اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔24-09-2010

مغربی میڈیا کی فسوں کاری اور تاریخ کا سچ ہے
 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار


عالمی صہیونیت کے بانیوں اور یہودیوں نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کو بے پناہ دولت دی جسکے عوضیانے اور انعام کے طور پر برطانیہ امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے ارض فلسطین کے قلب میں اسرائیلی ریاست کا زہریلا خنجر پیوست کردیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد صہیونی شاطروں نے امریکہ سمیت پوری دنیا کی معیشت کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی ٹھان لی۔امریکہ کی سیاست مالیاتی اداروں سرکاری نشتوں اور جنگی انڈسٹری کی زمام کار یہودیوں کے رحم و کرم پر ہے۔یہودیوں کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی رہنما وائٹ ہاوس کے تخت پر جلوہ گر ہونے کی سکت نہیں رکھتا۔ یہودیوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے مغربی میڈیا پر پچھلی صدی سے قبضہ جما رکھا ہے۔۔مغربی اور صہیونی زرائع ابلاغ استعماریت کے لئے مغرب امریکہ اور اسرائیل کا مہلک ہتھیار بن چکا ہے ا جسکے بل بوتے پر استعماریو ں نے کئی فتوحات حاصل کیں۔ صہیونی میڈیا جہاں ایک طرف اسرائیلی مفادات کا نگہبان ہے وہاں صہیونیت اور یہودیت کے پرتش کار صحافی دانشور افلاطون اور بقراطوں نے اپنے دشمنان کو زلیل و خوار کرنے کے لئے تاریخ تک کو مسخ کردیا ہے۔ جبران نے کہا تھا جھوٹ ننگا جسم ہے جسے اگر ریشم و مخمل کے سات پردوں میں چھپا دیا جائے تو تب بھی وہ ننگا رہتا ہے۔ سچ اور تاریخی حقائق کو چاہے زمین کی اخری تہہ میں ہی کیوں نہ دفن کردیا جائے وہ ایک نہ ایک روز منکشف ہو کر ہی رہتے ہیں۔تاریخ کی بڑی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جلد یا بدیر کسی واقعے یا سانحے کے حقیقی پہلوں کو ضرور بے نقاب کرتی ہے۔ اجکل مغربی میڈیا میں ہٹلر اور نازیوں کے متعلق بحث زوروں پر ہے۔کئی ریسرچ سکالرز نے جاں گسل تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سچ وہ نہیں جسکا ڈھنڈورا صہیونی میڈیا1930 کی دہائی سے پیٹ رہا ہے۔ یہودیت کے خیر خواہوں نے دنیا کو ہمیشہ سے باور کروایا کہ ہٹلر روئے ارض کا سفاک وحشی ڈکٹیٹر تھا۔ مغربی میڈیا نے ہٹلر کے خلاف مربوط انداز میں میڈیا وار شروع کی کہ دنیا میں ہٹلر وحشت بربریت اور فرعونیت کا نمونہ بن گیا۔ مغربی ریسرچ سکالرز نے تحقیقی مکالوں میں لکھا ہے کہ ہٹلر درندہ صفت ہونے کی بجائے محب و طن لیڈر تھا جسے جسے جنگ سے نفرت تھی۔ دوسری ورلڈ وار یہودیوں کے سازشی زہن کا کریا کرم تھی۔ہٹلر نے جنگ سے بچنے کے لئے کئی جتن کئے مگر یہودی کامیاب رہے جنکی خواہش تھی کہ امریکہ برطانیہ جرمنی کے ساتھ ہولناک جنگ لڑیں تاکہ انکے مخالفین عیسائیوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام ہو۔ اتحادی یہودیوں کے پیسے سے جنگ لڑیں تاکہ اسرائیلی ریاست کا احیا ممکن ہوا۔انکا تیسرا اپشن یہ تھا کہ وہ اپنے ازلی دشمن ہٹلر کو دنیا میں خون کے پیاسے درندے کے روپ میں دنیا کے سامنے لائیں۔ ہٹلر دنیا کا واحد حکمران تھا جس نے یہودیوں کی خباثت کو پر کھ لیا۔ہٹلر اس نتےجے پر پہنچا کہ یہودیوں کی موجودگی میں جرمنی نہ تو مثالی و فلاحی مملکت بن سکتی ہے اور نہ ہی جرمن شہری شرف انسانیت کے بہی خواہ بن سکتے ہیں۔william gay kaar کی تاریخ ساز کتابpawans in the game میں ہٹلر کے حوالے سے کئی زرخیز معلومات رقم کی ہیں۔1933 میں ہٹلر کو خبر ملی کہ یہودی اشتراکی رہنما لینن کے ساتھ ملکر برطانیہ کو تباہ کرنے پر تل چکے ہیں۔ ہٹلر کی خواہش تھی کہ برطانیہ اور جرمن کا جنگی الحاق ہوجائے۔اسکا پختہ نظریہ تھا کہ عظیم مملکت ہونے کے ناطے یہ ضروری ہے کہ برطانیہ اور جرمنی اشتراکیت کے سامنے ڈٹ جائیں۔ ونسٹن چرچل کو یہودیوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا مگر اسکے باوجود ہٹلر نے افر دی کہ وہ الحاق کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔برطانیہ کے ساتھ دست تعاون بڑھاتے ہوئے ہٹلر کا کہنا تھا کہ وہ 10 سال تک برطانیہ کے ساتھ جنگ نہیں لڑے گا۔ برطانیہ اور جرمنی نے مذاکرات کے لئے نمائندے نامزد کئے جنہوں نے ڈائیلاگ شروع کئے ا مگر برطانوی یہودیوں نے الحاق کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ہٹلر نے برطانوی نمائندے لارڈ بیری سے ملاقات میں بتایا کہ اشتراکی غلبے والے ملکوں میں لاکھوں عیسائیوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا اسی لئے اشتراکیوں کا مکو ٹھپنے کے لئے مشترکہ دفاعی و جنگی اتحاد لازم ہے مگر ہٹلر کی کوششوں ، نیک نیتی کو اسکی چال کہا گیا یوں ہٹلر کی ہزار ہا کوششوں کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ہٹلر اور مسولینی اقتدار میں ائے تو دونوں نے مطالبہ کیا کہ جن ریاستوں نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ چیرہ دستیاں کیں اسکا ازالہ کیا جائے۔ان زیادتیوں کے پس پردہ صہئیونی لابیاں کار فرما تھیں اسی لئے ہٹلر اور مسولینی نے انکے اثر و نفوز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہٹلر کے گرد متعصب نازی لیڈر موجود تھے جو ہٹلر کو جنگ کے لئے اکسا رہے تھے مگر ہٹلر نے انکی باتوں پر کان نہ دھرے تو نازیوں نے ہٹلر پر قاتلانہ حملہ کروایا مگر وہ بچ گیا۔ ہٹلر کی جنگ سے پہلو تہی کرنے کی کوششوں کو مغربی میڈیا نے لاحاصل بنادیا۔ یہودی زرائع ابلاغ نے واویلہ کیا کہ ہٹلر نسلی برتری کے احساس تفاخر کی رو سے جنگ کرنا چاہتا ہے حالانکہ یہوددی اپنے نیو ورلڈ اڈر کے عالمی تسلط کے لئے برطانیہ جرمنی جنگ کروانے کے متمنی تھے۔ہٹلر کو جنگوں کا شوق نہ تھا مگر وہ صہیونیوں کی مکاریوں کو جانچ چکا تھا۔عالمی میڈیا کا غالب حصہ اس وقت بھی یہودیوں کے پاس تھا۔میڈیا نے ہٹلر کو بے رحم خبطی امن کا دشمن اور نسلی برتری کے القابات دیکر جھوٹ پر جھوٹ بولا کہ دنیا اسے سچ سمجھ بیٹھی۔ نو مسلم دانشور تھامپسن نے اپنی کتاب دجال میں محولہ بالہ حقائق کی تصدیق کی ہے۔ تھامپسن لکھتا ہے کہ عیسائی اقوام کو کمزور کرنے کے اور منافع کمانے کے چکر میں صہیونیوں نے جنگ عظیم شروع کروائی۔ ہر جنگی گروہ کے پس پردہ یہودی بیٹھے ہوتے ہیں جو جنگ لڑنے والے دونوں ملکوں کو اسلحہ فروخت کرتے ہیں،بھاری سود پر قرض دئیے جاتے ہیں اور تو اور تباہ ہوجانے والے ملکوں کی تعمیر نو کے لئے یہودی کمپنیاں اگے ہوتی ہیں۔یہودیوں کی کتاب پروٹول میں یہودیوں نے اپنے منصوبوں کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ ہٹلر پہلے محسوس کرچکا تھا۔ یہودی میڈیا نے ہٹلر پر ہولوکاسٹ کا الزام دھرا تھا کہ اس نے ساٹھ لا کھ یہودیوں کو گیس کی بھٹیوں میں زندہ جلادیا۔یہودیوں کے پراپگنڈے نے ایسا زود اثر دکھایا کہ دنیا اج تک ہٹلر کو سفاکیت کا علمبردار سمجھتی ہے،یہودیوں نے جرمنی میں منعقد ہونے والے نیو ہیمبرگ ٹرائل میں ایسی جادوگری دکھائی کہ خود جرمن قوم ہٹلر سے برات کا اظہار کرتی ہے۔ یہودی اپنے دین کے ساتھ ساتھ تاریخ سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں مگر انہیں اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ کے ساتھ مذاق کرنے والے خود مذاق بن جاتے ہیں۔اس سارے منظر نامے میں امت مسلمہ کے لئے کئی زی فہم اور معلومات افزا سبق پوشیدہ ہیں۔مغربی میڈیا نے ماضی کے مجاہدین کو دہشت گردی کا نام دیکر امت مسلمہ کا وجود کو مٹانے کی استعماری سازشوں کو خوب کوریج دی۔مغر بی اور اسرائیلی زرائع ابلاغ نے میڈیا وار کا ایسا گھناوئنا چکر چلا رکھا ہے ہے کہ مسلم ممالک میں ملکی فورسز اور مقامی ابادیاں ایک دوسرے کے خلاف صف ارا ہیںکیا امہ کے مہاراجوں کے پاس عقل و خرد کا قطرہ موجود ہے جس کو بروئے کار لاکر مغرب کی میڈیا وار کا مقابلہ کرسکیں۔امت مسلمہ کی معاشی ازادیوں اور امریکی غلامی سے نجات کا اہم نسخہ صہیونی میڈیا کی فسوں کاری سے بچنے میں مضمر ہے۔ کیا وائٹ ہاوس کا کوئی ولی عہد یا امت مسلمہ میں انکے امریکی نمک خوار شہنشاہ صدر وزیراعظم اس سوال کی گتھی سلجھانے کے لئے جواب دینا پسند کریں گے کہ اگر ہٹلر روئے ارض کا حشی درندہ تھا مگر بش جونیر اور بش سینیر کے متعلق کیا خیال ہے کہ دونوں میں سے کون بڑا قاتل اعظم ہے؟ کیا کیمیائی ہتھیاروں اور القاعدہ کے خود تراشیدہ الزامات کے تناظر میں30 لاکھ عراقیوں اور افغانیوں کا قیمہ بنادینے والے ہٹلر سے زیادہ سفاک نہیں اور کیا ڈرون حملے کرنے والے امریکی فوجی بربریت وحشت و ظلمت کی دوڑ میںنازیوں کو بہت پیچھے نہیں چھوڑ چکے؟
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved