اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔22-09-2010

صدر اوبامہ جنگی مجرم
 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

 تحریرروف عامر پپا بریار عنوان۔
مغرب کے تاریخ ساز مفکر و مفسر ہینری ہیج نے کہا تھا جب کسی سماج میں کتابیں جلانے کا رواج بن جائے اور لوگ خاموش تماشائی بنکر لب سی لیں تو تب وہاں انسانوں کو جلانے کے عمل کا بھی خود بخود شروع ہوجاتا ہے۔ امریکہ اور مغرب میں کسی عام کتاب کے تقدس کے لئے قابل ستائش فکر و سوچ پائی جاتی ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ اسی معاشرے کے متعصب پسند عناصر ایک ایسی مقدس ترین کتاب کو نذر اتش کرنے کی مہم چلاتے ہیں جسکا مصنف رب العالمین ہے۔ مغرب نے سائنس و طب دفاع معیشت و صنعت ، خلائی علوم اور دیگر شعبوں میں جو انقلاب افریں ترقی کی منازل طئے کیں وہ قران پاک کا کرشمہ ہے۔ درجنوں یہودی اور کرسچن سائنسدان اور دانشور بیانگ دہل اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے اسلامی لٹریچر اور قران پاک سے رہنمائی حاصل کرکے ہی کامیابیوں کے ریکارڈ قائم کئے۔ قران پاک کو نذر اتش کرنے کی ناپاک مہم کا اغاز ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جو انسانی حقوق رواداری اعتدال پسندی اور مذہبی ازادیوں کا علمبردار بنا پھرتا ہے۔ گو کہ ٹیری جونز ایسے خبیث انتہاپسند پادری کی شرانگیزی کی مذمت کی جارہی ہے مگر یہ امت مسلمہ کو رام کرنے کی سازش ہے۔سچ تو یہ ہے کہ وائٹ ہاوس کا اوبامہ ہو یا فرانس کا سرکوزی یورپ کا کوئی پادری ہو یا اسرائیل کا مذہبی پیش امام اسلام دشمنی ساروں کی رگوں میں خون بنکر دوڑتی ہے۔ امریکی انتظامیہ بہانہ کررہی ہے کہ قانون قران پاک کو نذر اتش کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اسے ازادی اظہار اور ازادی رائے کا عمل سمجھاجاتا ہے۔قران پاک کو جلائے جانے کا منصوبہ امریکہ اور یورپ میں اسلام کے خلاف پیش انے والے واقعات کا تسلسل ہے۔ ڈنمارک میں ختم المرسلین حضرت محمدﷺ کے توہین امیز خاکوں کی اشاعت یورپی یونین میں حجاب اور برقعے پر پابندی جنیوا میں مساجد کے میناروں پر پابندی اور شاتمین رسول ملعون رشدی تسلیمہ نسرین کو ہیروز کے القابات دینا وغیرہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان ناپاک عزائم کی بنیادی وجہ وہ خوف و حزن، بوکھلاہٹ اور اضطراب ہے جو دین اسلام کی روز افزوں مقبولیت دیکھر مغربی حکمرانوں اور دشمنان دین کے عقل و خرد پر حاوی ہوچکا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق امریکہ اور یورپ میں اسلام کا نور تیزی سے گوروں کے رگ و پے میں داخل ہوکر انہیں مشرف بہ اسلام کررہا ہے۔ مغربی میڈیا کے پروپگنڈے نے گوروں میں تجسس کی امنگ پیدا کی کہ یہ کیسا دین ہے جس پر مسلمان جانیں تک نچھاور کردیتے ہیں۔اسی تجسس نے انہیں قران پاک پڑھنے سمجھنے اور حقائق جاننے کی طرف راغب کیا۔جو جو قرانی تعلیمات کی گہرائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اسے روحانی سکون نصیب ہوا اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔۔کونسل اف امریکن ریلیشنز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں ہر سال20 ہزار نان مسلم اسلام کو سینے سے لگارہے ہیں۔چرچ میں عیسائیوں کی تعداد کم ہورہی ہے جبکہ مساجد کے پیروکاروں کی تعداد میں شاہینی اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی جنرل پیٹریاس نے ٹیری جونز کو دستبردار کروانے کے لئے کئی پاپڑ پیلے۔پیٹریاس نے شیطانی فتنے کو اگاہ کیا کہ اگر قران پاک کے نسخے جلائے گئے تو عراق اور کابل میں امریکی فوجیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا۔پیٹریاس نے رواداری جمہوریت پرستی اور بین المذاہب ہم اہنگی کی خاطر ٹیری جونز کو دستبردار نہیں کروایا بلکہ فوجیوں کی جانیں بچانے کے لئے پسپائی پر قائل کرلیا۔اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر فوجیوں کی جانوں کو لالے نہ پڑتے تو ازادی رائے کے نام پر ٹیری جونز کے دجالی ٹولے کو قران پاک نذر اتش کرنے کی مکمل ازادی تھی۔مغرب کے ہر حکمران اور اسلام سے بغض رکھنے والے یورپینز پادریوں اور صہیونیوں کو ایک بات زہن نشین کرلینی چاہیے کہ روئے ارض کے تمام استعماری ممالک عیسائی یہودی ملکر بھی دین اسلام اور قران پاک کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ رب کعبہ نے اسلام و قران کی حفاظت کا زمہ خود لیا ہوا ہے۔ ویسے تو اوبامہ انکے وزرا اور گماشتے کابل کی دلدل سے نکلنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ دوستی رواداری مساوات اور یگانگت کی شیخیاں بگھارتے رہتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ اوبامہ ایڈمنسٹریشن یہود و ہنود کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔امت مسلمہ کے وابستگانٍ وائٹ ہاوس کو مغربی اخبار سٹیٹس مین میں امریکی دانشور نوم چومسکی کا مکالمہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ صدر اوبامہ کو چومسکی نے جنگی مجرم قرار دیا کیونکہ جنیوا کنونشن کے تحت کسی کو ٹارگٹ یا ہدف بنا کر مارنا جنگی جرم ہے۔اوبامہ دور میں ٹارگٹ کلنگ کی تعداد بڑھ چکی ہے۔اگر وکی لیکس دستاویزات کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو سوویلین انسانوں کا بے رحمانہ قتل جگہ جگہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ اوبامہ کے نوبل پرائز پر چومسکی زہر قند لہجے میں دھاڑا کہ نوبل انعام کی تاریخ میں بدترین مثال قائم کی گئی یوں نوبل پرائز اب متنازعہ بن چکا ہے۔ کابل میں امریکی و ناٹوکی موجودگی کے جواز پر چومسکی نے تبصرہ کیا ہم نے 80 کی دہائی میں کیوں نہیں پوچھا تھا کہ سوویت افواج کا وہاں کیا جواز تھا؟ جارہیت بہت بڑا جرم ہے اور دنیا کی کوئی دلیل جارہیت کو جواز نہیں بخش سکتی۔ افغان تنازعے کے منصفانہ حل کے لئے نوم چومسکی نے چشم کشا اور پر از حقائق ٹپس دیں کہ جنگجو سردار طالبان سمیت حامد کرزئی پشتون ہیں۔امریکہ پاکستان کی مدد سے طرفین کے مابین سمجھوتا کروائے مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ امریکہ کو دنیا کا کوئی قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کابل میں موجود رہے۔ امت مسلمہ امریکہ کی دست نگر بن چکی ہے۔امریکہ امہ کا گاڈ فادر بنا ہوا ہے۔چومسکی کے مکالے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنگی مجرم کبھی مخلص دوست نہیں بن سکتے۔ امریکہ جارح فریق ہے جسے افغانستان سے بے نیل و مرام نکالنے کے لئے امت مسلمہ کو لیڈنگ رول ادا کرنا چاہیے،ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا کہ کیا قران پاک کو نذر اتش کرنے کی سازشیں بنانے والے مسلمانوں کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں؟ بحرف آخر اسلام اور قرانی ایات کی تکذیب کرنے والے شیطانی ٹولے اور امریکی ہاتھیوں اور ٹیری جونز کو ہینری ہیج کے محولہ بالہ جملے کی روشنی میں قران پاک کو نذر اتش کرنے کا بودا خیال ترک کردینا چاہیے ورنہ سپر پاور کی زمین پر انسانی جانیں جلتی ہوئی نظر ائیں گی جسکی ابتدا نو دوگیارہ کو ٹوئن ٹاورز کی تباہی سے ہوچکی ہے۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved