اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0334-5877586

Email:-m.wajiussama@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔17-08-2009

گر تو برا نہ مانے۔۔۔۔۔
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر احمد ظفر
وقار خان صاحب کے کالم "تشنہ آرزو "میں فکری جالے پڑھا۔ فاضل کالم نگار نے ارشاد حقانی صاحب کی عربی نفرت کو تحفظ فراہم کرنے کی جو سعی لاحاصل کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ لیکن عربی زبان کی تائید کرنے والوں کو بیمار اذہان قرار دینا نہ صرف نامناسب ہے بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی شدید تقریض کرنےکی ناپاک جسارت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عربی سے محبت کرو کیونکہ یہ جنت کی زبان ہے۔میری زبان ہے ۔ بھئی وقار صاحب آپ کو میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھلے آپ اور آپ کے ہواخواعربی سے محبت نہ کریں مگر ہمارے پیارے آقا کو تو یہ ہی پسند تھی اور اسی کی ہمیں تلقین کی تھی۔ ساری دنیا کی زبانیں چھوڑ کر اگر اللہ تعالیٰ کو ابدی کتاب نازل کرنے کے لئے زبان ملی تو عربی ملی۔ مگر آپ کو اگر قرآن کی زبان پسند نہ آئے تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔ تمام دنیا کی زبانوں کو اگر عربی زبان کی بیٹی قرار دیا گیا اور عربی کو ام الالسنہ قرار دیا گیا تو اس میں اب آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ صاحب یہ جو اردو زبان میں آپ کالم نگاری کر کے پیسے بنا رہے ہیں تو بھیا یہ زبان بھی تو عربی کے آغوش میں پلی بڑھی ہے اور ہر دوسرے لفظ کی بنا عربی اور فارسی میں ملتی ہے ۔
رہی یہ بات کہ کتنے فاضل عربی لوگوں نے ایجادات کی ہیں تو ذرا حوصلے سے سنیں اور جذباتی انداز اختیار نہ کریں۔ عربی فاضل توایک معمولی سا عربی زبان سیکھنے کا کورس ہے نہ کہ عربی زبان سیکھ کر سائنس کی ایجادات کرنے کی سند۔ ہاں جیسا کہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ دنیا میں ہر قسم کی ایجادات انگریزی زبان کی وجہ سے ہی ممکن ہیں تو معذرت سے عرض کروں گا کہ کالم لکھنے سے قبل کچھ تاریخ عالم کا مطالعہ ہی کرلیتے تو شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔ صاحب اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابن رشد
Averroes۔
البیرونی۔ عباس بن فرناس۔ علی بن خلاق اندلسی۔مظفرالدین طوسی۔ البیرونی
(Al-berouni)
اور ازرقیل
(Azarquiel)۔
ابوالوفاء، الکندی، ثابت بن القراء، الفارابی، عمر خیام، نصیرالدین طوسی، ابن البناء المراکشی، ابن حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور ابراہیم بن سنان۔ ابن سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ ۔ ابن الھیثم اور بابائے کیمیا جابر بن حیان کے ناموں کو کیوں بھول گئے۔ آئیے ان کا کچھ مختصر تعارف بھی دیکھ لیں کہ کن علوم میں انہوں نے آج کے سائنسدان کو حقیقی راہنمائی عطا کی۔ بھیا یہ وہ نام ہیں جن کے ناموں سے بھی آج آشنا نہیں ہیں مگر مغربی دنیا ان کے سامنے ذانوئے تلمذ طے کئے ہوئے ہے۔
ابن سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی طبعیات کی خدمات ابتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد ازاں محمد بن زکریا، البیرونی اور ابوالبرکات البغدادی نے اسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علم التخلیقات میں
(Cosmology)
کو خاصا فروغ دیا۔ حرکت
(Motion)
اور سستی رفتار
(Velocity)
کی نسبت البغدادی اور ملا صدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لیے بھی باعث حیرت ہے۔ پھر ابن الہیثم نے
Attraction, Capillary, Gravitation, Velocities, Time, Space, Weight, Measurement, Atmosphere, Denisty
جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کرکے طبعیات
(Physics)
کے دامن کو علم سے بھردیا۔ اسی طرح
Mechanics
اور
Dynamics
کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
حساب، الجبرا، جیومیٹری
(Mathematics, Algebra, Geometry)
کے میدان میں الخوارزمی، مؤسسین علم میں سے ایک ہیں۔ حساب میں
Algorism یا Algorithm
کا لفظ الخوارزمی
(Al-Khwarizimi)
کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ ان کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصاب
(Text Book)
کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اسی سے مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اس کتاب میں تفرق کی معکوس
(Intergration)
امر مساوات
(Equation)
کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دی گئی تھیں۔ اس طرح صفر
(Zero)
کا تصور مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابوالوفاء، الکندی، ثابت بن القراء، الفارابی، عمر خیام، نصیرالدین طوسی، ابن البناء المراکشی، ابن حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور ابراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات Arithmetic
،Algebra، Geometry اور Trigonometry
وغیرہ کی خدمات کی حامل ہیں. حتیٰ کہ ان مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اصولوں کے ذریعے Optics
اور
Mechanics
کو بھی خوب ترقی دی۔
کس کس علم کا ذکر کروں کہ جس میں مسلمانوں نے کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دئے۔ یہ سب عربی میں ہی لکھتے اور ریسرچ کرتے تھے۔ ہاں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں یہ ماضی کی باتیں آج کا بتائیں تو صاحب ڈاکٹر عبد السللام نے تو نوبل پرائز لے کر بتا دیا کی مسلمانوں میں قرآن پڑھنے کے باوجود انسان سائنس پڑھ بھی سکتا ہے اوردنیا کو پڑھا بھی سکتا ہے۔ کبھی موقعہ ملے تو ڈاکٹر سلام صاحب کی کتب کا مطالعہ کریں وہ اپنے ہر مضمون کی بنیاد قرآن مجید کی آیات سے لیتے ہیں جو کہ عربی میں ہے اور پھر ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کی عظیم سچائی کی روشنی میں یہ سائنس کی حقیقت ہے۔
برادرم میں آپ سے صرف اور صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مختلف باتوں کو یکجا کرکے غلط نتیجہ نہ نکالیں۔ عربی سیکھنے سے مسلمان دنیا سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ دوسری طرف کہیں بھی یہ نہیں کہا جارہا کہ انگریزی مت سیکھیں۔ ہاں کسی بھی چیز کا بے محل استعمال ظلم ہوتا ہے۔ اگر یہ سوچ ہو کہ عربی سیکھنے سے انسان صرف ملا ہی بنتا ہے تو یہ غلط ہے۔ عربی سیکھیں۔ انگریزی سیکھیں اگر علوم کے حصول کے لئے کوئی بھی زبان سیکھنی پڑے تو سیکھیں مگر اپنی اصل بیماری کو پہچانیں کہ ہمارے ہاں حقیقی لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ ہمیں کسی امانت دار۔ قابل اعتماد حاضر دماغ لیڈر کی ضرورت ہے جس پر ہم حقیقی اعتماد کر سکیں پھر ترقی دیکھیں اور ترقی کی رفتار دیکھیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved