اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0334-5877586

Email:-m.wajiussama@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔01-09-2009

دوسری جنگ عظیم کا پیغام مسلمانوں کے نام
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر احمد ظفر
زندہ و تابندہ قومیں اپنی تاریخ کے یادگار و ناقابل فراموش واقعات و سانحات کی بڑے دھوم دھام سے یاد مناتی ہیں تاکہ تاریخ کے جھرونکوں سے عبرت پکڑ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسی روائتیں معدوم ہوچکی۔ہم قومی و ملی واقعات کی یاد تو ضرور مناتے ہیں لیکن ہم اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنے سے نفرت کرتے ہیں ۔اٍس حوالوں سے ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں جو ہماری بے حسی کا ماتم کرتی ہیں۔ایک چھوٹی سی مثال وطن عزیز میں انتہاپسندی کا وبال جان بنا ہوا سانحہ ہے۔پاک فورسز اور طالبان پچھلے آٹھ سالوں سے صف ارا ہیں۔خون کے سمندر بہہ گئے۔خود کش حملوں نے ہزاروں ماووں کو أنکے لخت جگر بیٹوں سے محروم کردیا مگر المیہ تو یہ ہے کہ طرفین( حکومتی و عسکری پالیسی میکرز بمقابلہ قبائلی پٹھان) تاریخ سے درس لینے پر امادہ خاطر نہیں۔راقم کے زہن میں محولہ بالہ المیے نے أس وقت کھلبلی مچادی جب0 اگست کو لندن میں منعقد ہونے والی نمائش کی خبر نظروں سے گزری۔اٍس نمائش کوut break 39 کا نام دیا گیا ہے اور یہ ایمپیریل وار میوزیم میں دوسری جنگ عظیم کی0 10سالہ تاریخ کی یاد میں ارگنائز کی گئی ہے۔دوسری جنگ عظیم کی تاریخ ہمارے لئے بھی سود مند ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ انتہاپسندی و دہشت گردی کی راہ پر چلنے والے جنگجو اور دنیا کے ہر مسئلے کو جنگ و قتال کے زریعے حل کرنے کی خواہش رکھنے والے انتہاپسند ایسی تاریخ ساز و سبق اموز نمائشوں کو پل بھر میں ختم کرنے کے درپے بن جاتے ہیں ۔طرہ یہ کہ انتہاپسند و جنگجو ایسی نمائشوں کو دیکھنا تو درکنار أسے کفر تک کا نام دے ڈالتے ہیں۔یہ وہ طبقہ ہے جسکی تعداد افغان سوویت جنگ کے آغاز کے بعد بڑھتی رہی اور جنہوں نے مخالفین کو راندہ درگاہ بنانے کا واحد حل اٍس نقطے میں ڈھونڈا کہ مخالفین کے سر تن سے جدا کردئیے جائیں۔آج اگر امریکی جنرل مائیک مولن اور مغربی میڈیا چیخ چیخ کر ناٹو کی کابل میں ناکامی کے نوحے گاتے ہیں اور طالبان کی طاقت کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔یہ روئیے ثابت کرتے ہیں کہ امریکی اندر خانے اعتراف شکست تسلیم کرچکے ہیں۔کاش کوئی بڑا امریکی عہدیدار ماضی پر نظر دوڑائے کہ وائٹ ہاوس نے کس طرح افغان سوویت جنگ کو اسلام سے نتھی کردیا اور پھر دنیا کے ہرکونے سے مسلمان جوانوں کو پاکستان میں ٹرینگ دی اور اپنے خزانوں اور اسلحہ ڈپوں کے دروازے مجاہدین پر واہ کردئیے۔امریکہ نے ایک غاصب جرنیل کے سر پر ہاتھ پھیرا یوں خطے میں دہشت گردی کا عفریت سامنے ایا۔لگتا ہے امریکہ نے ویت نام میں شرمناک شکست کا بدلہ چکانے کے لئے افغان سوویت جنگ کے شعلوں کو بھڑکایا۔یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف سوویت یونین منہدم ہوا تو دوسری طرف مشرقی یورپ میں کمیمونزم کا بت پاش پاش ہوگیا۔یہ بھی سچ ہے کہ أس زمانے میں وائٹ ہاوس کے پردھان منتری پھولے نہیں سماتے تھے اور اعلان کیا کرتے کہ دنیا یک قطبی ہوگئی مگر ایک کڑوا سچ تو یہ ہے کہ دنیا کو برق رفتاری سے اپنی لپیٹ میں لینے والی دہشت گردی خون ریزی امریکی حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی،کم فہمی اور شقی القلبی کا نتیجہ ہے جسکا خمیازہ عراق و کابل میں بے گناہ مسلمان بھگت رہے ہیں۔لندن میں ہونے والی نمائش برطانیہ کی نئی نسل کے لئے حیرت و استعجاب کا زریعہ ہوگی مگر أن برطانیوں کے لئے یہ نمائش المناک یادوں کے دریچے کھول دے گی جنہوں نے نازیوں کے بھیانک مظالم دیکھے جن کے کانوں کے پردے ہٹلر کی فضائیہ کے جہازوں کے شور سے پھٹ گئے اور وہ جنہوں نے لندن کی تباہی کے مناظر سہے۔برصغیر پاک و ہند کے باسیوں کے لئے پہلی و دوسری جنگ عظیم نے کئی اثرات مرتب کئے۔دوسری جنگ عظیم939 1میں شروع ہوئی اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان پر بے روزگاری غلامی اور غربت کی سیاہ گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔انگریزوں نے اپنی سب سے بڑی نوابادی ہندوستان میں ہزاروں جوانوں کو فوج میں بھرتی کیا اور پھر أنہیں جنگ کے جوزف جہنم میں دھکیل دیا۔روپوں کے حصول کے لئے فوج میں بھرتی ہونے والے ہندوستانیوں کو ایک روپیہ تک نہ ملا۔محاز جنگ سے تنخواہوں کی امد کی راہ تکتے تکتے اکثر والدین موت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔اٍس جنگ کی تباہ کاریوں کا ہلکہ سا نظارہ اٍن اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ جنگ کروڑ انسانوں کو موت کا لقمہ اجل بنا گئی۔جنگ میں 10کروڑ فوجی شامل تھے۔ہلاک شدگان میں کروڑ کم سن بچے لڑکے اور حرماں نصیب عورتیں بھی شامل تھیں۔ لاکھ فوجی قیدی کیمپوں میں غذا کی قلت ظلم و ستم کے کارن مرگئے جبکہ اٍس ہولناک جنگ میں اڑھائی کروڑ فوجی پیوند خاک ہوئے۔دوسری جنگ عظیم کے ایک اہم ترین فریق امریکی صدر روز ویلٹ بارہ اپریل45 19میں دل کے دورے کی تلوار سے مرگئے تو أنکی جگہ نائب صدر ہیری ٹرومین نے صدارت کا ہما پہنا اور یہ وہی صاحب ہیں جنکی اجازت سے امریکی فضائیہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جوہری بموں کے تجربات کئے جس سے دونوں شہر کھنڈرات کا ڈھیر بن گئے۔یوں وجودٍ کائنات کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ نے جوہری سفاکیت کا استعمال کیا۔جنگ5 لاکھ ہندوستانی سپاہیوں کو نگل گئی۔جنگ عظیم کے خلاف کئی شعرا نے اپنے فن وپارے۔ گائے یا لکھے کیونکہ شعرا دانشور ہمیشہ جنگوں کے خلاف اپنا احتجاج اپنے قلم سے کرتے ہیں۔پاکستان میں جاری جنگ کے دوران جب کوئی شاعر اٍسکی مخالفت اور امن کے قیام کے لئے اواز حق بلند کرتا ہے تو جنگ عظیم دور کے شاعر کی نظم کا ترجمہ سینے میں درد پیدا کرتا ہے۔جنگ کا دیوتا دوبارہ خون انسانیت کو چوسنے کے لئے میدان میں آچکا۔أسکے منہ سے سرخ شعلے نکل رہے ہیں۔وہ خون کی پیاس اور گوشت کی بھوک سے چلارہا ہے۔أسکے ہاتھ میں خونیں جنجر ہے جس سے وہ شرف انسانیت کے گلے کاٹے گا۔دیوتا کبھی اسمان سے قیامت صغری برپا کرتا ہے تو کبھی وہ دھرتی پر آدم خوروں کے روپ میں موت کا پیغام تقسیم کررہا ہے۔انسان تو درکنار فصلیں و کھیت بھی سہمے ہوئے ہیں۔جن کھیتوں سے کبھی شادابی کی مہک اور کونپلوں کی خوشبو فضاوں میں پھیلی رہتی تھی آج وہاں بارود اور لاشوں کی سڑانڈ دار بدبو ہے۔شبنم کے پیراہنوں کی جگہ خون کے قطرے نظر اتے ہیں۔مندر مسجد اور کلیسا بھی خون کے تالاب بن چکے ہیں۔جنگ کی سفاکیت پر کئی ڈرامے فلمیں ناول وافسانے تحریر و تخلیق ہوئے جن میں ہمارے عظیم شاعر قاسمی صاحب کے افسانوں کا ایک واقعہ دلوں کو تڑپا دیتا ہے۔میں نے ایک روز جرمن سپاہی کی لاش دیکھی تو دل بھر ایا۔أسکی جیبوں سے سنہری بالوں کا گچھہ برامد ہوا۔ وہ سپاہی مورت کی طرح خوبصورت تھا۔أسکی جیب سے مرجھائے ہوئے پھولوں کی چند پتیاں اور نوجوان عورت کی تصویر بھی تھی۔پاکستان میں قتال و جدال عروج پر ہے،انتہاپسند اٍس سلسلے کو پورے عالم میں پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ وحشی انسانوں کا وہ ٹولہ ہے جو انسانوں کی گردنیں کاٹتے اور زبح کرتے ہوئے شک پڑنے پر اپنے ہی ساتھیوں کو بے دریغ قتل کرتے ہوئے اور خود کش بمبار بناتے وقت پشیمانی تک نہیں ہوتی مگر زندہ انسانوں کو زبح کرنے والے عوام کے دل نہیں جیت سکتے۔محبت و عقیدت تو فاتح عالم کہلاتی ہے جسکا راستہ امن خوشحالی سلامتی و تحفظ کی شاہراہ سے گزرتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ جنگوں میں اربوں انسانوں کی ہلاکتوں کی تاریخ سے واقف ہونے کے باوجود اج بھی انسانوں کے خون کی پیاس ختم نہیں ہورہی۔یہ کب ختم ہوگی کچھ پتہ نہیں ؟ امریکہ کو اٍس سوال کا جواب دینا چاہیے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved