اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔18-01-2011

مسلم لیگ کا اتحاد
تحریر: نجیم شاہ

پاکستان میں اس وقت درجن بھر مسلم لیگیں موجود ہیں۔ ان تمام دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششیں ایک بار پھر عروج پر ہیں۔ مسلم لیگی قیادتوں کے درمیان تحفظات اور اختلافات کے باوجود نئے سیاسی بحران میں ایک بار پھر مسلم لیگ کا اتحاد موضوع بحث بن گیا ہے۔ دونوں بڑے گروپوں کے مخلص مسلم لیگی باہمی رابطوں کے درمیان یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آج اگر مسلم لیگیوں کا اتحاد ممکن بن جائے تو نہ صرف حکومت ان کے ہاتھ میں آ جائے گی بلکہ تمام اعلیٰ عہدے بھی مسلم لیگ کے پاس آ جائیں گے۔ ابتدائی طور پر پیر صاحب آف پگاڑا نے مسلم لیگی دھڑوں کو اکٹھا کرنے کیلئے متحدہ مسلم لیگ قائم کر دی ہے ۔ اس اتحاد میں چار مسلم لیگی دھڑے شامل ہو چکے ہیں جبکہ باقی دھڑوں کو اکٹھا کرنے کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔
مسلم لیگ کے اتحاد کیلئے اندرونی و بیرونی دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔تمام مسلم لیگی دھڑوں سے یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے لئے نہیں تو کم از کم پاکستان کیلئے متحد ہو جائیں۔ لیکن افسوس کہ جب بھی مسلم لیگ کے اتحاد کی باتیں ہوتی ہیں اس اتحاد کے راستے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ آج ایک بار پھر جب مسلم لیگ کو متحد کرنے کی باتیں موضوع بحث ہیں ،عین اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ کہنا کہ دس سال تک آمر کی گود میں بیٹھنے والے پہلے معافی مانگیں پھر مسلم لیگیوں کا اتحاد ممکن ہو سکتا ہے۔شہباز شریف کے اس بیان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن خود اس اتحاد کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ ماضی میں ہونے والی غلطیوں پر ایک دوسرے کو طعنے دے کر مسلم لیگ کے اتحاد کی منزل کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جس طرح میاں برادران مسلم لیگ قائداعظم کو آمر کی گود میں بیٹھنے کا طعنہ دے کر فاصلے بڑھا رہے ہیں۔ ایسی صورتحا ل میں مسلم لیگ کا اتحاد ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
شریف برادران نے اگر اپنی سوچ اور طرز عمل میں تبدیلی نہ لائی اور مسلم لیگ قائداعظم کو آمر کی گود میں بیٹھنے کا طعنہ دیتے رہے توپھر یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ ن لیگ نے اپنے دورِ حکومت میں سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا کر پہلے غلطی کی۔ پھر جب پرویز مشرف نے شریف برادران کو اقتدار سے نکال باہر کیا تو اسی آمر کے ساتھ معاہدہ کرکے دس سال کے لئے سعودی عرب چلے گئے۔حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اپنے پارٹی عہدیداروںاور دوستوں سے صلاح مشورہ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اگر ن لیگ چاہتی ہے کہ مسلم لیگ قائداعظم اور ہم خیال گروپ آمر کی گود میں بیٹھنے کی معافی مانگیں تو پھر بہتر یہی ہوگا کہ ن لیگ کو بھی اس آمر کو لانے کے اقدام پر پوری قوم سے معافی مانگنا ہوگی۔ اگرسنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر آنے والا آرمی چیف بن جاتا تو آج نہ صرف مسلم لیگ متحد ہوتی بلکہ اس طرح کے حالا ت بھی دیکھنے کو نہ ملتے۔ آئندہ آنے والے الیکشن میں کامیابی کے حصول کے لئے مسلم لیگیوں کا اتحاد ہونا انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔مسلم لیگ کے اتحاد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دونوں جانب سے قیادتوں کو اپنی اپنی اَنا کی قربانی دینا ہوگی۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ چار انتخابات میں مسلم لیگ کا ووٹ بنک دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ رہا۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہونے والے چار قومی انتخابات کے نتائج کے مطابق پاکستان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ہے ۔ جب سے مسلم لیگیوں کے درمیان اختلافات ہوئے اور انہوں نے الگ الگ پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تو اس کا فائدہ پیپلز پارٹی نے اُٹھایا۔ پیپلز پارٹی کے حکمران جماعت بننے کے باوجود مسلم لیگیوں کا ووٹ بنک پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں زیادہ رہا۔ 1993ءکے انتخابات میں مسلم لیگ نے 39.46فیصد اور پیپلز پارٹی نے 37.85فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ 1997ءمیں مسلم لیگ نے 45.95فیصد اور پیپلز پارٹی نے 21.90فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سن 2002ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ ق نے علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم اور انتخابی نشان پر انتخاب لڑا لیکن پھر بھی مسلم لیگیوں کو 35.10اور پیپلز پارٹی کو 25.80فیصد ووٹ ملے۔ اسی طرح 2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور فنکشنل لیگ کو ملنے والے ووٹوں کی شرح 45فیصد رہی جبکہ پیپلز پارٹی30.6فیصد ووٹ لیکر حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
مسلم لیگ اگر متحد ہو جاتی ہے تو آج بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان کو اکثریت حاصل ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن دوسری اور ق لیگ تیسری بڑی جماعت ہے۔ اگر دونوں مسلم لیگیں ایک ہو جاتی ہیں تو پھر یہ جماعت پہلے نمبر جبکہ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر چلی جائے گی۔ اسی طرح سینٹ میں بھی مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور فنکشنل لیگ کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں زیادہ نشستیں اور اکثریت رکھنے کے باوجود نہ تو صدر ، وزیراعظم کا تعلق اس جماعت سے ہے اور نہ ہی چیئرمین سینٹ اور سپیکر میں سے کوئی مسلم لیگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر جاری صورتحال خصوصاً حکومتی کارکردگی اور جمہوریت کو درپیش خطرات و خدشات کے پیش نظرمسلم لیگیوں کے ارکان کے اندر یہ تحریک پائی جا رہی ہے کہ اگر مسلم لیگ کا اتحاد عمل میں آ جائے تو مذکورہ عہدے اورحکومت مسلم لیگ کے پاس آ سکتی ہے ۔ اگر مسلم لیگ کو یہ ٹارگٹ عبور کرنا ہے تو پھر اس اتحاد میں رکاوٹ بننے والی بڑی پارٹیوں کے رہنماﺅں کو اپنی ضد اور اَنا پرستی ختم کرنا ہوگی۔
مسلم لیگ قائداعظم اس وقت تیسری بڑی جماعت ہے۔ چاروں صوبوں میں اس جماعت کی نمائندگی موجود ہے جبکہ مسلم لیگ ن صرف پنجاب تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہزارہ جسے مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اس جماعت کی غلط پالیسیوں کی بدولت وہاں بھی مسلم لیگ ق بہتر پوزیشن میں ہے۔ پنجاب کو اگر مسلم لیگ کا گڑھ کہا جاتا ہے تو مسلم لیگ قائداعظم بھی مسلم لیگ ہے۔ مسلم لیگ کا اتحاد ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرے گا اور آئندہ عام انتخابات میں مرکز اور چاروں صوبوں میں لیگی حکومت کے قیام کی بنیاد بنے گا۔بلوچستان، سندھ اور سرحد اسمبلیوں میں ق لیگ کے ارکان کی اکثریت ن لیگ اور ق لیگ کا فوری اتحاد چاہتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگیوں کو راتوں رات متحد ہو جانا چاہئے اور پی پی پی کے ناراض ارکان جن کی تعداد حیرت انگیز طور پر بہت ہے اور دوسری چھوٹی پارٹیوں کو ملا کر ایک محاذ جنم دے ڈالنا چاہئے۔ مسلم لیگ کے اتحاد کے لئے تعداد بہت اہمیت رکھتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ شریف برادران ”میں نہ مانوں“ والی پالیسی ختم کر دیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved