اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔22-09-2010

سیلاب کی دہشت اور زرداری کا فرض

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

مون سون کے اغاز میں شروع ہونے والاسال2010 اگست کا مہینہ قومی سانحات کی تاریخ کا بھیانک باب بنکر قوم کو تڑپاتا رہے۔اسی مہینے میں کشمیر کے کوہساروں سے لیکر وادی مہران کے بیابانوں تک جنوبی پنجاب سے لیکر نوشہرہ اور بلوچستان کے ڈیرہ مراد جمالی تک سیلابی طوفانوں نے وہ ہولناک تباہی برپا کی جسکا تذکرہ ہی جسم کو تھر تھر کانپنے پر مجبور کردیتا ہے۔

uno

 نے حالیہ سیلابوں کی سنگینیوں کو سونامی کے مقابل دوگنا قرار دیا۔

uno

کی تصنیف کردہ ابتدائی رپورٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان 50 سال پیچھے چلا گیا۔ سیلابی وحشت نے ایک طرف 2کروڑ پاکستانیوں کو بے خانماں و بے سائباں بنادیا تو دوسری طرف ریاستی انفرا سٹرکچر چور چورہوگیا۔32 لاکھ ہیکٹرز پر لہلہانے والی فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ متاثرین کی کمائی ہوئی جمع پونجی بیک جنبش سیلابی ریلوں میں بہہ گئیں۔ پچھلے ہفتے ایک سروے سے اشکار ہوا کہ ابھی تک16000مربع کلومیٹر رقبہ زیراب اچکا ہے۔ سیلاب نے چاروں صوبوں کے علاوہ ازاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بربادیوں کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے۔10 لاکھ مکانات صفحہ ہستی سے مٹ گئے جبکہ12 لاکھ سے زائد مکانات کھوکھلے ہوچکے جنکی مرمت کئے بغیر رہائش کا تصور تک ناپید ہے۔یوں48 لاکھ پاکستانیوں کو در در کی خاک کھانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔یہ وہ سیاہ بخت ہیں جو اپنی زاتی چھتوں سے محروم ہوچکے۔ رپورٹ کے مندرجات میں درج ہے کہ سیلاب نے35 لاکھ بچوں پر بنیادی ضروریات خوراک و تعلیم اور پینے والے صاف پانی کی قحط سالی مسلط کر رکھی ہے۔

uno

اور دیگر اداروں کے ابتدائی اندازوں کے مطابق بلوچستان میں 672617 لوگ متاثر ہوئے جبکہ2583 دیہات اور لگ بھگ75 ہزارمکانات اپنی جگہوں سے بہت دور چلے گئے۔ گلگت بلستان میں8587 شہری سیلابوں کا صدمہ جھیل رہے ہیں وہاں تباہ والے مکانات کی تعداد2822 ہے۔ خیبر پختون خواہ میں4365909 لوگوں کو سیلاب کے بھیانک عذاب سہنے پڑے۔وہاں اجڑ جانے والے دیہاتوں اور مکانات کی تعداد2834 اور179595 کی سرخ لائن عبور کرچکی ہے۔ ازاد کشمیر میں2 لاکھ45 ہزار کشمیریوں پر سیلاب قیامت صغری بن کر برسا۔ کشمیر کے بہار و خوشبو بکھیرنے والے3 ہزار گاوں اور5 لاکھ مکانات کھنڈرات میں بدل گئے۔پنجاب میں سیلاب کے خود کش بمبار نے87 لاکھ لوگوں کو زخموں سے نڈھال کردیا۔پنجاب میں3000 دیہاتی بستیاں اور 5 لاکھ مکانات ہمیشہ کے لئے پانی میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ زوالفقار علی بھٹو اور شاہ لطیف بھٹائی کی دھرتی پر سیلاب کی شعلہ سامانیاں ایک ماہ گزرنے کے باوجود جاری و ساری ہیں۔وادی مہران میں36لاکھ84 ہزار سندھیوں کوسیلاب کی ازیت سہنا پڑی۔سندھ کی2533 بستیاں اور4 لاکھ65 ہزار251 مکانات اثار قدیمہ کے عجائبات کی منظر کشی کرتے ہیں۔ پختون خواہ اور پنجاب میں34 لاکھ ہیکٹرز پر لہلہانے والی فصلیں سیلاب کے ایک جھٹکے سے پت جھڑ کا ایسے نشانہ بن گئیں کہ فصلات کا ایک پودا تک زندہ نہ رہ سکا۔12 لاکھ پنجابی اور پختون کسانوں کے پاس اگلی فصل کی کاشت کے لئے بیج نہیں۔گندم کا80 فیصد بیج سیلابی ریلوں کے ساتھ بہہ گیا۔ ایجوکیشن سیکٹر کا نقصان بھی برسوں پورا نہ ہوگا۔11 ہزار تعلیمی اداروں سرکاری سکولوں اور کالجوں کی عمارتیں ہیروشیما و ناگاساکی کی طرح ریزہ ریزہ ہوچکی ہیں۔6 ہزار525 سکول ریلیف کیمپ بن گئے اور7 لاکھ متاثرین ان عمارتوں میں پناہ گزین ہیں۔پاکستان کے پانچوں صوبوں پنجاب 4616 بلوچستان 997خیبر پختون 923گلگت91 اور سندھ میں4065 تعلیمی درس گاہیں زمین بوس ہوگئیں۔سیلاب نے35 اضلاع کو نشانہ بنایا اور یہاں خوراک کی قلت ہے۔60 لاکھ سیاہ بخت اور 30 لاکھ بچے خوراک کی قلت کا شکار بن چکے ہیں۔ متاثرین سیلاب کی کل تعداد میں5 سال کی عمر کے بچوں کا تناسب14٪ حاملہ خواتین کی تعداد8 فیصد جبکہ بوڑھی عورتوں اور بزرگوں کی تعداد 6 فیصد ہے اور سارے غذائی عناصر اور خوراک کی کمی کا رونا رورہے ہیں۔

NDMA

 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کا مواصلاتی نظام تہس نہس ہوگیا۔ شاہرائیں اور پل بھی سیلاب کی جوہری توانائی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں ۔خیبر پختون خواہ میں260 کلومیٹر شاہرائیں اور پندرہ پل تباہ ہوچکے جنکی مرمت پر3 ارب اور 50 کروڑ خرچ ہونگے۔ پنجاب کی88 کلومیٹر شاہرائیں اور پل بیکار ہوگئے جنکی اسر نو تعمیر پر95 کروڑ خرچ ہونگے۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں تباہ ہونے والی سڑکوں اور پلوں کی تعداد بالترتیب یوں ہے۔سندھ139 کلومیٹر سڑکیں اور 2پل جبکہ بلوچستان کی 80 کلومیٹر ا پر محیط شاہرائیںاور ایک پل ٹوٹ گیا۔ سندھ ور بلوچستان میں شاہراوں اور پلوں کی تعمیر پر ایک ارب 50 کروڑ اور30 کروڑ کی یعنی ایک ارب80 کروڑ خرچ ہونگے۔گلگت بلتستان میں150 کلومیٹر سڑکیں اور 17 پل سیلابی پانی کے شریک سفر بن گئے۔گلگت میں تباہ حال شاہراہوں اور پلوں کی اسرنو تعمیر اور مرمت پر 2 ارب 33 کروڑ درکار ہیں۔ مجموعی طور پر657 کلومیٹر شاہرائیں اور35 اہم پل سیلابی طوفان کی وحشت کی بھینٹ چڑھ گئے اور تباہ حال سڑکوں اور پلوں کی مرمت و تعمیر کے لئے8 ارب67 کروڑ خرچ ہونگے۔

uno

نے بار بار وارننگ دی ہے کہ اگر سیلاب زدگان میں پھیلتی ہوئی وباوں کو روکنے کی سعی نہ ہوئی تو 35 لاکھ بچوں کی نو خیز نظر روحیں وبائی امراض کا اسان شکار ہونگی اور موت ان عوارض کے نتیجے میں بچوں کی ایک ہڑپ کرجائیگی۔5 سال کی عمر کے23 لاکھ86 ہزار بچے ایک لاکھ36 ہزار حاملہ خواتین اور10 لاکھ20 ہزار بزرگ مر د و خواتین میںغذائی عناصر کی کمی کا نتیجہ بیماریوں کی شکل میں سامنے ائیگا جو لاکھوں کو عالم بالا کے سفر پر روانہ کرنے کے اسباب پیدا کرسکتی ہیں۔دو لاکھ کسا نوں اور25 لاکھ متاثرین کے سروں کی چھت تباہ ہوگئی ہے۔ بے گھر ہوجانے والے لاکھوں افراد کو حکومت نے چھت مہیا کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ ویسے ایک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ سیلاب زدہ لوگوں کی بحالی پی پی پی حکومت کا ٹیسٹ کیس ہے۔ مغرب کے دیدہ ور دانشور کون کوگلن نے اپنے ارٹیکل (سیلاب اور اسکے اثرات ) میں لکھا ہے زرداری کو طالبان کے خلاف لشکر کشی کرنے کے امریکی مطالبے پر پہلے سے ہی سخت مشکلات کا سامنا تھا اس پر طرہ یہ کہ سیلابی قیامت کے ضمن میں حکومتی سست روی نے انکی مشکلات میں اضافہ کردیا ۔ یوں وہ اپنی ساکھ بحال کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ کوگلن لکھتا ہے کہ کیا کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ صدارتی کشتی کو کتنے خطرناک بھنور کا سامنا ہے۔کوئی اسے سمجھنے کے لئے ڈرون حملوں سے نتائج کشید کرسکتا ہے۔ امریکہ ایک ایسے وقت میں ڈرون حملوں کا شوق پورا کررہا ہے جب پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر کوئی متاثرہ لوگوں کی جان بچانے کے لئے ایڑئی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔ اب زرداری دوبار ہ تنقید کی زد میں ہیں اور یہ تنقید اس وقت شروع ہوئی جب صدر نے ماضی قریب میں لندن اور فرانس کا دورہ کیا ۔ متحدہ کے قائد نے دیانتدار جرنیلوں کو ٹیک اور کرنے کی درفطنی چھوڑی تھی اور اب الطاف حسین عوام کو اکسارہے ہیں کہ وہ انقلاب برپا کریں مگر موجودہ بحران میں ایک فرق نظر اتا ہے کہ پرویز کیانی اور انکے ساتھی سیلاب زدہ پاکستانیوں کے ریلیف و ریسکیو میں مصروف ہیں۔ کوگلن کی رائے ہے کہ ایک ایسے وقت پر جرنیل شب خون مارنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے جب حالات ابتری کی جانب جارہے ہوں۔ گو کہ سیلاب نے ہلاکتوں کی تعداد کو زیادہ نہ کیا مگر بحران نے ثابت کردیا ہے کہ سیاسی اشرافیہ کو صرف اپنے مفادات سے دلچسپی ہے۔ کوگلن اختتام میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ سیلاب کے بے پناہ نقصانات نے حکومتی مقبولیت کو کم کردیا ہے۔ کئی غیر جمہوری عناصر پی پی پی کو تخت سے خاک نشین بنانے کے چکر میں مصروف عمل ہیں۔قول رسول ہے کہ سچ کو جھوٹ کے پردوں میں نہ چھپاو۔پی پی پی کی ہائی کمان اور حکومتی پالیسی سازوں اور حکمرانوں کو قول رسول کی روشنی میں اس سچ کو قبول کرلینا چاہیے کہ حکومتی ساکھ ڈانوا ڈول ہے۔پی پی پی حکومت کو تاحال جرنیلوں سے کوئی خطرہ نہیں۔پی پی پی حکومت اگر عزم و ہمت سے کام لیکر متاثرین کی دلجوئی کا سامان مہیا کردے اور متاثرین کی انکھوں سے نکلنے والے انسووں میں اپنے انسووں کے چند قطرے ملادے اور بے خانماں لوگوں کو چھتیں فراہم کرنے والا وعدہ پورا ہوجائے تو پھر یہی حکومت عوامی دلوں میں تادیر حکمرانی کرتی رہے گی۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved