اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔22-09-2010

ٓسیاسی انتشار میں امریکہ کا کردار
 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

پاکستان کی ہر سویلین حکومت کو ائینی مدت سے پہلے تبدیل کرنے کی غیر جمہوری حرکات و سکنات ہماری سیاسی روش و روایت کا روپ دھار چکی ہیں۔ہمارا جمہوری کلچر صرف اسی وجہ سے توانا و مستحکم نہیں بن سکا کیونکہ ہماری سول و خاکی ایسٹیبلشمنٹ انکے سیاسی قلابازوں اور بٹیروں نے کسی حکومت کو ٹک کر کام کرنے کا موقع نہ دیا۔1988 سے لیکرنزول مشرف تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دونوں ادوار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی بے رحمانہ یلغار اور خود ساختہ الزامات تراشیوں کی بھر مار اور سیاسی انتشار کی لامتناہی تاریخ کے ائینہ دار ہیں۔ باہمی رنجشوں سیاسی مکرکرنیوں اور سیاسی تضادات کی کوکھ سے مشرف نامی ڈکٹیٹرشپ نے جنم لیا۔مشرف نے دونوں جماعتوں میں نقب لگائی خوب توڑ پھوڑ کی تاانکہ ق لیگ کا پتلا منظر عام پر نہ ایا۔مشرفی امریت کے دس سالہ شب دیجور نے ملک و قوم کی جھولی میں صرف اندھیرے بھرے۔ خدا خدا کرکے ایک دہائی بعد انتخابی چال چلن سے جمہوری بندوبست کا ارتقا ہوا مگر دکھ تو یہ ہے کہ روز اول سے منتخب حکومت کو زبح کرنے کی تدبیریں اور سازشیں کی جاری ہیں اور دکھ تو یہ ہے کہ جمہوریت کے چمپین کہلوانے والے بھی اس مہم کے شریک سفر بن گئے۔ اجکل تبدیلیوں کے شوشوں کا بازار خوب گرم ہے۔نواز شریف نے ماضی میں ہمیشہ 5سالہ ائینی مدت کی حمایت کی مگر اب وہ فرماتے ہیں کہ ائینی حدود و قیود میں رہ کر تبدیلی لانا ہوگی۔ اس میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے جہاں اتحادی اور مخلوط حکومتیں وجود میں اتی ہیں وہاں نئی صف بندیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔کوئی جماعت اپنی اکثریت ثابت کرکے نہ صرف عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے بلکہ حکومت کی باگ ڈور تک سنبھال سکتے ہیں۔پاکستان میں مخلوط حکومتیں خاص مقاصد کے لئے وجود میں لائی جاتی ہیں۔ایسٹیبلشمنٹ ہی مختلف الخیال جماعتوں کو مخلوط حکومت کے بینر تلے جمع کرتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ مخلوط اتحاد قائم کروانے والے بازیگر ہی تبدیلی لانے کا لاحقہ رکھتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں نے تبدیلی کو افواہوں کا نام دیا۔انکی رائے ہے کہ حکومتی اتحاد کے خالق عالمی سیاسی سنیاریو میں تبدیلی کو لازم نہیں سمجھتے اسی لئے تبدیلی کے دعووں اور شوشوں کو خوشنما خواب سے ہی تعبیر دی جاسکتی ہے مگر حقیقت نہیں۔ تبدیلی کے لئے کسی نے فوج کو دہائی دی تو کسی نے عدلیہ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا کسی نے مغربی میڈیا کی گمراہ کن رپورٹس پر بھنگڑے ڈالے تو کسی نے تحریک عدم اعتماد کا ڈھول پیٹا۔اخبارات میں تبدیلی کی خبریں تواتر کے ساتھ چھپتی رہیں ( جاری ہے) مگر نتیجہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا ایسی دھینگا مشتی اور اتھل پتھل کرنے والے سارے نامراد ٹھہرے تو ائینی تبدیلی کا غلغلہ الاپ دیا جو پسپائی کے مترادف ہے اور یوں یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ تمام سازشیں ناکام ہوچکی ہیں۔ جہاں تک ائینی تبدیلی کا سوال ہے تو یہ اپشن پہلے روز سے موجود ہے اس میں کوئی بڑی بات نہیں مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ حکومتی سازندے مغربی اور ریاستی میڈیا کی شوشہ مہم کا توڑ کرنے میں ناکام رہے اسی ناکامی نے تفکرات و خدشات کو ممہمیز دی ہے۔ ماسکو ٹائمز میں شائع ہونے والے بورس وولخونسکی کے ارٹیکل (حکمرانی کون کریگا )میں امریکی سازش کو بے نقاب کیا ہے۔ بورس لکھتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا زمہ پاکستان کے سر تھوپتا ہے اسی لئے مشرف کو دوبارہ استعمال کرنے اور سیاست میں ان کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ اپنے پرانے اور وفادار اتحادی کو چانس دیا جائے۔ بورس نے ارٹیکل کا نچوڑ نکالا کہ امریکہ افغانستان کی موجودہ شورش اور برے ترین حالات کی وجہ سے نئے اتحادی بنانے کی فکر میں ہے۔ اور اس ضمن میں سب سے بڑا امکان فوج کا ہے۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی میڈیا ٹیم میں ایسے منجھے ہوئے کھلاڑی شامل کرے جو مغربی میڈیا کی پروپگنڈہ وار کا ڈٹ کر مقابلہ کر یں۔ ن لیگ کے کرتے دھرتے بورس وولخو نسکی کے ارٹیکل کا تجزیہ کریں تو سارا کھیل واضح ہوجائے گا۔بورس نے لکھا ہے کہ ن لیگ پنجاب کی اشرافیہ کا گڑھ ہے جو زاتی مفادات اور لطف اٹھانے کے لئے حکومت میں انے کی کوشش کر تی ہے۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے چند روز قبل کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں جوڑ توڑ ہورہا ہے۔ جب اسمبلی میں این ار او کا معاملہ ایا تو اس وقت بھی یہ کوشش کی گئی کہ حکومتی اکثریت کو توڑ دیا جائے مگر انتظام کرنے والوں کی طرف سے کوئی ریسپانس نہ ملنے پر یہ فلسفہ بھی دم توڑ گیا۔ نواز شریف جو پہلے حکومتی تبدیلی کے حق میں نہ تھے اب وہ بھی میدان میں کود چکے ہیں۔ن کے طرز عمل سے کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ وہی پرانی تحریک دہرائی جارہی ہے جب 90 کی دہائی میں فوج نے پس پردہ رہ کر ہر دو سال بعد جمہوری حکومتوں کا دھڑن تختہ کیا۔اگر بدقسمتی سے ایسا ہوا تو یہ سمجھا جائے گا کہ نئے اداکار پرانی کہانی دہرا رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ پرویز کیانی کے دور میں پاک فوج کے متعلق ایک خوشگوار تاثر سامنے ایا کہ اب فوج سیاسی گند کے دلدل سے دور رہے گی وہ یکسر ختم ہوجائے گا۔ ماضی میں فوج کے پاس چوائس ہوتی تھی کہ اگر ایک حکومت تحلیل کردی جاتی تو دوسری اسکی جگہ لینے کے لئے تیار ہورتی تھی۔ اگر ن لیگ نے mqm اور لوٹوں کی معاونت سے ایوان میں اکثریت ثابت کربھی لی تو سندھ میں پی پی پی اکثریت کو کچلنا مشکل ہوگا اور یاد رہے کہ اگر پی پی کے ساتھ کوئی زیادتی کی گئی تو سندھ میں ایسا طوفان اور انتشار کھڑا ہوگا جو شائدکنٹرول نہ ہوسکے۔ ایم کیو ایم غیر سیاسی انتظام کا واویلہ کررہی ہے تو اسکی وجہ یہ کہ متحدہ حکومت میں رہنے کی عادی بن چکی ہے۔ان ہاوس تبدیلی کی صورت میں متحدہ کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑے گا جو وہ افورڈ نہیں کرسکتے یوں متحدہ حکومتی اتحاد سے علحیدہ ہونے کا رسک نہیں لے گی۔ تحریک عدم اعتماد کی کوشش کی گئی تو ہارس ٹریڈنگ کا لنڈا بازار سج جائے گا جہاں دوبارہ بے ضمیری کی فتح اور جمہوریت کی شکست ہوگی۔ صدر مملکت اصف علی زرداری اور وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ہم چور دروازوں سے نہیں ائے بالکل درست ہے۔جب عوام نے پی پی پی کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے تو پھر حکومت کو ائینی مدت سے قبل شہید کرنے کی سازشیں کیوں اور کیسے ہور ہی ہیں؟ پی پی پی مخالفین کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ لب کشائی کریں۔حکومتی کارکردگی کا فیصلہ کرنا عوام کا حق ہے۔ جہاں تک ن لیگ کے بگ باکسر کے اس اعلان کا تعلق ہے کہ عوام کا حکومت پر اعتما ختم ہوچکا ہے تو عرض ہے کہ وہ ناک اوٹ کے لئے لاتوں کا ستعمال مت کریں۔ کیا یہ عوامی اعتماد نہیں پنجاب کے ضمنی الیکشن گوجرانوالہ اور بہاولپور میں عوام نے تیر کو فتح سے سرفراز کیا۔ پاکستان مصائب میں گھرا ہوا ہے دو کروڑ افراد بے گھر ہو چکے جنکی بحالی دونوں جماعتوں کے لئے چیلنج ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں حکومت کی گوشمالی کے شوشے، تحریک عدم اعتماد کے قصے اور میڈیا کے زہریلے پروپگنڈے کسی صورت میں ریاستی سلامتی جمہوری استحکام کے لئے نیک شگون نہیں ہیں۔ پوری قوم غیر جمہوری حرکتیں کرنے وا لی خود ساختہ جمہور پرور جماعتوں اور اپوزیشن رہنماوں سے عرض کرتی ہے کہ و جمہوریت کی سلوسپیڈ گاڑی کو پٹڑی سے نہ اتاریں ۔گاڑی کی سپیڈ کم ہو یا زیادہ اگر وہ صیح ٹریک پر جارہی ہو تو ایک نہ ایک روز منزل پر پہنچ جایا کرتی ہے۔ حکومت کو بھی اپنی کوتاہیوں پر غور و فکر کرنا چاہیے اور پہلی ترجیح کے طور پر سیلاب زدگان کی بحالی کی خاطر تن من دھن کی بازی لگادینی چاہیے ورنہ انجام امریکی صدر ریگن جیسا ہوگا۔ امریکی ریاست اورلیانہ میں2005 میں ہری کین کترینا نامی طوفان نے ہولناک تباہی مچائی۔صدر ریگن اور انتظامیہ نے متاثرین کے لئے جو اقدامات کئے وہ جوش و جزبے سے عاری تھے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ2008 کے الیکشن میں ریپبلکن پارٹی شکست کھاگئی۔کیا پی پی پی کے افلاطون اور پالیسی ساز تاریخ کے اس گوشے سے سبق حاصل کرنے کے موڈ میں ہیں اسکا فیصلہ بہت جلد ہوجائے گا بحرف آخر پی پی پی اور ن لیگ کو متحد ہوکر بورس وولخونسکی کے مضمون کے تناظر میں امریکی چالبازیوں کو روکنا ہوگا تاکہ ملکی تاریخ کے جابر و فاسق ڈکٹیٹر مشرف پر ملکی سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں۔ مرکزی وزیر قانون بابر اعوان اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ کی زبانوں پر تالے لگا دئیے جائیں کیونکہ دونوں اپنی اپنی جماعتوں اور پارٹی سربراہوں کی خوشامد کے لئے ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں جیسے وہ قانون کی بجائے وزارت لغویات کے سرخیل ہوں اگر دونوں اپنی غیر اخلاقی تحریکوں کو جاری رکھتے ہیں تو پھر نوے کی تاریخ ایک بار دوبارہ لکھی جائے گی جسکا عنوان ہوگا انقلاب مشرف۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved