کے خلاف زہریلا اور مکروہ پروپیگنڈہ مگراس کے باوجود دوسری طرف د نیا کی اسلام کی طرف واپسی۔
قرب قیامت کی نشانی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ ساری دنیا اسلام کی آغوش میں آجائے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مبلغین کی ٹیمیں ملکوں ملک پھیل کر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا بیڑہ اٹھائیں گی؟ کیاعالمی سطح پر دعوت وتبلیغ کا ایسا ادارہ قائم ہوگا جو دنیا کو اسلام کی طرف بلائے گا؟تو پھر کیوںکر ساری دنیا مسلمان ہوجائے گی؟ وجہ وہی ہے یعنی فطرت کی طرف واپسی۔ آج اہل دنیا،دنیاوی الجھنوں سے اس قدرتنگ آچکے ہیں کہ انہیں سکون کی تلاش ہے ،وہ روحانیت کا شجر سایہ دار ڈھونڈ رہے ہیںاور دنیا کی ظاہری آسودگیوں سے ان کا دل اضطراب سے بھرچکاہی۔بلاشبہہ دنیاترقی توکررہی ہے اورآج کاانسان بے تحاشہ اس کے پیچھے بھاگتاجارہاہی۔ترقی کی اس طمع نے اس کوغیرفطری طریقوں میں بہت اندرتک ڈھکیل دیاہے اورجب یہی غیرفطریت ،عفریت بن کر اس کاذہنی سکون درہم برہم کرتی ہے تووہ اس سے نکل کرایسے راستے پرچلناچاہتاہے جواس کی روح کی بے قراریوں پرمرہم رکھ دے تونتیجتاً فطرت کی راہ میں ہی اسے عافیت نظرآؒ تی ہے ۔
آج کی دنیا بڑی باشعور دنیا ہے وہ نہ تو ہر کس وناکس کی بات پرکان دھرتی ہے اور نہ کسی کے مدح وذم پر آنکھ بند کرکے ایمان لاتی ہی۔اس کی بہت واضح شہادت آج کے حالات ہیں کہ اسلام کے خلاف پوری دنیامیںطوفان بدتمیزی برپاہے مگرپھربھی یہ دنیااسلام کے گردجمع ہورہی ہی۔آج کاانسان پروپیگنڈے سے قطع نظر مطالعی، مشاہدے اور تجربے کی شاہراہوں سے گزر کرہی کوئی فیصلہ کررہا ہی۔ دعوت وتبلیغ کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہورہا ہی۔ میں نہیں سمجھتا کہ آج جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں یا کرنے کے لیے پابہ رکاب ہیں وہ سب کاسب مبلغین کی رہین ملت ہے بلکہ اس کے پیچھے اسی فطرت کی کارفرمائی ہے جس پرانسان کالاشعورتخلیق ہواہی۔
ان حقائق کی روشنی میں ذہن میں یہ سوال سرابھارتاہے کہ کیاآج غیرمسلموں کاقبولیتِ اسلام کی طرف رجحان اسلام کی حقانیت کی وجہ سے ہے یااس فطرت کی وجہ سے جسے وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسلام کی طرف آ پہنچے ہیں۔موجودہ احوال کاتجزیہ کرنے اورنومسلموں کی رودادکامطالعہ کرنے کے بعدہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ آج غیر مسلموں کا تیزی سے اسلام کی طرف لپکنادراصل اسلام کی حقانیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کے دین فطرت ہونے کے سبب ہے کہ انہیں دنیاکے مسائل کی ضرب اوراس کی بحرانیت نے مجبوراًاسلام کے قریب کردیاہے ۔اسلام کی حقانیت توان پراسلام کے قریب ہونے کے بعدمنکشف ہوتی ہے ۔آپ خوداندازہ کیجیے کہ جب پریشان حال انسان مصیبتوں میں الجھا ہوتاہے ،اس کی نفسیاتی دنیازیروزبرہورہی ہوتی ہے ،مادیت کاسفرطے کرنے کے بعداورحالات کے تھپیڑوں سے شکست کھاجانے کے بعدجب اس کا سکون واطمینان غارت ہوجاتاہے اورجب اس کی روح زخمی ہوجاتی ہے تو وہ اس منزل کو بڑی بے چینی سے ڈھونڈتا ہے جہاں اس کے رستے زخموں کا مداوا ہوسکے اوراسے سکونِ قلب کی دولت بے مایہ مل سکی۔نفسیاتی خلجان سے پریشان جب و ہ سکون کی تلاش میںاپنے اردگردکاجائزہ لیتاہے ایسے سائے کوتلاش کرناچاہتاہے جہاں اسے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں مل سکیںاوراس کی روح کی بے قراری کودورکرسکیں تو وہ دنیا کے تمام مذاہب کا جائزہ لیتا ہے اوردھیرے دھیرے اسلام کی طرف بڑھتاہی۔اسلام کی طرف اس کی یہ آتش شوق اس وقت مزیدفزو ں ترہوجاتی ہے جب اس کے اردگرد اسلام کے پروپیگنڈوں سے اس کی ذہنی فضابوجھل ہوتی ہے مگرپھربھی ساری جگہوںسے مایوس ہوکراورسارے افکاراورازم کی خاک چھاننے کے بعدجب وہ غیرجانب داری سے اسلام کامطالعہ کرتاہے اورجب وہ اس کی گہرائی میں اترتاہے تواسے محسوس ہوتاہے کہ میرے سارے مسائل کاحل یہیںتو ہے اورپھرجوںجوںاس کامطالعتی سفرآگے بڑھتاہے اسے اندازہ ہوتاہے کہ وہ جس سائے کی تلاش میں ذہنی سفرکرتارہا،وہ تحریکوں،مذہبوں اورانسانوں کے بنائے ہوئے نظریات کی چوکھٹ پراپنی جبیںپٹختارہا اوراپنی ساری الجھنوں، مصائب اور مسائل کا حل ڈھونڈتارہاوہ اسلام اورنبی اکر م صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ٹھنڈی چھائوںمیں ہے ۔اوراس کے بعدپھر..................... اس کے دل کے سازپر اسلام کا نغمہ ابھرنے لگتا ہی۔
لوگ کہتے ہیں کہ دنیا اسلام کی تلاش میں ہے اوریہ خیال یک گونہ صحیح بھی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ دنیا سکون کی تلاش میں ہے اور سکون صرف اورصرف اسلام میں ہے یہی وجہ ہے کہ آج کاانسان فطرت کے پیچھے بھاگ رہاہے اورفطرت کاتعاقب کرتے کرتے وہ اسلام کی وادیوںمیں داخل ہورہاہے ۔اس کے بعدجب اسلامی احکام کی زرخیزی اورمعنویت اس کے ذہن ودماغ پرچھا جاتی ہے توپھروہ اسلام کی حقانیت کاقائل ہوجاتاہی۔ آپ صغریٰ، کبریٰ لگا کر نتیجہ لگا لیں گے کہ بات تو وہی ہوئی میں کہوں گاکہ پریشان حال انسان کی پہلی ضرورت حقانیت نہیں، طمانیت ہوتی ہے اوریہ طمانیت صرف اورصرف اسلام کاحصہ ہی۔اس تناظرمیںہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیںکہ آج لوگوں کاقبولیت اسلام کی طرف بڑھتاہوارجحان دراصل اسلام کے فطرت انسانی کے موافق ہونے کی وجہ سے ہے اسلام کی حقانیت اس وقت اس کے ذہن میں ثانوی درجے میںہوتی ہی۔اس کودوسرے لفظوںمیںیہ کہہ لیں کہ آج کامضطرب انسان پہلے اسلام کی تاریخیت،جامعیت ،کاملیت اورعملیت کے سارے پہلوئوں کاجائزہ لیتاہے اوراس کی قبااس کے مسائل اورفطرت پربالکل فٹ محسوس ہوتی ہے توپھراس کویقین ہوجاتاہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جونجات دہندہ ہی۔واضح رہے کہ یہ میراذاتی خیال ہے قارئین کے لیے حق اختلاف محفوظ ہی۔
اسلام کے دین فطرت ہونے کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے اسلام کے تحفظ کاوعدہ فرمایاہی۔اگرآپ غورکریں تواندازہ ہوگاکہ اس کے پس پشت بھی اسلام کے انہیںفطری عناصرکی جلوہ نمائی ہی۔معاذ اللہ میرامطلب یہ نہیںہے کہ اسلام کی دوسری خوبیاںاس کے سامنے ہیچ ہیں۔میرامقصدیہ ہے کہ اسلام کی دوسری خوبیاں بھی دراصل معنوی طورپراسی فطرت سے باہم پیوست ہیں۔اس لیے ہمارایہ کہنادرست ہے فطرت انسانی جواسلام کی اساس ہے اسلام کی ایسی بنیادی نمایاںخوبی ہے کہ آج کاانسان مجبورہوکراس سے ہم رشتہ ہوناچاہتاہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved