اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔09-12-2010

حقا کہ بنا لاالہ است حسین رضی اللہ عنہ
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال

دس محرم الحرام اسلامی تاریخ کا ایک مستقل اور انتہائی دردناک باب ہے ۔اس میں حق و باطل کی معرکہ آرائی ،عدل و ظلم کی کشمکش اور صبر و ستم کی آمیز ش کی خونچکاں داستان رقم ہے ۔اس دلخراش سانحہ میں حق و صداقت کی علمداری کا سہرا انور دیدہ ¿ رسول امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر سجتا ہے اور خون کے آنسو رلا دینے والی ستم گری اور باطل پرستی کی مہم کا پیش رویزید پلید نظر آتا ہے ۔یزید پلید جب اپنی تمام تر بد اعمالیوں کے باوجود مطلق العنان ملوکیت کا مدعی بن کر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس روایات پر شب خون مارنے کےلئے در پئے آزاد تھا امام حسین رضی اللہ عنہ عین اسی وقت بے سر و سامانی مگر دینی حمیت سے لیس ہو کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی انجام دہی کے لئے آگے آئے اور اپنے اہل و عیال اور جان و مال کی پوری کائنات راہ خدا میں لٹا کر دینی تقدس کو پامال ہونے سے بال بال بچالیا ۔تارےخی نشیب و فراز پر نظر رکھنے والوں پر یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اگر اسلام کا گرد آلود چہرہ اپنے خون سے نہ دھوتے تو اسلام کا مقدس چہرہ اتنی سرخروئی کے ساتھ ہمارے سامنے موجود نہ ہوتا ۔بلا شبہ یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ اسلام کے سب سے بڑے محافظ و پاسبان ہیں ۔بلکہ صبح قیامت تک جب بھی کوئی یزیدی فتنہ ابھرے گا ۔حسےنی کردار حقانیت کا علامتی نشان بن کر امت مسلمہ کی رہنما ئی کرتا رہے گا۔اسلامی مملکت کی شہنشاہی کا نااہل دعویدار یزید ہمیشہ کے لئے فنا ہو گیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ شہنشاہ کائنات بن کر آج بھی دلوں کی سر زمین پر حکومت کر رہے ہیں ۔سچ ہے ۔
شاہ است حسین پادشاہ است حسین
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے محسنوں کی یاد یں مناتی ہیں اور جو قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو فراموش کر دیتی ہیں ،وہ لاشعوری طور پر زوال پذیر ہو جاتی ہیں ،امام حسین رضی اللہ عنہ ہمارے عظیم محسن و پیشوا اور دین و ملت کے محافظ و پاسبان ہیں ۔ہماری دینی و ملی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی دین پرور زندگی اور کردار و عمل کے تابندہ نقوش کو مشعل راہ بنائیں ۔امام حسین رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سراپا دین اور حق و صدقت کی چلتی پھرتی تصویر تھی ۔آپ نور دیدہ ¿ رسول ،جگر گوشہ بتول اور خانہ علی کے چشم و چراغ تھے ۔آپ کے ایمان افروز فضائل و مناقب سے تاریخ و سیر کی کتابیں لبریز ہیں ۔بارگاہ رسول کی مقبولیت ایک بندہ مومن کے اعزاز اور خوش بختی کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے اور یہی اس کی دینی سرفرازی کی معراج بھی ہے اس حوالے سے جب ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کی حیات آفریں زندگی کی ورق گردانی کرتے ہیں تو دل و دماغ مسرت انگیز و رطہ حیرت میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں ۔
5شعبان المعظم 4ھ کو مدینہ منورہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی ۔سرکار مدینہ ﷺ نے خود کان میں اذان دی،منہ میں لعاب دہن ڈالا اور دعا کے لئے ہاتھوں کو اٹھایا ۔ساتویں دن سرکار کے رکھے ہوئے نام حسین پر عقیقہ ہوا ۔سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:”حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبر و شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کے نام پر حسن اور حسین ر کھا۔“
ترمذی شریف میں حدیث ہے سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:حسین منی وانا من الحسین۔”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔“
حضر ت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ نے فرمایا:”جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو حسین بن علی کو دیکھے۔“
امام حسین رضی اللہ عنہ سرور کونینﷺ کے نور نظر اور حقیقی جانشین تھے اور حضورﷺ کے جمال یکتائی کے بھی پر تو اور عکس جمیل تھے ۔بلکہ حسنین کریمین ہی مظہر جمال مصطفےٰ اور ہم شبیہ شاہ ثقلینﷺ تھے ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ صرف ظاہری حسن و جال میں ہی اپنے نانا جان کے مشابہ نہیں تھے بلکہ سیرت و کردار اور اخلاق و اطوار میں بھی ذات رسول ﷺکے آئینہ دار تھے ۔آپ قائم اللیل اور دائم الصوم تھے ۔فرض نمازوں کے علاوہ بکثر ت نوافل پڑھتے تھے ۔آپ کے فرزند ارجمند حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شب و روز میں ایک ہزار نفل نمازیں پڑھتے تھے ۔ایک روایت کے مطابق آپ نے پاپیادہ پچیس حج کےے اور فارغ البال ہوتے ہوئے بھی انتہائی سادہ غذا استعمال فرماتے تھے ۔جو دو بخشش اورغرباءپروری آپ کی فطرت تھی ۔آپ کی مجلسیں وقارومتانت کا مرقع اور خوف الہٰی اور عشق سے لبریز رہتی تھیں ۔لوگ ان کی بارگاہ میں اتنے مو ¿دب اور سنجیدہ رہتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔آپ علوم و روحانیت کے بھی تاجدار تھے ۔اکابر مدینہ مشکل مسائل کے حل کے لئے ان کی طرف رجوع کیا کرتے ۔ان کے تبحر علمی ،حکمت و دانش اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ ان کے خطبات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ان بے پناہ فضائل و کمالات کے باوجود غرور و تمکنت اور خود پسندی اور ریا کاری سے حد درجہ اجتناب کرتے ،بلکہ حلم و برداری اور منکسر المزاجی میں اپنی مثال آپ تھے ۔
رسول اللہ ﷺ کے وصال مبارک سے قبل حضرت فاطمہ زہراءرضی اللہ عنہا بارگاہ رسول میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :یا رسول اللہ (ﷺ)! اپنے بیٹوں کو بھی کچھ عنایت فرمادیں ۔تو ارشاد رسولﷺ ہوا:”حسن کو میں نے اپنا حلم اور اپنی ہیبت عطا کی اور حسین کو اپنی شجاعت اور کرم بخشا۔“
جن شہزادوں کو حضورﷺ اپنی تجلیات سیرت سے خود سرفراز فرمادیں ،ان کے فضل و کمال اور عظمت و بزرگی کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی پر جس ر خ سے بھی نظر ڈالئے ذات رسول ﷺ کی مظہر اور دین متین کا پیکر جمیل نظر آتی ہے۔
حضرات گرامی! فرزند ان اسلام کا توحید و رسالت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ احکام الہٰی اور فرامین رسولﷺ کا نفاذ بھی ایمانی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری گھر کی چار دیواری سے لے کر کوچہ وبازار تک ،انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اور مسجد کے منبر و محراب سے لے کر سیاست و حکومت کے ایوانوں تک ہے ۔اس نقطہ نظر کے پیش نظر اگر کوئی ایسی نام نہاد السلامی حکومت وجود میں آجائے جو دینی اصول اور شرعی روایات سے قطعاً منحرف ہو اور مسلمان اسے تسلیم کرلیں تو یقینا لاالہ الا اللہ کی حقیقی روح کو کھو دینے کے مترادف ہو گا اور قوم مسلم خود اپنے دینی تشخص کے قتل کی مجرم ہو گی ۔
یزید پلید کی حکومت بھی سراسر اسلامی تقاضوں کے منافی اور شرعی حدود شکنی کی انتہائی دلدوز مثال تھی ۔ وہ در اصل مکمل آمریت اور غیر شرعی شہنشاہیت کی داغ بیل تھی ۔اس عہد کے اکابرین اسلام کا بیان ہے کہ یزید کے دور استبداد میں یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں ہمیں آسمانی پتھروں سے سنگسار نہ کیا جائے ۔اہل حکومت اعلانیہ محرمات سے نکاح کرتے ۔شراب پیتے اور نمازیں چھوڑتے تھے۔ اس پس منظر میں آپ خود اندازہ لگائیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ جو آغوش نبوت کے پروردہ تھے وہ اس اسلام دشمن آمریت کی تائید کیسے کر سکتے تھے؟ اور اگر خدا انخواستہ آپ اس غیر شرعی حکومت کے قائد یزیدکے ہاتھ پر بیعت کر لیتے تو اسلام کا مستقبل ہمیشہ کے لئے تاریک ہو جاتا ،بلکہ اسلام کی مجروح نعش اسی گھر میں دفن ہو جاتی جہاں سے وہ پروان چڑھا تھا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ اس نازک موڑ پر پورے عزم کے ساتھ باطل کی سر کوبی کے لئے آگے آئے اور شجر اسلام کی آبیاری اور تروتازگی کے لئے اپنی رگ حیات کا آخری قطرہ تک نچوڑدیا اور کربلا کے اس مسافر کو انتہائی صبر آزما اور مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا مگر ایک لمحے کے لئے بھی دین و شریعت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا ۔وہ باطل کے مقابلے میں حقانیت کی ناقابل شکست چٹان بن گئے اور حق و باطل کے درمیان کبھی نہ ٹوٹنے والی فصیل قائم کر دی ۔سچ ہے
دین است حسین دین پناہ است حسین
امام حسین رضی اللہ عنہ کے تحفظ اسلام کے لئے کربلا کے میدان میں جس جوانمردی ،عزم و ہمت اور صبر رضا کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں آپ پر پانی بند کیا گیا ۔نیزوں کی بارش ہوئی ،برچھیوں کے بادل چھائے اور تلواروں کے طوفان اٹھے مگر آپ کی ثابت قدمی میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئی۔ جواں علی اکبر کو نگاہوں کے سامنے قربان کیا گیا ،ننھے علی اصغر کو اپنے بازﺅں میں دم توڑتے ہوئے دیکھا۔بھائی کی امانت قاسم کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا،بہن زینب کو بالکل بے سہارا چھوڑ کر اپنی جان بھی راہ خدا میں قربان کر دی ،کربلا کے پورے منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالئے! آپ کو امام حسین رضی اللہ عنہ اور انکے غریب الدیار کاروان کا ہر کردار و عمل دین حنیف کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئیگا۔سرکار مدینہ ﷺ کے یہ کلمات امام حسین کے کانوں میں میدان کربلا میں بھی گونجتے رہے:لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔”پروردگار کی نافرمانی میں کسی انسان کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔“
لاشبہ اسلام الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہے ۔اسلام باطل کی نفی سے شروع ہوتا ہے اور حق کے اثبات پر مکمل ہوتا ہے ۔کربلا کے میدان میں بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اسی۔”لاالہ الا اللہ“ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے ۔باطل کی نفی اور حق کا اثبات اس معرکہ کربلا کا بنیادی عنصر تھا ،اسی لئے خواجہ ہند الولی معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
رضی اللّٰہ عنہم
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved