اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔15-10-2010

کالا باغ اتفاق رائے کیوں نہیں؟

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

تحریرروف عامر پپا بریار عنوان
پاکستان میں ابپاشی ،اب نوشی اور ضروریات زندگی کے لئے درکار پانی کی کمی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کی 64 سالہ تاریخ کی کسی حکومت نے )فوجی سویلین (نے ایک طرف مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر وافر پانی کے زخائر کو سٹور کرنے کے لئے ڈیمز بنانے کی زحمت ہی نہیں کی تو دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت نے بھی بھارت سے گزرنے والے پاکستانی دریاوں جہلم چناب اور سندھ کا پانی ڈکارنے کے لئے درجنوں منی اور لارجر ڈیمز بنالئے ہیں تاکہ مناسب وقت پر پانی روک کر سرزمین پاکستان کو بنجر بنادیا جائے تاکہ پاکستان کو اقتصادی، زرعی اور معاشی میدان میں ناکام ریاست ثابت کیا۔بھارتی اقدامات کو ابی جارہیت سے تشبیہ دی جارہی ہے۔عالمی ماہرین نے پاکستان کو بار بار خطرے کی لال جھنڈی دکھائی ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے پر عمل درامد نہیں کرتا اور ہر سال سمندر میں غرق ہونے والے32 لاکھ ایکٹر فٹ پانی کے لئےwater reservoirs تعمیر نہیں کئے جاتے تو 12سالوں بعد پاکستان کے کھیت کھلیان صومالیہ کا منظر پیش کریں گے۔اگر اس جانب فوری توجہ مرکوز نہیں کی جاتی تو ابی جارہیت ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہوگی۔ ابی جارہیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی کے صحراوں میں بھٹکنا ہوگا۔ پاکستانی دریاوں کے پانی کا ماخذ جموں اور کشمیر ہے۔ بھارت نے تقسیم ہند کے وقت کشمیر کے قدرتی وسائل پر نظر مرکوز کررکھی تھی جس میں پانی سرفہرست تھا۔بھارت نے انگریزوں اور کشمیری راجے کی ملی بھگت سے کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ بھارت نے پانی ہتھیانے کی ابتدااپریل1948 میں کی۔دریائے ستلج بیاس اور راوی کا پانی روک کر ہماری فصلات کو خاصا نقصان پہنچایا۔ بھارت اپنے تمام ہمسائیوں بنگلہ دیش بھوٹان سری لنکا اور پاکستان کے پانی کو اپنے تصرف میں لانا چاہتا ہے۔ روئے ارض پر کئی دریا ایسے ہیں جنکی گزرگاہیں کئی ممالک گزرتی ہیں جو کئی ریاستوں کو سیراب کرتے ہیںمگر کوئی ملک اپنی حدود میں سے گزرنے والے پانی پر ڈکیٹی مارنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔جنوبی امریکہ کے دریاamazon کی لمبائی6880 کلومیٹر ہے اور یہ برازیل پیراگوئے اور کولمبیا سے گزر کر سمندر میں پیوندخاک ہوتا ہے۔دریائے نیل کی لمبائی6540 کلومیٹر ہے جو افریقہ تا مڈل ایسٹ تک اپنی راہ میں انے والی اللہ کی دھرتی کو سیراب کرتا ہے۔ شمالی امریکہ سے دریائے میسیسی کی لمبائی5910 کلومیٹر ہے جو کئی ریاستوں کی کاشتکاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔بھارت نے دریائے بیاس راوی اور ستلج کا پانی اس بہانے روک دیا تھا کہ بھارتی راجھستان کو اباد کرنے کے لئے پانی درکار ہے۔پاکستان نے تجویز دی کہ ستلج بیاض راوی اور چناب کے نظام کو جوں کا توں رہنے دیا اور وہ دریائے نربد اور تاپتی کے پانی کو زیر استعمال لائے۔پاکستان نے بھارت کو افر کی تھی کہ ان دریاوں پر بھارت بیراج تعمیر کرے جسکی ادھی لاگت پاکستان ادا کرے گا مگر یہ وسیع القلب پیشکش رد کردی گئی اور بھارت نے بھاکڑہ ڈیم تعمیر کرنے کی ٹھان لی ۔یہ دریا سندھ طاس علاقے میں موجود ہے جہاں انڈس ٹریٹی معاہدے کی رو سے ڈیم نہیں بنایا جاسکتا مگر دہلی سرکار نے نہ صرف ڈیم تعمیر کرلیا بلکہ پاکستانی دریاوں کے ساتھ ساتھ درجنوں بیراجز اور ڈیم تعمیر کرلئے۔ اگر بھارت اپنے عزائم میں کامیاب ہوگیا تو لاہور حیدر اباد اور کراچی سمیت کئی علاقے ویران ہوجائیں گے۔ویسے بھی ان علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت گہری ہے اسی لئے یہاں کوئی دوسرا طر یقہ ابپاشی ندارد ہے۔ حالیہ سیلاب کی المناک بر بادیوں کے تناظر میں مستقبل کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر بھارت سندھ جہلم اور چناب پر بنائے جانیوالے ڈیمز بیراج اور لنک کینالز کا پانی بیک وقت پاکستانی دریاوں میں چھوڑ دے تو پورا ملک طوفان نوح میں غوطے کھارہا ہو گا۔1987 میں بھارت نے صرف دریائے چناب کا پانی چھوڑا تھا کہ پورا پنجاب ہر سو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا۔ حالیہ سیلاب میں ہیڈ تونسہ گڈو اور کوٹری پر پانی کا بہاو 12لاکھ کیوسک تھا اگر یہ مقدار14 لاکھ کیوسک تک پہنچ جاتی تو تینوں بیراج پانی کے ریلے میں بہہ جاتے۔یہاں تصور کریں کہ اگر بھارت نے اپنے ڈیموں کا پانی چھوڑ دیا تو یہ مقدار20سے25 لاکھ کیوسک کا ہندسہ کراس کرسکتی ہے جو پاکستان کے تمام بیراجوں کی لنکا کو ملیا میٹ کردے گی۔یوں دریائے سندھ کے ہر سال ضائع ہونے والے پانی اور سیلابی ریلوں کو سٹور کرنے کے لئے نئے ڈیمز ناگزیر بن چکے ہیں ۔ کالا باغ ڈیم زرعی معیشت میں ریڈ ھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہمارا سامنا کسی افتاد اور مشکل سے پڑتا ہے اور پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ہمیں بچاو کی تمام تدبیریں یاد انے لگتی ہیں۔واپڈا منسٹر پرویز اشرف نے2010 مئی کو اعلان کیا تھاکہ کالا باغ ڈیم کا قصہ تمام ہوچکا کیونکہ تین صوبے سندھ سرحد اور بلوچستان اسکے حق میں نہیں ۔ اس عاجلانہ اعلان سے پاکستانیوں کے دلوں میں ڈیم کی خواہش کا ٹمٹماتہ چراغ بجھ گیا۔ سیلاب کی جوہری تباہ کاریوں پر وزیراعظم کا دل پسیج گیا انہوں نے کہا اج کالا باغ ڈیم ہوتا تو اتنی تباہی نہ ہوتی مگر دکھ تو یہ ہے کہ قوم پرست جماعتوں کی مخالفت کا پرنالہ اج بھی وہیں ہے۔اب سوال تو یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس کالا باغ ڈیم کا نعم البدل ہے؟ کالا باغ ڈیم کی لوکیشن ائیڈیل ہے۔اگر سیاسی بانکے تعصبات سے بالا تر ہوکر تعمیر پر متفق ہوجائیں تو یہ تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد مٹی سے بننے والا لا تیسرا بڑا عظیم شاہکار ہوگا جسکی لمبائی 4 ہزار میٹر اور اونچائی819 فٹ ہے۔یہ ڈیم 4 ہزار میگا واٹ ہائیڈو الیکٹرسٹی پیدا کریگا جس سے ایک طرف بجلی کے نرخوں میں کمی ہوگی اور دوسری طرف وبال جان بنی ہوئی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ بجلی کی طلب میں ہر سال 17فیصد کا اضافہ ہورہا ہے. ابادی برق رفتاری سے بڑھتی جارہی ہے۔ اگر ملک بھر کے تمام رینٹل پاورز بیک وقت 24 گھنٹے بجلی پیدا کرتے رہیں تب بھی یہ طلب پوری نہیں ہوسکتی۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے قوم پرست اپنی نام نہاد غیرت اور انا کی تسکین کے لئے اپنی کلہاڑی سے وجود پاکستان کا قیمہ بنانا چاہتے ہیں۔ جرنیلوں نے سیاسی مفاد کی خاطر کالا باغ کو سیاست کی بھینٹ چڑھا یا۔ اگر امروں نے کالا باغ پر توجہ دینے کی تکلیف نہیں کی تو یہ ضروری نہیں کہ جمہوری حکومت بھی ویسا کرتی رہے۔ جو لیڈر اپنی قوموں کو خوشحالی کی چوٹی پر فروزاں کرنے کے متمنی ہوتے ہیں وہ لسانی اور نسلی مخالفین کی پرواہ نہیں کرتے ۔ چین نے دریائے یان گسی پر دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا اعلان کیا تو کئی چینی قبائل اسکی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے مگر چینی راہنماوں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر ڈیم بنالیا۔چینی ڈیم صنعتی زرعی اور معاشی ترقی میں لیڈنگ رول ادا کیا۔چین نے ہر شعبے میں یورپ کو ڈھیر کردیا ہے۔ اس معجزے کے عقب میں چینی قیادت کا عزم و جنون اور دانش و بصیرت اور ولولہ کار فرما ہے۔کیا پاکستان کو ایٹمی قوت دینے والے پی پی پی کے چیرمین اور صدر مملکت چینی قیادت کے عمل کی پیروری کرسکتے ہیں؟ زرداری اور گیلانی کو رب العالمین نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا گولڈن چانس دیا ہے جسے ضائع کرنا ملک و قوم کو روٹی کپڑ اور مکان کی بجائے بھوک بیروزگاری اور پسماندگی کے شکنجے میں کسنے کے مترادف ہوگا۔ بحرف اخر ارباب اختیار ایک جانب بھارتی عزائم کے سامنے بند باندھ کر سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائیں تو دوسری جانب کڑوا گھونٹ پی کر کالا باغ ڈیم کی جلد ازجلد تعمیر کو یقینی بنائیں ورنہ قوم کو ہر سال سیلاب کی سفاکیت کا تحفہ ملتا رہے گا۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved