اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔17-10-2010

کیامشیروں کی تبدیلی سے کامیابی ملتی ہے

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

افغانستان میں ناٹو کی پے درپے ہزیمتوں، پاکستان نے ناٹو کی سپلائی لائن کو شرائط کی منظوری تک بند رکھنے اور شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن سے انکار یہ سچ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین خوشگوار تعلقات کی جگہ کشیدگی کا عنصر روز افزوں ہے۔ امریکہ میں پچھلے 2مہینوں سے یہ خبریں تواتر سے چھپ رہی تھیں کہ وائٹ ہاوس کی خارجہ کمیٹی کے چیرمین جنرل جیمز اسی سال مستعفی ہوجائیں گے۔ میرین کمانڈ سے تعلق رکھنے والے جیمز اوبامہ کے ان قریبی معاونین میں شامل تھے جنہوں نے صدر کی اولین ٹیم کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ صدر کے چیف اف سٹاف ایمانول اور نیشنل اکنامک کونسل کے سربراہ لارنس سمر کی وائٹ ہاوس سے رخصتی کے بعد اپنے عہدہ جلیلہ پر طلوع ہوئے۔ جیمز جونس کے استعفی کے بعد صدر نے نئے مشیروں کی تلاش شروع کردی کیونکہ امریکہ کو مقامی اور عالمی سطح پر بے شمار گھمبیر و خزاں رسیدہ چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نپٹنے کے لئے نئے مشیروں کی ضرورت لازم ہوچکی۔ نیو برانڈ مشیروں کی ضرورت اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ دسمبر میں ایک طرف کانگرس کے مڈٹرم الیکشن ہونگے تو دوسری طرف امریکہ کی افغان پالیسی پر عنقریب نظر ثانی کا میلہ سج رہا ہے ۔ اوبامہ حالات کا رخ اور تیل کی دھار دیکھر تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اہم سوال ہے کہ اوبامہ ایڈمنسٹریشن میں اکھاڑ پچھاڑ کا جو سلسلہ شروع ہونے والا ہے اسکے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور اسکی اہمیت باہمی انڈر سٹیڈنگ اورتعلقات کی اہمیت اور اثر و نفوز کا دائرہ کار کتنا ہوگا جو پہلے ہی کشیدگی کی زد میں ہیں؟۔اوبامہ نے بیک روم ٹیکنوکریسی کے نام سے مشہور تھامس ای نیلسن کو قومی سلامتی کے مشیر کا ہما پہنا دیا تھامسن پاک امریکہ تعلقات کے لئے کتنے اہم ہونگے؟ کیا مشیر کی تقرری سے دسمبر میں کابل جنگ اور افغان پالیسی پر کی جانیوالی نظر ثانی پر کوئی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ ای تھامس صدر اوبامہ کے قریبی عشاق جمال میں شامل ہیں شائد اوبامہ اور ای تھامس کی قرابت داری جیمز جونز پر بار گراں تھی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ انہیں سائیڈلائن پر کھڑ ا کردیا گیاہے۔ اگر پاکستان کے تناظر میں اوبامہ کی افغان پالیسی پر عقل کا استعمال کا جائے تو افغان جنگ کے تنازعے پر صدر کی ٹیم دو حصوں میں منقسم ہے ایک حصہ سخت گیر انتہاپسندوں پر مشتعمل ہے جو فاٹا کابل اور سرحدی علاقوں کو میزائلوں سے نابود کرنے کا طرف دار ہے دوسرا گروپ اعتدال پسندی کا اسیر ہے جو تمام مسائل کوdialogueسے حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ نوزائیدہ بازیگر تھا مس کا تعلق سخت گیر گروپ سے ہے۔ مغربی میڈیا ای تھامس کو کو عقابوں سے تشبہیہ دے رہا ہے۔نائب امریکی صدر جوبائیڈن اور تھامس مشترکہ نظریات کے اسیر ہیں۔ جو پاکستان کو اس خطے میں امریکی مفادات کی راہ میں کانٹا سمجھتے ہیں اور یہ مغربی میڈیا کی سازش ہے کابل میں جاری دہشت گردی کو پاکستان کا کیا دھرا سمجھتاہے جبکہ جیمز جونز ا ہمیشہ سے ہی کہتے چلے ائے ہیں کی برائی کی اصل جڑ افغانستان میں پیوست ہے۔۔جیمز جونز کے نظریات مائیک مولن کے افکار سے ملتے جلتے ہیں۔ جوبائیڈن اور تھامس کی پلاننگ کے مطابق امریکی مفادات کا راستہ پاکستان سے افغانستان جاتا ہے نہ کہ افغانستان سے پاکستان۔باب ورڈ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب obama warsمیں لکھا ہوا ہے کہ وائٹ ہاوس کا عملہ سارا دن بحث میں الجھا رہتا ہے کہ انہیں پاکستان اور کابل میں سے کس ملک سے خطرات خدشات اور تشویش لاحق ہے۔ عقابوں کا نظریہ ہے کہ کئی اسباب اور واقعات کی رو سے پاکستان ہی اصل جڑ ہے مگر جیمز جونز اس نقطے سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ مرکز ثقل افغا نستان میں ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے سلسلے میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں جیمز جونز نے ای تھامس سے کہا کہ تم میری جگہ لینے کے خواہش مند ہو تو پہلے پہل افغانستان اور عراق کی سیر کرنی چاہیے۔ امریکہ اپنے کمانڈر ڈیوس پیٹریاس کی سربراہی میں شروع کردہ جنگ کی راہ پر گامزن ہے حالیہ اطلاعات مظہر ہیں کہ امریکہ اپنے طیاروں کا رخ پاکستان کی جانب موڑنے کا خواہش مند ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پچھلے مہینے میں فاٹا میں 26 حملے کئے۔ نیٹو کی پاکستانی سرحدوں کو کراس کرکے قبائلی علاقے میں بمباری کرتے رہے ہیں جس نے کشیدگی کی فصل کاشت کرڈالی۔ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو دونوں کے تعلقات ختم بھی ہو سکتے ہیں۔قرائن سے یہ نظر اتا ہے کہ نئے مشیروں بشمول تھامس ای ڈونیلن کی امد پاکستان کے لئے فوائد کی بجائے نقصانات کا الارم ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اٹھ سالوں سے امر یکہ کا حلیف رہا ہے۔امریکہ کے لئے ہماری کاوشیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں مگر امریکہ بھارت اسرائیل ہمار ی قربانیوں کا تذکرہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں پاکستان پر ڈو مور کا جھانسہ دینے والا اوبامہ ہو یا جرنیل انہیں کبھی کبھار تاریخ کا ایک باب لازمی پڑھنا چاہیے۔ امریکی جنگ نے ہمیں بیروزگاری کرپشن دہشت گردی بم دھماکوںکے کئی نادر و نایاب لڈوں سے نوازا۔پاکستانیوں نے اپنی جیبوں سے35 سے40 ارب ڈالروں پھونک دئیے ہیں۔دہشت گردی نے انسانیت کشی کا اگلا پچھلا ریکارڈ توڑ کر ریاستی یکجہتی کو پارہ پارہ کردیا۔ پچھلے102 مہینے کا تخمینہ لگایا جائے تو اموختہ ہوجاتا ہے کہ ہر دسواں گھر سیلاب میں ڈوب چکا۔ عراق اور کابل میں امریکیوں کی وحشت کے رد عمل میں یہاں332 خود کش حملے ہوئے جنکی چتائیں اگ و خون میں گم ہوگئیں اور مجموعی 6324بے گناہ اگ کا ایندھن بن گئے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں جوان حرمت وطن پر قربان ہوگئے۔4500 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔پولیس نے مردانہ وار مقا بلہ کرکے ثابت کردیا کہ وہ اپنی زمہ داریوں سے مبرا نہیں 1958پولیس والے دوسروں کی زندگیاں بچاتے بچاتے خود لحد میں اتر گئے۔ خیبر پختون خواہ کے 904 پولیس افسران اور کانسٹیبل جام شہادت نوش کرگئے۔پنجاب پولیس نے 385بلوچستان میں 182سندھ پولیس نے 155گلگت9 اسلام اباد پولیس کے23 ایف ائی اے کے 17موٹر وے کے ا8ور ازاد کشمیر کے 3 رتبہ شہادت۔امریکہ کے مقبوضہ افغانستان میں ہلاک ہوئے۔ جرمنی کے 340برطانیہ فرانس151 اور کنیڈا کے 47فوجی مارے گے۔ ناٹو کے مقابلے میں پاکستانیوں نے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی ۔ ناٹو کی ظلمتوں پر مسلمانوں کا دل خون کے انسو رو رہا ہے۔ ہمیں اغیار کی غلامی وہ چاہے معاشی ہو یا صنعتی سماجی ہو یا تہذیبی ہو سے ازاد ی و خود مختیار ی حاصل کی جائے ۔ہمیں امریکہ سے ڈکٹیشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک ہم کاسہ گدائی تھام کر خیرات مانگتے پھریں گے اور کب تک ہم جوتیوں میں دل بانٹے رہیں گے؟ ٹیگور نے کہا تھا غلطی کو غلطی جان کر اسکی اصلاح نہ کرنے والے ایسی بھیانک ترین غلطی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ ہمیں امریکہ کے ساتھ دوبارہ رومانس کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔پہلے بھی کئی سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں،پی پی پی حکومت اپنی غلطیوں کا احتساب کرے اور اعتراف کرلے تو یہ سونے پر سہاگہ پھیرنے والی بات ہوگی۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved