اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔07-10-2010

ال پاکستان مسلم لیگ کا انجام
 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

اجکل میڈیا میں ال پاکستان مسلم لیگ ۱ے پی ایم ایل کے نقارے بج رہے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا میں ایک ہی دھینگا مشتی چل رہی ہے کہ کیا جنرل مشرف پاکستان ائیں گے؟ کیا تمام لیگیں ایک ہی رتھ پر سوار ہوسکتی ہیں؟ ال پاکستان مسلم لیگ کا مستقبل کیا ہوگا؟ پیرپگاڑہ نے پا۱ے پی ایم ایل کی بنیاد ر کھی ۔پگاڑو نے تندتیز لہجے میں دھاڑ ماری کہ مشرف نوزائیدہ مسلم لیگ کے ڈان ہونگے۔ تین چار لولی لنگڑی لیگیوں کے سیاسی مداریوں نے نیو برانڈ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے اسکا کریڈٹ پیر پگارو کو جاتا ہے۔ مشرف نے لندن میں۱ے پی ایم ایل کی تاسیسی لن ترانیاں شاداں و فرحاں لہجے میں بیان کیں۔ مغربی زرائع و ابلاغ کے تجزیوں تبصروں اور قیافیوں سے مترشح ہوتا ہے کہ مشرف کی جانب سے پارٹی کا اعلان دراصل پاکستانی سیاسی سمندر کو ناپنا ہے۔ یورپ میں مقیم پاکستانی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس نقطے پر متفق ہے کہ مشرف پاکستان نہیں جاسکتے۔مشرف کو یقین ہوچکا ہے کہ۱ے پی ایم ایل کے لئے سیاسی موسم ساز گار نہیں۔علاوہ ازیں دونوں بڑی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی انکے خلاف ہیں۔ سیاسی اثار بتاتے ہیں کہ ۱ے پی ایم ایل کو پاکستان میں نہ تو عوامی پشت بانی کا سہارا مل سکے گا اور نہ ہی ڈکٹیٹر اعظم کوپناہ نصیب ہوگی۔ عالمی تجزیاتی اخبارات فرانس کے

lemonda

اور لندن سے شائع ہونے والے نیوز پیپر

darul. hayyat

بمطاق وثوق سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے ڈکٹیٹر مشرف نے اگرچہ اپنی جماعت کا اعلان تو کردیا ہے تاہم انکی واپسی ناممکنات میں شامل ہے۔ یورپین نیوز ایجنسی نے دلائل کے ساتھ خبر دی ہے کہ بگٹی کا قتل امریکن ایجنٹ کا کردار لال مسجد اپریشن اور فاٹا میں پاکستانی فورسز اور طالبان کے مابین جنگ و جدال اور ڈرون حملے مشرف دور کے وہ نشتر ہیں جو قوم کے دلوں میں اج تک پیوست ہیں اور یہ ایسے کارہائے نمایاں ہیں جنکی وجہ سے مشرف کی واپسی اور۱ے پی ایم ایل کی مقبولیت ان خوابوں کی طرح ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا کرتے ۔ انڈین نیوز  چینل

IBN

 لائیو کا کہنا ہے کہ ۱ے پی ایم ایل اور مشرف کو کچھ نہ کچھ پاکستانیوں کی حمایت مل سکتی ہے مگر ایسا کمال مشرف کی بجائے موجودہ حکومت کے عدم مقبولیت پر مبنی اقدامات کا نتیجہ ہے ۔ مرکزی حکومت ابھی تک بے روزگاری غربت بھوک و ننگ اور کرپشن کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ برطانوی اخبار، فرنچ نیوز سروس اور ریوڈیو فری یورپ کا کہنا ہے کہ ڈکٹیٹر کی پاکستان واپسی کے لئے ابھی زیادہ عرصہ درکار ہوگا اور مشرف کی فیس بک پر مقبولیت گیلانی حکومت کی ناعاقبت اندیشیوں کا رد عمل ہے۔ پی پی پی حکومت کے پالیسی میکرز کو بھارتی نیوز چینل اور یورپین اخبارات کے تجزیوں پر کان دھرنے چاہیں شائد اصلاح کی گنجائش نظر اجائے۔ مغربی اخبارات گارجین ڈیلی میل ٹیلیگراف ٹائمز اف انڈیا اور ہندوستان ایکسپریس کا کہنا ہے کہ مشرف کی وطن واپسی اسان کام نہیں۔۱ے پی ایم ایل میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ پارلیمان کی 343 نشتوں میں سے 172 جیت کر سربرائے سلطنت کا اعزاز حاصل کرسکے ۔ عریبین نیوز گروپ الفسہبی کی رائے ہے کہ مشرف کی واپسی سیکیورٹی خطرات و خدشات کی وجہ سے ممکن نہیں۔۱ے پی ایم ایل میں ابھی تک نامور سیاسی رہنماوں اور قد اور شخصیات نے شمولیت نہیں کی تاکہ نئی نسل کی اس مسلم لیگ کی کارگزاری کا اندازہ لگایا جاسکے۔ پاکستان کے ایک مقبول ترین اخباری گروپ کے بگ باس نے ماضی میں مخلصانہ کاوشیں کیں کہ ن لیگ اور ق کا ادغام ہوجائے مگر نواز شریف بیعت بہ مشرف ہونے والے لیگیوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں کہ کل کلاں پارٹی پر کوئی کڑا وقت ائے اور یہ کانٹوں بھرے صحراوں میں پارٹی کا ساتھ نبھانے کے لئے استقامت کا مظاہرہ کرسکیں۔ نواز شریف نے اتحاد کے لئے کڑی شرائط رکھی ہیں کہ اگر وہ جیت گئے تو صدارت وزارت عظمی اور پنجاب کی وزارت اعلی وہ اپنے پاس رکھیں گے۔ ماضی میں نواز شریف نے خود وزارت عظمی کا ہما پہنا تھا جبکہ بھائی شہباز کو صوبے کا بادشاہ بنادیا حالانکہ پنجاب کی حاکمیت پرچوہدری برادران کا حق تھا۔اسی حق تلفی نے دونوں چوہدری اور شریف برادران کو علحیدہ ہونے کی ترغیب دی۔ نواز شریف نے مشرف کو3 سینیر جرنیلوں کو سپرسیڈ کرکے ارمی چیف بنادیا حالانکہ جنرل علی قلی خان میرٹ پر ارمی چیف بننے کا حق رکھتے تھے۔ن لیگ کو خدشہ تھا کہ علی قلی خان ایوب خان سے رشتے داری کی بدولت انکی حکومت کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیں۔مشرف بیوروکریٹ کے بیٹے کی شکل میں گھر سے ہی سیاسی داو پیچ سیکھ چکے تھے اور انہوں نے طویل عرصے سے اپنے دل میں اقتدار کی خواہش پال رکھی تھی۔نواز شریف نے12 موسٹ سینیر جرنیلوں کو پیچھے دھکیل ک 13ویں نمبر کے ضیاالدین بٹ کو مشرف کا جانشین بنادیا۔انہی جرنیلوں نے نواز شریف کی طرف سے نظر انداز کئے جانے اور اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور حق تلفیوں کی بنا پر مشرف کا ساتھ دیا اور نواز شریف کو فارغ کرکے اقتدار مشرف کے چرنوں پر واہ کردیا۔مشرف 9 سال بوٹ کی نوک پر حکمرانی کرتا رہا۔نواز برادران جیل سے جدہ گئے تو انکے ساتھیوں نے مشرف کی سرکردگی میں ق لیگ میں شمولیت اختیارکرلی۔2008 کے الیکشن میں نواز لیگ 2 اور ق لیگ3 نمبر پر فائز ہوئی۔مسلم لیگ کے بہی خواہ ن اور ق کے اتحاد کے لئے سرگرم ہوگئے۔ ن لیگ کے مخدوم جاوید ہاشمی کو ق لیگ نے وزیراعظم کا مشترکہ امیدوار نامزد کرنے پر رضامندی ظاہر کردی مگر ن کے امیر المومنین نے اسے رد کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ ق و ن کے اتحاد و ادغام کی کوششوں پر جسطرح نواز شریف نے حرف تنسیخ پھیرا تو ق کی صفوں میں پرویز الہی نے نواز شریف کے طرز عمل کو دہرایا۔ پرویز الہی صدارت، پرائم منسٹرشپ اور صوبے کی کوتوالی کی 3 نشتوں میں سے دو اپنے لئے مانگتے رہے۔ پاکستان میں دو مختلف افکار رکھنے والے ووٹرز ہیں جن کو پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کہا جاسکتا ہے۔اینٹی بھٹو ووٹرز کی اکثریت ن لیگ کی کشتی پر سوار ہے جبکہ دیگر مختلف پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ن لیگ پاکستان کی دوسری مقبول ترین جماعت بن چکی ہے جہاں تک ق لیگ کا تعلق ہے تو یہ سیاست دانوں کا وہ گروہ ہے جو جرنیلوں کو سیاسی ایندھن فراہم کرکے ہر دور کی ڈکٹیٹرشپ میں اقتدار کے سنگھاسن پر جلوہ افروز رہنے کی بیماری کا نشانہ بن چکے ہیں۔پاکستان میں 4 مرتبہ فوجی بوٹوں نے امریت نافذ کی اور 4 مرتبہ لیگیوں نے کبھی کنونشن لیگ کی اڑ لی تو کبھی فنگشنل لیگ کے ہمنوا بنے۔یہ وہی اقتدار کے پجاری ہیں جنہوں نے کبھی ضیائی لیگ اور کبھی جونیجو لیگ کا جھنڈا تھام انہی لیگیوں نے مشرف کو کیو لیگ کا نایاب تحفہ دیا۔64سالوں میں1947 سے2010 تک اگر مسلم لیگ دیکھا جائے تو یہی سچ سامنے اتا ہے کہ الف، ب جیم اور د نامی جتنی مسلم لیگیں منظر عام پر ائیں ساروں نے جمہوریت کا ستیاناس کیا اور سارے لیگیوں نے امریت کو دوام بخشا مگر تاریخ شائد ہے کہ ایسی لیگیں ہمیشہ زلت ا امیزاور شرمناک انجام سے دوچار ہوکر گمنامی کی تار یک ساز وادیوں میں گم ہو جایا کرتی ہیں۔یوں تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چاہے مشرف کی ال پاکستان مسلم لیگ ہو یا چوہدریوں کی قاتل لیگ انکا مستقبل تاریک ہے اور بہت جلد یہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہمیشہ کے لئے گم ہوجائیں گے،یہی نوشتہ دیوار اور تاریخ کا سبق ہے افلاطون نے شائد انہی لیگوں کے متعلق صدیوں پہلے کہہ دیا تھا کہ تاریخ کے فیصلے اٹل ہوا کرتے ہیں جنہیں کوئی نہ تو دولت کے بل پر خرید سکتا ہے اور نہ ہی بدل سکتا ہے۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved