اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔22-09-2010

 کیا انقلاب ناگزیر ہوچکا؟
 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

قائد عوام نے کہا تھا حکمرانوعوام کی اواز پر کان دھرو یہ اللہ کی اواز ہے ۔جکل انقلاب کے متعلق نت نئی کہا نیاںں منظر عام پر ارہی ہیں۔ کبھی سیاسی رہنما سیلاب سے ڈسے ہوئے دو کروڑ لوگوں کو بغاوت کی ترغیب دے رہے ہیں اور کبھی عالمی ملکی اور مقامی حالات و واقعات کے تناظر میں انقلاب کو لازم ضرورت کہا جارہا ہے۔کوئی فرانسیسی انقلاب کے ڈنکے بجا رہا ہے تو کوئی انقلاب ایران کا راگ الاپ رہا ہے ۔ ایک قاری نے پوچھا کہ انقلاب کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کب اتا ہے؟ متحدہ کے قائد الطاف حسین فرنچ انقلاب کو اپنا ائیڈیل تصور یا ماڈل سمجھتے ہیں۔فرانسیسی انقلاب میں انقلابیوں نے بادشاہوں اور جاگیرداروں کو تختہ مشق بنایا تھا۔ بھیافرنچ ریوولیشن سے اتنتے متاثر ہیں کہ وہ برملا کہتے ہیں کہ کبھی انقلاب پاکستان میں نازل ہوا تو جاگیرداروں سے جاگیرداریت چھین پھانسی پر لٹکایا جائیگا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے متاثرین کو اتنا دکھی کررکھا ہے کہ انقلاب کی تشویش پیدا ہوسکتی ہے مگر ایک سچ تو یہ ہے کہ انقلاب کی پھلجھڑیاں ہمیشہ گراس روٹ لیول سے جنم لیتی ہیں مگر پاکستان میں نہ تو مزوروں کسانوں اور محروم طبقات کی کوئی ایسی پاور فل تنظیم موجود ہے اور نہ ہی یہاں بھٹو قائد اعظم جی گویرا اور خمینی ایسی طلسماتی شخصیت موجود ہے جو لوگوں کو انقلاب کی ترویج پر مائل کرسکے۔متحدہ کے قائد الطاف حسین اپنی تقاریر میں فرانسیسی انقلاب کی تعریفوں کے پل باندھنے کی ایکٹنگ کرتے رہتے ہیں۔انقلاب فرانس اپنی پوری تابانی1789 کے ساتھ جلوہ گر ہوا، بھوک و ننگ سے لاغر دکھائی دینے والے انقلابیوں نے اشرافیہ کی عظمت کا نشان تصور کئے جانیوالے سٹوروں سے اسلحہ اٹھا لیا۔انقلابیوں نے شہنشاہ ششم کو موت کی صلیب پر لٹکا کر جاگیرداری پر پابندی عائد کردی۔ دیگر بنیادی وجوہات یہ تھیں کیتھولک فرقے اور کلیسا نے لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ کررکھا تھا اور کلیساووں کے ایجنٹ ہر سال غریب عوام پر نیا بجٹ تھوپ دیا کرتے تھے اور دوسری طرف عوامی حلقو ںمیں شاہی خاندن کے خلاف نفرت عروج پر تھی جبکہ لوگوں کے اندر مذہبی ازادی کی شدید خواہش جنم لے چکی تھی۔گو کہ پاکستان ویسے ہی حالات سے گزر رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ خود تبدیلی لانے کی قوت رکھنے والی طاقتیں مثال کے طور پر پاک فوج اوراپوزیشن وغیرہ موجودہ سسٹم کے طرف دار ہیں۔ہر انقلاب کی اپنی معروضیت ہوتی ہے۔ہر انقلاب کو دھکیلنے والا میکنزم اپنی الگ نظریاتی اساس کا مالک ہوتا ہے اوریہ اساس معاشرے کی روح میں شعلہ جوالہ کی طرح موجود ہوتی ہے اور کوئی بھی میکنزم معاشرے میں نظریاتی اساس سے اثبات کئے بغیر انقلاب پیدا نہیں کرسکتا۔یہ الگ بات ہے کہ یہ اساس معاشرے کی داخلی یا خارجی معروضیت سے جنم لیتی ہے مگر ایک بات کنفرم ہے کہ نظریاتی اساس معاشرے کی سماجی معاشی اور معاشرتی احتیاجات کا مظہر ہوتی ہے۔ انقلاب صدیوں تک معاشرے کی روح میں موجود رہتا ہے۔وہ حالات اور وقت کے دھاروں میں بہتا رہتا ہے۔ وہ کبھی کبھی بڑے مدوجزر پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور کبھی انقلاب کو غیر ریاستی یا ریاستی قوتیں، عوام دشمن عناصر پسپا بھی کردیتے ہیں اور بعض اقات یہ پسپائی طویل اور صبر ازما بھی بن جاتی ہے مگر انقلابات کی تاریخ اس نقطہ نظر پر اتفاق کرتی ہے کہ انقلاب کبھی بیک ٹرن نہیں ہوتا اور یہ اگے ہی بڑھتا رہتا ہے۔داغستان کے معروف انقلابی شاعر حمزہ توف نے انقلاب کا فلسفہ چند الفاظ میں پیش کیا ۔دم ہلا کر اگے بڑھتی ہے اگے بڑھتی ہے دم ہلا کر۔ انقلاب ایران کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ساری حقیقت سامنے اجاتی ہے۔ ایرانی انقلاب بھی کئی صدیوں سے دم ہلا ہلا کر اگے بڑھتا رہا۔کہیں اس نے اپنے فن و کمالات بھی دکھائے اور کہیں اسکی چنگاریاؓں سلگ سلگ کر راکھ ہوتی رہیں۔1872 میں ایرانی صوبے قاچار میں شہنشاہ ناصر الدین قاچار اور انگریز تاجر جیولیس کے مابین ایک معاہدہ ہوا۔ معاہدے کے مطابق بڑی شاہراوں اور سراکاری عمارتوں کی تعمیر ۔مواصلاتی ادارے اور قدرتی وسائل کی باگ ڈور جیولیس کے سپرد کی گئی تمام سرکاری امور ایک غیر ملکی کو تھما دئیے گئے۔جیولیس نے بدلے میں5 سالوں کے لئے ملک کے مجموعی ریونیو جتنی رقم اور20 سالوں کے لئے مجموعی ریونیو کا 60٪ شاہی خاندان کو ادا کرنا تھا۔معاہدے کی اطلاع ایرانیوں پر بجلی بنکر گری اور وہ اگ بگولہ بن گئے۔مشہد سے قاچار تک معاہدے کے خلاف جلوس نکلتے اور ریلیاں منعقد ہوتی رہیں۔ بادشاہ نے قوم کے غم و غصے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ناصر الدین نے مارچ1890 میں 15 ہزار پاونڈ سالانہ کے عوض برٹش سرمایہ کار ٹالبوٹ سے 50 سالہ معاہدہ کیا اور ٹوبیکو انڈسٹری بشمول فصل کی خرید و فروخت درامد و برامد سمیت تمام امور کی باگ ڈور ٹالبوٹ کے سپرد کردی۔یہ معاہدہ شاہ ایران اور ٹوبیکو کارپوریشن اف پرشیا کے مابین ہوا تھا جس کے زیادہ تر حصص کا مالک ٹالبوٹ تھا۔ ٹوبیکو انڈسٹری انگریزوں کے کنٹرول میں گئی تو ایرانی سیخ پا بن گئے اور معاہدے کی مخالفت میں تحریک بپا کردی۔3 لاکھ سے زائد تاجر اور ملازمین معاہدے سے متاثر ہوئے۔تحریک میں علمائے کرام نے بھی زور شور سے حصہ لیا اور معاہدے کو قومی مفاد کے متصادم قرار دیا۔علما نے مدارس اور تاجروں نے شٹر ڈاون کیا۔مدرسوں کے طلبہ سڑکوں پر اگئے۔مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ تبریز سے مشہد اور کرمان تک دراز ہوگیا۔ معاہدے کی عمر دوسرے سال میں داخل ہوئی تو اس وقت ایران کے سب سے بڑے مذہبی رجال کار و رہنما آیت اللہ شیرازی نے فتوی دیا کہ جو شخص تمباکو استعمال کرے گا وہ حضرت مہدی سے جنگ کرنے کا مجرم تصورہوگا۔ ایران میں جگہ جگہ حقہ نوشی اور سموکنگ عروج پر تھی۔تعلیمی اداروں سے لیکر مساجد و دینی مدارس تک ہوٹلوں سے لیکر محلات اور جھونپڑیوں تک کو تمباکو نوشی کے ناسور نے جکڑ رکھا تھا۔ فتوے کے بعد تمباکو نوشی ترک کردی گئی۔1892 میں یہ معاہدہ بھی منسوخ ہوگیا۔26 جنوری1892 میں شیرازی نے اپنے پہلے فتوے پر تین حرف بھیجے اور تمباکو نوشی کو جائز قرار دینے کا فتوی صاد فرمایا ۔یوں یہ کہنا سرا سر غلط ہے کہ انقلاب ایران حادثاتی واقعہ تھا۔ انقلاب معاشرے کی روح میں رچ بس جاتا ہے۔انقلاب عوام کی خواہشات کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔اسکی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ عوام کو خوف و دہشت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ دہشت اور خوف کا راج تو حاکمان وقت کے دلوں پر ہیبت طاری کرتا ہے۔انقلاب عوام کو مضبوط اور بادشاہوں کو کمزور بناتا ہے۔ انقلاب گلیوں کھیتوں کوچوں فیکٹریوں بازاروں چوراہوں کھلیانوں میں عوام کے ساتھ بازو بنکر موجود رہتا ہے۔انقلاب کبھی عوام کے خلاف اواز نہیں اٹھاتا۔انقلاب بادشاہوں کی شاہی سے منسلک افراد و ملازمین کو نشانہ نہیں بناتا۔انقلاب تو رائج الوقت نظام اور استحصالی ٹولوں کو نشانہ بناتا ہے۔ انقلاب کی فتوحات تو عوام کی فتح کا مظہر ہوتی ہیں۔ جہاں تک انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کی تواریخ اور پاکستان کے داخلی خارجی انتظامی اور سیاسی حالات کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ فرانس سے لیکر ایران تک جن عوامی مسائل اور مصائب نے ظہور انقلاب کو مہمیز دی تھی وہی اجکل پاکستان میں ہر سو دیکھے جاسکتے ہیں۔حکمران طبقات اور موجودہ جمہوری سسٹم کے طرف دار یاد رکھیں کہ اگر مجہول و مقہور پاکستانیوں کا استحصال ختم نہ ہوا ۔غربت بے روزگاری کرپشن لوٹ مار طبقاتی تفریق لسانی و فرقہ پرستی مہنگائی اقرباپروری مفلسی بھوک و ننگ اور طبقہ اشراف کے کروڑوں پاکستانیوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کا خاتمہ جلد از جلد نہ ہوا تو پھر پاکستان میں ایران اور فرانس کے انقلاب کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔پی پی پی کو اپنے بانی چیر مین بھٹو کے محولہ بالہ قول کی روشنی میں عوامی مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہیے وگرنہ حالات کا دھارا کسی اور بگل کی دھن سنارہا ہے۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved