اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- +1-514-970-3200

Email:-naseer@inbox.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔06-12-2009

 تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔۔۔
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر احمد ظفر

جمہوریت کا کیا ہوا جمہور کی کیا رائے ہے
فکر کس کو ہے یہاں کرسی کی ہے رسہ کشی
اکثر دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ ہم بہت کم لکھتے ہیں۔اپنے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پیارے پاکستان کے حالات دن بدن ابتر سے ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔کچھ بھی لکھنے سے پہلے اب کئی دفع سوچنا پڑتا ہے کہ لکھا جائے تو کیالکھا جائے۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد یہ سوچا جا رہا تھا کہ شاید اب حالات کچھ بہتر ہو جائیں گے لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہمارا ملک جسے مملکت خدادا بھی کہا جاتا ہے اس کے حال و مستقبل کا فیصلہ واقعی واشنگٹن میں ہوتا ہے۔اس لیے جنرل پرویز مشرف ہوں یا آصف علی زرداری ،کسی کے آنے،جانے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔مختلف چہرے کرسی صدارت پر رونق افروز ہوتے رہیں گے اور تاریخ رقم ہوتی رہے گی۔اسی لیے کہتے ہیں کہ وقت کا پہیہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے کبھی نہیں تھمتا۔اور نت نئے واقعات رقم کرتا رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ہمار املک ،پیارا پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوری حکومتوں کی ناکامی کے بعد تاریخ نے اپنے آپ کو نئے روپ میں نئے کرداروں کے ساتھ دہرایا۔ یہ تاریخ جسے ہر دس سال بعد دہرایا جاتا ہے اس کی ابتدا پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک سال بعد شروع ہوئی۔ ہمارے پیارے پاکستان کے لیے پہلا بدشگونی کا سال

1948

 تھا جب بابائے قوم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ ٹی بی اور کینسر میں مبتلا ہو کر راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی علالت کو صیغہ راز میں رکھا گیا کیونکہ اگر اس کی سن گن لارڈ ماونٹ بیٹن کو لگ جاتی تو شاید پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔بابائے قوم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی وفات کے بعد پاکستان بے سمتی کا شکار ہو گیا۔سچ تو یہ ہے کہ قائد ملت لیاقت علی خان جنہیں16  اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا ،کے بعد ہمارے ملک کو کوئی ایسا لیڈر نہیں ملا جو ملک اور قوم کے لیے مخلص ہوتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ملک پر مفاد پرست سیاست دان حاوی رہے۔ رشوت اور جرائم کی گرم بازاری رہی۔نسلی اور مسلکی تشدد کو بڑھاوا ملا اور نظم و نسق کی صورت حال ابتر ہو گئی۔ جس کا فائدہ اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اُٹھایا ۔ اس طرح 1958 وطن عزیز کی تاریخ میں ایک نیا موڑ لے آیااور جنرل محمد ایوب خان ملک کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر بنے۔ دس سال بعد 1968 میں ایک صدارتی فرمان نے طلبا میں بے چینی پیدا کر دی اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔طلبا کی یہ تحریک جلد ہی عوامی احتجاج میں بدل گئی۔جس میں کسان،مزدور اور ٹریڈ یونینیں بھی شامل ہو گئیں۔ تحریک نے اتنا طول پکڑا کہ اگلے ہی سال صدر پاکستان محمد ایوب خان کو کرسی صدارت چھوڑنا پڑی اور ان کی جگہ رنگین مزاج بلا نوش قسم کے آدمی جنرل محمدیحییٰ خان نے لی۔اسی زمانے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ جاگیردارشخص ذولفقار علی بھٹو ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے۔ عوامی استحصال کے خلاف اور مساوات کی حمائت اور روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کر کے انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں عوام کے دل و دماغ میں اپنی جگہ بنا لی۔ وہ ایک اولوالعزم اور جاہ پرست آدمی تھے۔1970 کے الیکشن میں انہیں اپنی شکست ناگوار گزری۔انہوں نے اکثریت حاصل کرنے والی نیشنل عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن کو لسانی اور علاقائی بنیادوں پر اقتدار سے محروم رکھنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ذولفقار علی بھٹو کے اقتدارحوس کی ملک کو بہت بڑی قیمت چکانا پڑی اور مملکت خداداد کو دو حصوں میں تقسیم ہونا پڑا۔دس سال بعد 1978 میں ایک اور آمر جنرل محمد ضیاءالحق نے ذولفقار علی بھٹو کو ایک کیس میں تختہ دار پر لٹکا دیا اور یہ آمر خود صدر بن کے قصر صدارت میں مزے لوٹنے لگا۔اسی آمر کے دور میں اسلام کے نام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بڑھاوا ملا اور ملک میں کلاشنکوف اور بندوقیں سر عام نظر آنے لگی۔1988 میں یہ آمر ایک فضائی حادثہ میں ہلاک ہوا اور ہمارے ملک میں پہلی بار خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو کرسی وزارت اعظمیٰ نصیب ہوئی لیکن یہ کرسی ان کے لیے سود مند ثابت نہ ہوئی اور ایک سال کے اندر رشوت ستانی کے الزام نے بے نظیر بھٹو کو باہر کا راستہ دکھایا۔ ان کی جگہ محترم میاں محمد نواز شریف نے لی لیکن ان کا بھی یہی حشر ہوا۔ یہ سانحہ ان دونوں کے ساتھ دو بار پیش آیا اور دونوں لیڈر ایک بار بھی اپنی معیاد پوری نہ کر سکے۔1998 میں ہندوستان کے ایٹمی دھماکہ کے جواب میں میاں نواز شریف نے چاغی میں نیوکلیائی دھماکہ کر کے پوری دنیا کو چونکا دیا۔ یہ دھماکہ میاں محمد نواز شریف کے لیے وبال جان بن گیا۔اور بڑی طاقتوں نے اگلے ہی سال پاکستان کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ذریعہ انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ اب انہیں بھی جلا وطنی کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ دنیا کی چند بڑی طاقتوں اور کچھ افہام و تفہیم کے بعد دونوں لیڈروں کی جلاوطنی ختم ہوئی اور دونوں لیڈرواپس پاکستان آ گئے اور ایک نئے دور کی شروعات ہوئی۔لیکن ماضی کی طرح ایک بار پھر ملک کے داغدار ماضی نے ایک بار پھر سر اُٹھایا اور27 دسمبر 2007 کو لیاقت علی خان شہید کی طرح بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی ریلی کے اختتام پر قتل کر دیا گیا۔

1980

کی دہائی میں ہمارے ملک نے روس کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے امریکہ کی جنگ لڑی تھی اب وہی جنگ دہشت گردی کے خلاف ہمیں اپنے ملک میں لڑنا پڑ رہی ہے۔ہمارے موجودہ حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ پر حد سے زیادہ انحصار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسجدوں اور مدرسوں کی پامالی،عدلیہ اور میڈیا کی آزادی پر قدغن، ایمرجنسی ،آئین کی معطلی،بڑھتی ہوئی مہنگائی نے میڈیا،وکلاءاور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی برگشتہ کر دیا۔جس کا بھر پور اظہار عوام نے ۸۱ فروری کے الیکشن میں کیا۔ اور جنرل پرویز مشرف کی پارٹی حکمراں جماعت ق لیگ کو الیکشن میں زبردست شکست دئے کر عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ آمریت کتنی ہی ظالم و جابر ہو بالآخر فتح عوام کے جوش و جذبے اور امنگوں کی ہوتی ہے۔فروری کے الیکشن نے یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ قومی و صوبائی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ نواز اور عوامی نیشنل پارٹی کا غلبہ ہے۔مخلوط حکومت کے لیے یہ سیاسی
پارٹیو ں کا پہلا تجربہ تھا۔یہ تینوں پارٹیاں صرف اور صرف صدر جنرل پرویز مشرف دشمنی میں یکجا تھیں۔جب تینوں پارٹیوں نے مل کر صدر پرویز مشرف کو گھر کا راستہ دکھا دیا تو ان کے آپسی مفادات ٹکرانے لگے تو ان کے سر سے مخلوط حکومت کا سارا خمار اتر گیا ہے اور اب جو صورت حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔لکھنے والے،پڑھنے والے سبھی لوگ جانتے تھے کہ ماضی میں یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں اس لیے یہ دونوں پارٹیاں کبھی اکھٹا نہیں چل سکتی۔نواز شریف اور آصف علی زردار ی دونوں کے ترکش میں بہت سے تیر ہیں جو وقت آنے پرچلنا شروع ہو گے ہیں۔یہاں فوج کے متعلق بات نہ کرنا بھی زیادتی ہے آئی ایس آئی کے سابق چیف اور فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھ کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اور ویسے بھی فوجیں بیرکوں یا بارڈرز پر ہی اچھی لگتی ہیں۔ملک
کی موجودہ صورت حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آخر کب تک فوج اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھے گی۔موجودہ حکومت سے عوام کو بہت سی توقعات تھیں لیکن موجودہ حکومت کی وزیر اعظم کچھ بیانات دئے رہے ہیں اور وزیر اعظم کے مشیررحمان ملک صاحب اپنی پگڑی رنگنے میں مصروف ہیں اور صدر پاکستان کی تو بات ہی نرالی ہے وہ تو ایسا لگتا ہے کہ سیاست کرنے نہیں بلکہ عشق کرنے آئے ہیں۔ جس کا ثبوت انہوں نے اپنے پہلے ہی دورہ امریکہ میں دیا تھا ۔خیر کالم کو سمیٹتے ہوئے آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ پاکستانی لیڈران اور پاکستان پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان کے نظریاتی پہلو پر بات کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کا قیام اس دعوئے کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ مسلمان ایک علیحد قوم ہیں اور ایک الگ مذہب اور تہذیب کے داعی ہیں۔ہمارا یہ نعرہ،یہ دعوعیٰ کتنا کھوکھلا ہے اس کا اندازہ تو ہمیں 1971 میں ہوا جب پاکستان دو ٹکرے ہو گیا۔ہمارے ملک کے لیڈروں نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا آج بھی لسانی اور علاقائی عصبیت برقرار ہے۔جذباتی استحصال کے لیے آج بھی مذہب کا استعمال کیا جا رہا ہے۔کبھی شیعہ کافر کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔اور کبھی وہابیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جاتا ہے اورکبھی سنیوں کو مشرک قرار دیا جاتا ہے ۔اگر کہنے کو کچھ نہ مل پائے تو سمندر کہ تہہ میں دو مچھلیوں کی لڑائی کو جماعت احمدیہ کی چال قرار دئے کو ملک میں دنگا فساد کروا دیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا گٹھ بندن پاکستان کو ایک اسلامی ملک بنانا چاہتا ہے اور سیاسی پارٹیاں شریعت کو جمہوریت کے چور دروازئے سے نافذ کرنے کا دعوعیٰ کرتی ہیں۔سچ پوچھیے تو ملک کے ساتھ کو ئی بھی مخلص نہیں ہر ایک کو صرف اورصرف اقتدار کی پڑی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو دیکھ لیجئے انہوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے لیے اپنی مرضی کی وزارتیں طلب کیں۔ددوسری طرف جناب اسفند یار ولی نے اپنے مطالبے سامنے رکھے اور ایم کیو ایم کی تو بات ہی اور ہے۔رہی بات میاں صاحب کی تو میاں صاحب نے اپنے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی سے الحاق ختم کر لیا۔کوئی ایک بھی لیڈر ایسا نظر نہیں آتا جس نے اپنے مفادات کا گلہ گھونٹ کر عوام یا ملک کی خیر خواہی کا سوچا ہو۔ہمارے مذہبی لیڈروں اور سیاسی لیڈروں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سماج میں جب بھی کسی ایک نظریے یاازم کو لادنے یا تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی کوکھ سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے جس کی زندہ مثالیں ہمیں ہر روز ملتی ہیں۔حضرت شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved