اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-nazim.rao@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-06-2011

کیا ہم ایک مکھی کی طرح بھی نہیں رہ سکتے؟؟

کالم----------ایم ناظم راو

کیا ہمارا حق نہیں ہے ۔۔۔۔کرپشن پر؟ہم نے جو گورنمنٹ املاک کو نقصان پہنچایا ۔۔۔۔تو کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ؟اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟سیاستدان انتہائی غلط روش اختیار کیے ہوئے ہیں؟او جی! چھوڑو یہاں ایسا ہی چلتا ہے۔ایسے جملے ہماری قوم کی عام زبان میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر شخص کی فطرت ایسے ہی جملوں کے مطابق بنتی جا رہی ہے۔کہتے ہیں جب کسی قوم پر تنزلی آتی ہے تو اخلاقی معیار گر جاتے ہیں اور مایوسی عام ہوتی ہے۔کچھ ایسی ہی حالت اس وقت ہماری قوم کی ہے ۔کیا تو دہشت گردی سانس نہیں لینے دیتی اور اوپر سے مایوسی سر نکالے کھڑی ہے۔ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہےے ؟یہ الگ سوال ہے۔ہماری قوم نفسیاتی طور پر کمزور ہو چکی ہے ہر طرف ڈپریشن ،ٹینشن،قلبی امراض،سر درد جیسے خطرناک امراض میں اضافے کی شرح دیکھنے میں آ رہی ہے۔نفسانفسی کا عالم ہے ہر نفس کو صرف اپنی جان کی پڑی ہے۔ہر نفس نے اپنے اندر جانکنا چھوڑ دیا ہے اور خود غرضی کا راستہ اختیار کےے ہوئے ہے۔ہر شخص لوٹ مار کے طریقوں پر غور و غوض کرتا ہے حتیٰ کہ علماءنے نشاندہی کی ہے کہ اب لوگ ہم سے چوری اور ڈکیتیوں کے جواز کے متعلق فتویٰ طلب کر تے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ ہر شخص برائی کے راستے کو اپنے لےے تجویز کر رہا ہے۔اگر کسی بڑی شاہراہ پر ایک بینک توڑ دیا جائے تو کتنے لوگ اُس بینک کو لوٹنے سے گریز کریں گے؟تقریباً کوئی بھی گریز نہیں کرے گا۔اگر کوئی کمزور شخص ہاتھ آئے اور غصے کے عالم میں کتنے لوگ درگزر سے کام لیں گے؟ تقریباً کمزور کو ہر کوئی مارے گا! ۔۔۔ہے ناں ۔کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے ہمسایوں کو اپنے کھانوں میں شریک کرتے ہیں؟اگر میڈیا ایسے موضوعات پر سروے کرے تو انتہائی مایوس کن جواب ملیں گے۔
افسر شاہی نوکر طبقہ کو ڈنک مارتی ہے ، جاگیر دار مزارعوں کو کھا رہے ہیں اور جاگیرداری مخالف پارٹیاں جاگیرداروں کو کھا رہی ہیں۔سرمایہ دار مزدور کا خون چوسنے میں مصروف ہے تو مزدور کی محنت کو سیاسی پارٹیاں کیش کر رہی ہیں۔کہتے ہیں قیامت کے روز نفسانفسی کا عالم ہو گا؟میں اپنے مرشد سے پوچھا کہ نفسانفسی کیا ہے؟تو انہوں نے فرمایا کہ اپنی جان کی فکر کرنا اور دوسرے کی پروا نہ کرنا نفسانفسی ہے اور یہی نفسانفسی کو دور ہے ۔کامل مرشد نے موجودہ دور کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب جب لوگ اپنی جانوں کی فکر کریں گے تو ان پر قیامت ضرور ٹوٹے گی۔۔۔۔!یعنی ناگہاں آفت ضرور آئے گی اور میرے خیال میں آ ج کل کی یہ نفسانفسی کا پھل دہشت گردی کی جنگ ہے جو ہم پر قیامت سے کم نہیں ہے۔میرے استاد نے کہا کہ شہد کی مکھی آدمی کو طریق اخلاقیات و تمدن سکھانے والی اور بڑی دانا ہے۔قرآن شریف میں ایک سورت اس کے نام سے منسوب ہے۔کیا ہم اور ہمارے بھائی ایک شہد کی مکھیوں کی طرح بھی نہیں رہ سکتے؟؟؟کیوں کہ شہد کی مکھی ابتدا سے خود مختار بادشاہ کے ماتحت ہے آدمی کی طرح رنگت نہیں بدلتی،ان مکھیوں کے ہر چھتہ میں ایک حکمران ملکہ ہوتی ہے جس کے حکم پر ہزاروں مکھیاں گردش کرتی ہیں،مکھی ملکہ کا فرمان اشاروں ہی اشاروں میں پورا ہوجاتا ہے اسے کسی پریس ریلیز یا میڈیا کی ضرورت نہیں ہوتی جب ذرا پروں کو حرکت دی اور آنکھوں کو سامنے کر کے بھنبھنائی تو فوراً سب رعایا تعمیل کےلئے کھڑی ہو گئی۔اس کی ریاست میں کو انارکسٹ یا کوئی باغی نہیں ہوتا؟سارے شہد میں وہ صرف اپنا اور اپنے بچوں کے پیٹ کےلئے شہد رکھتی ہے اور اگر ملکہ خواہش کر دے تو سارا شہد اس کے حوالے کردے یا کم از کم جو زائد ٹیکس اُن پر نافذ کیا گیا ہے وہ اُس کو خوشی خوشی برداشت کر لیں مگر ایسا نہیں ہوتا ! ملکہ کبھی رعایاکے حصے پر بُری نگاہ نہیں ڈالتی۔۔۔اگر ایک ادنیٰ مخلوق کا یہ حال ہے تو کیا پاکستان کے اشرف المخلوقات ایسا نہیں کر سکتے؟؟کیا ہمارے حکمران نیک دلی سے کام نہیں کر سکتے اور کیا ہم اپنی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کو خاتمہ نہیں کر سکتے ؟ اگر ہم نے ان مکھیوں سے کچھ نہ سیکھا تو ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔!کیا ہم ان مکھیوں کی طرح بھی نہیں رہ سکتے ؟؟ہمیں چوروں لیٹروں جیسے رویہ ترک کر نا ہونگے تو ہی یہ ممکن ہے کہ ہمارے سیاستدان میں چور لیٹرے نہ بنیں کیوں کہ

You Good,? People Good, Country Good World Good, If you are good

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved