اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔09-12-2010

تاریخی تناظر میں فضائل و مسائل یوم عاشورہ
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال


قرآن عظیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے واذکروا ایام اللّٰہ۔”خدا (کے انعام) کے دنوں کو یاد کرو۔“ دوسری جگہ فرمایا وذکر ھم بایام اللّٰہ۔ ”انہیں اللہ کے دن یاد دلا دو۔“
یعنی وہ دن جن میں بڑی بڑی نعمتیں اللہ تعالیٰ کے طرف سے مختلف قوموں کو عطا ہوتی رہیں ۔مثلاً حکومت و اقتدار اور دشمنوں سے خلاصی، آفتوں سے نجات یا جو بڑی بڑی مصیبتیں مختلف قوموں کو قدرت کی طرف سے پیش آتی رہیں مثلاً وباو قحط ان کی محکومی و غلامی یا تباہی و بربادی ۔غرض یہ کہ ایام اللہ کے تحت ہر قسم کے اہم تاریخی واقعات آجاتے ہیں۔
یوں تو ہر دن ،ہر رات اور ہر زمانہ کا ہر لمحہ خداوند قدوس کی تخلیق سے ہے اور کچھ نہ کچھ خصوصیت رکھتا ہے ۔مگر بعض ایام ایسے ہیں جو اپنی نمایا ں خصوصیات کی وجہ سے دوسرے ایام پر فوقیت رکھتے ہیں ،بلکہ انہیں ایام میں ماہ رمضان کو جو دوسرے مہینوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے ،وہ کسی اہل اسلام سے مخفی نہیں ۔یونہی بعض دوسرے ایام بھی اضافی حیثیتوں سے بڑی عظمت و شرف کے حامل ہیں ۔
یوم عاشورہ یعنی دسویں محرم الحرام کا دن بھی انہیں مخصوص ایام میں سے ہے جن کی فضیلت کا ذکر کتب احادیث اور کتب تواریخ میں ملتا ہے ۔ذیل کی گفتگو میں یوم عاشورہ کی فضیلت اور اس کا تاریخی پس ِمنظر بیان کیا جا رہا ہے ۔جس سے اس دن کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
اسلام میں چار مہینے حرمت والے قرار دیئے گئے ہیں۔(1)ذوالقعدہ۔(2)ذوالحجہ۔(3)محرم الحرام۔(4)رجب المرجب۔
عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی ان میں جنگ و جدال وغیرہ کو حرام تصور کرتے تھے اور ان مہینوں کی بے حد تعظیم و تکریم بجالاتے تھے ۔مگر مذہب اسلام میں ان مہینوں کی حرمت وعظمت اور زیادہ کی گئی ۔ان حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو خاصی برتری حاصل ہے کہ اس ماہ کی دسویں تاریخ جسے”عاشورہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،دنیا کی تاریخ میں اتنی عظمت و برکت والا دن ہے کہ جس میں پروردگار کی قدرتوں اور نعمتوں کی بڑی بڑی نشانیاں ظاہر ہوئیں جو تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
چنانچہ اسی دن:ا ¿حضرت آدم و حواہ علیہما الصلوٰة والسلام پیدا ہوئے اور اسی دن ان کی توبہ کو شرف قبولیت حاصل ہوا۔ا ¿حضرت ادریس ا علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے۔ا ¿حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح میں سلامتی کے ساتھ جودی پہاڑی پر لگی۔ا ¿حضرت ابراہیم علیہ السلام مرتبہ خلعت سے سرفراز کئے گئے ۔ا ¿حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ و سلامت باہر آئے ۔ا ¿عرش و کرسی ، لوح و قلم، آسمان و زمین، چاند و سورج، ستارے اور جنت بنائے گئے۔ا ¿حضرت ایوب علیہ السلام تکلیف سے صحت یاب ہوئے۔ا ¿حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام کے اپنے لاڈلے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ا ¿حضرت سلیمان علیہ السلام کو جن و انس وغیرہ پر حکومت عطا ہوئی۔ا ¿حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے ظالم و سفاک اور خدائی کے دعویدار شخص سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر سمیت دریا میں غرق کیا گیا۔ا ¿آسمان سے زمین پر پہلی بار بارش ہوئی۔ا ¿ہمارے آقا و مولیٰ تاجدار مدینہ ،راحت قلب و سینہ حضور ﷺ کا عقد ام المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہوا۔ا ¿اسی دن قیامت آئے گی۔
یوم عاشورہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اسی دن حضرت امام عالی مقام ،شہزادہ ¿ گلگوں قبا، راکب دوش مصطفےٰ ﷺ ،حضرت فاطمة الزہرہ کی آنکھوں کے تارے،تاجدارِولایت شیر خدا حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے بیٹا ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے 20ہزار عراقی سورماﺅں اور انعام و اکرام کے لالچی مسلح فوجیوں کے مقابلے میں اپنے بھانجھے، بھتیجے اور بیٹے کو اعلائے کلمة اللہ کے لئے میدان کرب و بلا میں قربان کر دیا اور بذات خود حضرت شیر خدا کے نور عین ،لخت جگر فاطمہ، جنتی نوجوانوں کے سردار حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ بھی محرم الحرام کی اسی دس تاریخ 16ھ ،بمطابق 10اکتوبر ،بروز جمعة المبارک،56سال ،5 ماہ اور 5دن کی عمر شریف میں اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف سفر فرمایا۔
ثابت ہوا کہ محرم کی دسویں تاریخ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت و فضیلت والی ہے ۔اسی لئے رب تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے محبوب نواسے کی شہادت کے لئے اسی یوم عاشورہ کو منتخب فرمایا۔
عام طور پر لوگ یوم عاشورہ کی اہمیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی اس دن کے اشغال و اعمال پر ،حالانکہ یوم عاشورہ کے دن میں نفل عبادات اور اس کے فوائد کا ذکر خود حدیث پاک میں موجود ہے ۔قارئین کرام کو ذیل کی حدیث شریف سے اس بات کا یقینا اندازہ ہو جائے گا کہ عاشورہ کے دن اعمال حسنہ کی انجام دہی میں کتنے فوائد مضمر ہیں ۔
چنانچہ تاجدار ولایت ،باب العلم،حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:”جس نے عاشورہ کی شب یعنی 9محرم کا دن گزار کر آنے والی رات کو عبادت کی تو اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا اس کو زندہ رکھے گا۔“
اسی طرح شہنشاہ بغداد حضور سیدناغو ث اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :”جو شخص شب عاشورہ میں رات بھر عبادت میں مشغول رہے اور صبح کو روزہ رکھے تو اس کو اس طرح موت آئے گی کہ اس کو مرنے کا احساس ہی نہ ہوگا۔“
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اس دن کا روزہ رکھے تو چالیس سال کا کفارہ ہو گا اور جس نے عاشورہ کی شب عبادت کی تو گویا اس نے ساتوں آسمانوں والوں کے برابر عبادت کی ،یوم عاشورہ کی فضیلت و بزرگی ،بہتری و برتری سے متعلق جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”جو شخص عاشورہ کے دن اپنے گھر والوں پر کھانے پینے کی کشادگی کرے گا تو سال بھر تک برابرکشادگی میں رہے گا۔“(بیہقی شریف)
یوم عاشورہ میں صدقات و خیرات کرنے کی بھی بے پناہ فضیلت آئی ہے جس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔جسے حضرت شیخ عبد الرحمن صفوری علیہ الرحمہ نے بیان فرمایا ہے ۔وہ فرماتے ہیں:”مصر میں ایک شخص رہتا تھا ،جس کے پا س صرف ایک کپڑا تھا جو اس کے بدن پر رہتا تھا ۔اس نے عاشورہ کے دن حضرت سیدنا عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کی مسجد میں نماز فجر ادا کی ،وہاں کا دستور یہ تھا کہ عورتیں عاشورہ کے دن مسجد میں جایا کرتی تھیں ۔ایک عورت نے اس شخص سے کہا کہ اللہ کے نام پر مجھے کچھ میرے بال بچوں کےلئے دے دیجئے ! اس شخص نے کہا: اچھا میرے ساتھ چلو! گھر پہنچ کر اس نے اپنے بدن کا کپڑا اتار کر دروازے کی درز سے اس عورت کو دے دیا ۔عورت نے دعا دی۔البسک اللّٰہ من حلل الجنة۔”یعنی خدائے تعالیٰ تجھے جنت کے حلے پہنائے ۔
اس شخص نے اسی رات ایک نہایت خوبصورت حور دیکھی جس کے ہاتھ میں ایک عمدہ خوشبودار سیب تھا ۔حور نے اس سیب کو توڑا تو اس میں سے ایک حلہ نکلا ۔ اس شخص نے حور سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ جواب دیا:میں تیری جنت کی بیوی عاشورہ ہوں۔ پھر وہ شخص نیند سے بیدار ہو گیا اور سارے گھر کو خوشبو سے مہکتا پایا ۔وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور بارگاہ الہٰی میں دعا کی:اللھم ان کنت زوجتنی حقا فی الجنة فاقبضنی الیک۔”یا ا لہٰ العالمین اگر وہ واقعی جنت میں میری بیوی ہے تو میری روح کو قبض کرلے اور مجھے اپنی طرف بلالے۔“
خدا وند قدوس نے اس کی دعا قبول فرمائی اور وہ اسی وقت اس دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گیا۔
یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کے بارے میں مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔“(مسلم شریف)
بخاری شریف اور مسلم شریف میں ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ۔آپ نے ان سے فرمایا کہ کیسا دن ہے ۔جس میں تم لوگ روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی تھی اور اسے اس کی قوم کے ساتھ ڈبو دیا تھا ۔تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے شکریہ میں یہ روزہ رکھا تھا ۔اس لئے ہم بھی روز ہ رکھتے ہیں ۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کرنے میں تو تمہاری بہ نسبت ہم زیادہ حقدار ہیں ۔ چنانچہ آقا علیہ الصلوٰة والسلام نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساری امت کو اس دن روزہ کھنے کا حکم دیا۔
مسئلہ:عاشورہ کے دن روزہ رکھیں تو اس کے ساتھ نویں کا بھی رکھیں حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عاشورہ کا روز ہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو(یوں کہ) ایک دن پہلے روزہ رکھو اور ایک دن بعد۔(مرقات)
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ چار عمل ایسے ہیں جن کو حضور ﷺ نے کبھی نہیں چھوڑا ۔عاشورہ کا روزہ، عشرہ ذی الحجہ کا روزہ، ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت مو ¿کدہ۔
ان کے علاوہ بہت حدیثیں ہیں جن میں سرکار مدینہ سرور قلب و سینہ حضور انو ر ﷺ نے جابجا عاشورہ کے دن کے فضائل بیان کئے ہیں اور اس دن کا روزہ ور حضوراقدس ﷺ نے رکھ کر اپنے تمام امتیوں کو اس کی تاکید فرمائی ہے جیسا کہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورہ کا روزہ فرض تھا ۔مگر جب رمضان المبارک میں ایک ماہ کا روزہ قرار دے دیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے، جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
عاشورہ کے دن علماءکرام نے گیارہ چیزو ں کو مستحب لکھا ہے ۔بعض نے انہیں ارشاد نبوی اور بعض نے حضرت مولیٰ علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے ۔بہرحال یہ اچھے کام ہیں ان کو بجالانے ،میں دینی اور دنیاوی دونوں فائدے ہیں ۔(1)روزہ رکھنا۔( 2)صدقہ ۔(3)نوافل پڑھنا۔(4) ایک ہزار مرتبہ سورة اخلاص پڑھنا۔(5)علماءاور اولیاءکی زیارت کرنا۔(6)یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔(7)اپنے گھروالوں پر کھانے کی وسعت و فراخی کرنا۔(8)سرمہ لگانا۔ (9)غسل کرنا ۔(10)ناخن تراشنا۔(11)مریضوں کی بیمار پرسی کرنا۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو غسل کرنا بہتر ہے کیونکہ اس روز زم زم کا پانی تمام پانیوں میں پہنچتاہے۔صاحب تفسیر نعیمی حضرت مفتی احمد یار خاں علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”عاشورہ کے دن غسل کرنے والا سال بھر تک بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔“
غرض کہ عاشورہ کا دن بارگاہ الہٰی میں مقبول دنوں میں ایک دن ہے اور اعمال صالحہ و صدقہ و خیرات کی قبولیت کا روز ۔اس لئے حضرات صوفیائے کرام کا ارشاد گرامی ہے کہ:۔(1)جو آج کے روز کسی فقیر پر صدقہ کرے گویا اس نے تمام فقراءپر صدقہ کیا۔(2)جو آج کسی بھولے بھٹکے راہ روکو سیدھے راستے پر ڈال دے رب عزوجل اس کے دل کو نور ایمان سے معمور فرمائے ۔(3)جو آج غصہ کو ضبط کرے اللہ تعالیٰ اسے دن میں لکھ دے جو راضی برضا ہیں۔(4)جو آج کسی مسکین کی عزت بڑھائے وہ مالک و مولیٰ قبر میں اسے کرامت بخشے۔
یہی وہ دن ہے جس کے متعلق نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا : ۔(1)جو شخص آج اپنے اہل و عیال پر کشادہ دلی سے خرچ کرے ۔ اللہ تعالیٰ اسے تمام سال کے لئے فراخی نصیب فرمائے(بہیقی)حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے پچاس سال اس کا تجربہ کیا اور ہر سال فراخی پائی ۔(2)جو شخص آج کے دن غسل کرے مرض الموت کے علاوہ اس سال کسی اور مرض میں مبتلا نہ ہو اور جو آج (بہ حسن نیت) سرمہ لگائے اس کی آنکھیں کبھی دکھنے نہ آئیں ۔یعنی اس کی چشم بصیرت دل کی آنکھ روشن رہے۔(3)جو عاشورہ کی شب قیام و ذکر میں اور اس کا دن روزے میں گزارے ،جب مرے گا تو اسے اپنی موت کا پتہ بھی نہ چلے گا۔(یعنی نزع کی سختی سے محفوظ رہے گا۔)(4)جو شخص عاشورہ کے روز (محض رضائے الہٰی کے حصول کی نیت سے )روزہ رکھے گویا اس نے تمام سال کے روزے رکھے۔ (5)جومسلمان آج کے روز صدقہ کرے تو اسے ایک سال کے صدقے کے برابر ثواب ملے ۔(6)جو شخص آج کسی ےتےم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے( اور اس کی دلجوئی کرے اس کی حاجت بر لائے)اللہ تعالیٰ ہر بال کے عوض جنت میں اسکا درجہ بلند فرمائے۔(7)جو آج کے دن صلہ ¿ رحمی کرے وہ حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے ساتھ جنت میں ہو گا (اور ان کی خدمت کا شرف پائے گا۔(نزہة المجالس وغیرہ)الغرض عاشورہ کا دن وہ مبارک و بابرکت دن ہے جس کے فضائل سے کتابیں مالا مال ہیں ۔مبارک ہیں وہ بندے جو اس ماہ محرم کا جسے حدیث شریف میں اللہ کا مہینہ فرمایا احترام بجالائیں اور اپنے ظاہر و باطن سے خدا و رسول کی طرف متوجہ ہوں اعمال صالحہ میں بیش از بیش مشغول رہیں۔
مسلمان بھائیو ! عمر کا کیا اعتبار اور کسے معلوم کہ اسے کب اس دنیا سے کوچ کرنا ہے دنیا میں آدمی آتا ہے تو اپنے مقدر کو اپنے ساتھ لاتا ہے لیکن جب جاتا ہے تو اعمال کے علاوہ اور کوئی اس کا ساتھی نہیں ہوتا ۔اعمال نیک کا توشہ ساتھ ہے تو قبر بھی روشن اور حشر میں بھی منہ اجالا اور بول بالا۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved