اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔12-10-2010

کشمیر کا موجودہ غدار

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار


تحریر روف عامر پپا بریار عنوان۔
سب جانتے ہیں کہ مشرف ظالم و جابر ڈکٹیٹر بھی تھا اور اپنی ہی قوم کو جرنیلی مکے دکھا نے والہ غیر جمہوری حکمران بھی۔وہ وائٹ ہاوس کا پجاری بھی تھا اور مغربی تہذیب کا دلدادہ بھی۔وہ نہرو بھی تھا اور فرعون بھی مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ غدار بھی تھا اور ملت اسلامیہ کا دشمن بھی۔ تاریخ نے اسکے چہرے سے محب وطنی کا بناوٹی پردہ ہٹا کر غداری کی تصدیق کردی ہے۔ مشرف نے

APML

 بنانے کے بعد غیر مہذبانہ اور غیر مدبرانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے کہ پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے۔ پتہ نہیں وہ کونسی طاقتیں یا دستانوں والے ہاتھ ہیں جو افغانستان کی اگ کو پاکستان تک پھیلانے، عافیہ ڈاکٹر اور دیگر پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں بیچنے، لال مسجد اور فاٹا میں پاکستانیوں کے خونی سمندر میں لطافت کی ڈبکیاں مارنے ،مسئلہ کشمیر پر

uno

کی قراردادوں کو کھڈے لائن لگانے اور امت مسلمہ کے ہیرو ڈاکٹر خان کو نظربندی کی وحشت ناکیوں میں پایہ زنجیر کرنے والے مجرم کو پاکستانی سیاست میں نئے چلن کے روپ میں شامل کرنے کی سازشیں کررہے ہیں؟ مشرف نے جرمن جریدے سپیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے تنازہ کشمیر اور ڈاکٹر خان کے متعلق جو باتیں کہیں جسے غیر جانبدار تجزیہ نگاروں ریٹائر فوجی افیسرز اور عسکری ماہرین کی بصیرت امیز ارا کی روشنی میں بھارتی اور اسرائیلی زبان کہنا درست ہوگا۔ مشرف نے کہا کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف کئی جنگجو گروپ تشکیل دے رکھے ہیں تاکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ پرویز مشرف کی لاف زنی پر ہمسائیہ ملک کے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کے چہرے کھل اٹھے کیونکہ نیو دہلی کئی سالوں سے اہ و فغاں کرتا ارہا ہے کہ پاکستان بھارت و کشمیر میں

CROSS BOADER TERRIRISM

 یعنی دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ماضی میں اسی بڑھک باز ارمی چیف سے ہر پلیٹ فارم پر یہ پوچھا جاتا تھا کہ پاکستان سے جموں اور کشمیر میں جنگجووں کو کیوں بھیجا جاتا ہے موصوف ہر مرتبہ اس الزام کی تردید کیا کرتا تھا۔ اب سوال تو یہ ہے کہ کیا مشرف کا یہ بیان بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے یا یہ کسی طاقتور لابی کے گھناوئنے کھیل کا مرکزی خیال ہے؟ انٹرویو کے دوران مشرف کی باڈی لینگوئج نے سب کچھ دو دھ کیطرح صاف اور بے نقاب کردیا۔اسکے چہرے پر بلا کا سکون رقص کررہا تھا کہ مکہ فیم ڈکٹیٹر نے خوب غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد بیان جاری کیا۔ مشرف نے بھارتی الزامات کی تائید کیچھ اس پیرائے میں کی کہ کشمیری سمجھیں کہ وہ کشمیریوں کی تحریک ازادی کا مخالف نہیں جبکہ دوسری طرف وہ مغرب کی نظر میں ہیرو اور سرتاپا وفا رہنما بننے کا خواہشمند تھا۔ مشرف کی گل فشانی نے جہاں بھارتی لابیوں کو پاکستان کے خلاف مذید پروپگنڈہ کرنے کا موقع فراہم دیا تو وہاں بھارتی فوج کو حریت پسندوں کو کچلنے کا اخلاقی جواز فراہم کردیا۔ مشرف کا یہ بیان غیر زمہ دارانہ تو ہے ہی مگر یہ کسی نئے عالمی کھیل کا حصہ لگتا ہے۔ اسی بنیاد پر بھارتی سفارت کاروں، سیاسی پنڈتوں اور میڈیا دانوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اعتراف جرم کے بعد پاکستان پر معاشی اور صنعتی و دفاعی پابندیاں عائد کی جائیں۔ بھارتی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سابق صدر کا بیان بھارتی موقف کو سچ ثابت کرتا ہے مذید براں بھارتی حکومت اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔ مشرف کے احمقانہ اور منافقانہ بیانات نے پوری قوم کو دکھی اور افسردہ کررکھاہے مگر کشمیریوں کے رنج و الم کا شائد اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ سابق ڈکٹیٹر نے مغربی دیوتاوں کی خوشنودی کے لئے کشمیریوں کی زخمی روحوں پر مرچیں ڈالنے کا سامان پیدا کردیا۔ کشمیریوں کی تین نسلیں ازادی وطن کی جدوجہد پر قربان ہوچکی ہیں۔کشمیری گورستان لاکھوں جوانوں کی قبروں سے بھر ئے ہوئے ہیں۔ کشمیری حریت پسند راہنما مشرف کی سطوت پر کف افسوس مل رہے ہیں۔ علی گیلانی کا کہنا ہے کہ مشرف نے تحریک کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی ہے۔مشرف نے اپنی بدکلامی سے حریت پسندوں کی پیٹھ میں چھرا گھو نپ دیا۔حریت کانفرنس کے رہنماوں نے مشرف کو امت مسلمہ کا غدار کہا ہے کیونکہ ایسی ٹرٹراہٹ نے مسلم امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر خان کے بارے میں کردار سے عاری والا جو جملہ ڈکٹیٹر نے بولا وہ ائینے میں اپنی شکل دیکھنے کے مترادف ہے۔ڈاکٹر خان امت مسلمہ کا طلسماتی کردار ہے جس نے پاک فوج کو ایٹمی ڈیٹرنینٹ دیکر خطے میں بیلنس اف پاور کو مساوی بنادیا۔ ہیروز ہیروز ہی ہوتے ہیں جو قوموں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ہیروز کی سنہری خدمات کو مشرفی ڈکٹیٹر شپ کی خباثت کی کالک سے گہنایا جانا ممکن نہیں مگر انسانی تاریخ اور پاکستان کی64 سالہ پولیٹکل ہسٹری میں طئے ہوچکا ہے کہ ڈکٹیٹرز زلت خواری اور رسوائی کی موت مرتے ہیں۔ اگر مشرف کے منہ سے چھڑنے والے غلیظ الفاظ کسی سیاسی رہنما نے ادا کئے ہوتے تو اب تک ہماری ایجنسیاں اور فورسز کے جانثار اپنے لاو لشکر سمیت اس پر چڑھائی کرچکے ہوتے۔ غداری کے مقدمات کی بھر مار کردی جاتی۔ جاوید ہاشمی کی طرح اسے موت کی کال کوٹھری میں گلنے سڑنے کے لئے ڈال دیا جاتا مگر دوسری طرف مشرف کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہ اپنی کتاب میں انسانی سمگلنگ کا اقرار کرتا ہے وہ ڈالروں کے عوض ہزاروں معصوم و مجزوب پاکستانیوں کو

cia

کے حوالے کرنے کا ملزم ہے۔ مشرف نے استعماریت کی خوشی کے لئے قومی ہیرو ڈاکٹر خان پر ایٹمی راز چوری کرنے کا الزام دھر دیا۔اس نے دو مرتبہ ائین توڑا۔وردی پہن کر سیاست کی۔ قوم کے سامنے کئے جانیوالے وعدوں کو توڑ ڈالا۔ بارہ اکتوبر1999 میںجمہوریت کا بستر گول کیا۔ملک کو امریکی طوائف خانے کا درجہ دے دیا جہاں گورے سپاہی بغیر وارنٹ کے بیٹیوں اور جہادیوں کواغوا کرتے رہے مگر اسکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور تو اور جن ججز کی تذلیل کی گئی تو انہوں نے بھی عدلیہ کی ازادی کے بعد مشرف کو عدالت طلب کرنے کی زحمت نہیں کی۔پاکستانی قوم سپریم کورٹ اور اپنے ہر دلعزیز ارمی چیف کیانی سے جان کی امان پاتے ہوئے پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا ارمی چیف یا ڈکٹیٹرز خلائی مخلوق ہیں کہ انکے سامنے ائین اور قانون دم توڑ دیتے ہیں؟ عدل تو یہ ہے کہ ارمی چیف سے لیک چیف جسٹس تک اور بیوروکریٹس سے لیکر صدر و وزیراعظم تک کا شفاف احتساب کیا جائے۔ ہماری سپریم کورٹ نے

nro

 کے تنازعے پر صدر مملکت اور حکومتی احباب کو ٹف ٹائم دے رکھا ہے۔ججز زرداری کو استثنا کی ائینی شق سے محروم کرنے کے موڈ میں ہے مگر مشرف جیسے فرعون ڈکٹیٹر اور قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہیں لاتی؟ عدلیہ ڈکٹیٹر کی خواہش پر منتخب وزیراعظم کو عدالتی قتل کی صلیب پر لٹکانے کا حوصلہ تو رکھتی ہے مگر سپریم کورٹ کے تقدس کو تاراج کرنے کرنے والے امروں کی گریبان میں ہاتھ کیوں نہیں ڈالتی؟ اگر سپریم کورٹ مشرف کی گردن میں قانون کاشکنجہ نہیں ڈالتی تو پھر عدلیہ کو ازاد عدالت کہنا غلط ہوگامشرف کے گماشتوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اب بھی مشرف کی درفطنیوں کو تاریخی حقیقت کا نام دیکر اسکا دفاع کررہے ہیں۔ مشرف ریاست کے8 سال تک بلا شرکت غیرے حکمران رہے مگر وہ اس فسانے ڈرامے اور حقیقت کو منکشف کیوں نہیں کر سکا؟ مشرف نے انتہائی نامناسب وقت پر اتھل پتھل مچائی ۔مشرف نے اپنے زور بلاغت اظہار اس وقت کیا جب کشمیر میں عسکریت کی بجائے سیاسی تحریک زوروں پر ہے۔ مجاہدین منظر عام سے غائب ہیں بلکہ عام کشمیر ی نوجوان اپنے حقوق کے لئے لرزاں و ترساں ہیں۔بھارتی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر کے کشیدہ ترین واقعات پر کنٹرول پانا مشکل ہوچکا ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں کا کشمیر کی موجودہ گھمبیر صورتحال میں کوئی ہاتھ نہیں۔ مشرف نے بھارت کا کام اسان کردیا ہے۔بھارتی میڈیا اور سیاسی رہنما مشرف کے اعتراف جرم کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے رہیں گے۔کشمیر میڈیا سروس کا کہنا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی غالب اکثریت مشرف کے بیان پر دل برداشتہ ہے اور اسی تناظر میں مشرف کو کشمیریوں نے کے غدار کا لقب دیا گیاہے۔مشرف نے اہل کشمیر کو پہلا تحفہ نہیں دیا وہ پہلے بھی کئی وارداتیں کرچکے ہیں جو کشمیریوں کے لئے پھندہ ثابت ہوئیں۔مشرف نے کشمیریوں کی پہلی کوکھ کارگل جنگ میں اجاڑ دی۔اس نے1998 میں نیوی اور فضائیہ کو بائی پاس کرکے کارگل کی چوٹیوں پر فوج بھیج دی مگر جونہی عالمی میڈیا نے کارگل پر پا ک فوج کے قبضے تصدیق کی تو مشرف نے فوری طور پر پاک فوج سے جوانوں سے لاتعلقی کا اعلان کرڈالا یوں فوجیوں کو موت کے منہ میں دے دیا مشرف نے دوغلی قلابازی کھائی کارگل پر کشمیری مجاہدین نے قبضہ جمارکھا ہے۔مشرف کے انکار پر انڈین فورسز نے پاکستانی فوجیوں کے تین ہزار جوان اور افیسرز کو پھڑکادیا۔مشرف نے وادی نظیر جنت کشمیر کی کمر میں دوسرا چھرا نو دو گیارہ کے بعد گھونپا جب پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز نے فوجی ماہرین کے ہمراہ

lco

 کو مستقل سرحد بنانے کا ٹاسک دیا۔ مشرف نے حریت کانفرنس کے رہنماوں کی تکذیب کی کہ علی گیلانی پاگل بڈھا ہے۔موصوف ڈکٹیٹر نے یسین ملک اور میر واعظ کی سرپرستی میں پاکستانی یاترا پر انے والے حریت کانفرنس کے وفد پر دباو ڈالا کہ وہ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے ساتھ ملکر ایسا فارمولہ بنائیں جو کشمیر کے دونوں حصوں کو تو برقرار رکھے تاہم بھارتی کشمیر کو صوبائی خود مختیاری مل سکے مگر وفد نے اس مشورے کو رد کردیا۔ مشرف نے اپنے دور کی تاج نوردی میں جہاں پاکستان کو بے پناہ نقصانات سے دو چار کیا تو وہاں وہ کشمیریوں کے لئے قصاب ثابت ہوا۔ لاریب مشرف نے ائین پاکستان سے غداری کی۔ریاستی سلامتی کے ساتھ بغاوت کی۔سیاست و جمہوریت پر نہرو ازم کی چھاپ لگادی۔یوں مشرف راسپوٹین کی شکل میں نہ صرف پاکستان کا میر جعفر تھا بلکہ وہ اہل کشمیر کے لئے میر صادق ثابت ہوا۔ غدار میر جعفر کی شکل میں ہو یا میر صادق کے روپ میں وہ انگریز ہو یا مشرف نام کا سابق صدر سارے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔اب اگر کشمیریوں نے مشرف کو غدار کا لقب دے ڈالا تو قصیدہ خوانوں کو بھڑکنا نہیں چاہیے۔مشرف کو تاریخ اپنے ابواب میں میر جعفر اور غداران ملت کے ساتھ قلم بند کرچکی ہے۔یاد رہے شکسپیر نے کہا تھا تاریخ اپنے فیصلے بدلا نہیں کرتی۔کشمیریوں اور پاکستانیوں کو غدار ملت سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیا کوئی عدالت حکومت سیاسی دانشور ارمی چیف یا ریٹائرڈ ارمی جرنیل بتا سکتا ہے کہ جرنیلوں اور ڈکٹیٹرشپ کے خالق فوجی ڈکٹیٹرز اور ارمی چیف کا احتساب کیوں نہیں ہوسکتا؟
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved