اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔27-10-2010

پاک امریکہ ڈائیلاگ اور حقیقی سچ

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

پاکستان اور امریکہ کے مابین اسی ہفتے امریکہ میں اسٹریٹجک مذاکرات ہوئے۔ یہ ڈائیلاگ اس حوالے سے تاریخ کے صفحات پر کندن ہونگے کہ امریکیوں نے پہلی مرتبہ پاکستانی وفد کو غلام اور آقا کے ترازو میں تولنے کی بجائے برابری کی سطح پر بات چیت کی۔ امریکہ نے ایک طرف پاکستان کو سیکیورٹی اور دفاعی امور کو اپ گریڈ کرنے کے لئے 2 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تو دوسری طرف امریکہ نے افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ پاک امریکہ ریلیشن شپ کی64 سالہ ہسٹری کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی اعلانات پر اعتبار تو نہیں کیا جاسکتا تاہم مثبت اور حوصلہ افزا نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکی میڈیا نے کھل کر لکھا کہ اوبامہ نے پاکستانی موقف کی اصابت کو تسلیم کرلیا ہے۔ حوصلہ افزا اطمینان بخش اور کامیاب ڈائیلاگ پر حکومت، وزارت خارجہ اور پاک فوج مبارکبادکی مستحق ہے کہ اسلام اباد کی فراست اورجاندار سفارت کاری کی وجہ سے سپر پاور پاکستانی مطالبات کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ امریکی حکام نے ناٹو کی فضائی جارہیت پر ایک بار پھر معافی مانگ لی۔ وائٹ ہاوس میں سلامتی کے مشیر نام ڈینیل و امریکی حکام اور پاکستانی وفدکے مابین مذاکرات جاری تھے اوبامہ اچانک اجلاس میں جلوہ گر ہوئے۔ صدر اوبامہ کا اجلاس میں انا اور پچاس منٹ تک مذاکرات میں شامل رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاوس پاکستانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اوبامہ کی کھوپڑی میں یہ سچائی راسخ ہوچکی ہے کہ پاکستان کو ساتھ ملائے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا تو درکنار امریکی فورسز کا باوقار انخلاناممکنات میں شامل ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جوزف بائیڈن کو بطور سینیٹر یہ کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ وہ برملا اقرار کرتے رہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ پچھلے 64 سالوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کررہا ہے۔ علاوہ ازیں ہیلری کلنٹن اندرون اور بیرون ملک پاکستانی کردار کی توصیف کرچکی ہیں۔ پچھلے 10 سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ فریقین کے مابین گفتگو مثبت رہی ۔ افغان مسئلے اور طالبان سے ڈائیلاگ کے سلسلے میں پاکستان کا کردار ایسا مسئلہ ہے جسکے تعین کے بغیر گتھیاں سلجانا بیکار ہے۔ اوبامہ انتظامیہ مستقل قریب میں ایوان نمائندگان کے الیکشن میں ووٹروں کو مطمئن کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان کے سر تھوپنے کی بجائے سرعام تسلیم کرنا ہوگا کہ کابل سے باوقار انخلا سمیت کسی تنازعے پر پاکستان کے محل وقوع تاریخی عوامل کے باعث اسکی اہمیت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان فرنٹ لائنر اتحادی ہے۔پاکستان امریکہ کے تمام اتحادی ملکوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ قربانیاں دے چکا ہے۔ کہاوت ہےDO NOT USE A HAMMAR TO REMOVE A FLY FROM A FRIEND FOREHEAD۔ صدر اوبامہ نے واضح کیا کہ امریکہ کے لئے پاکستان میں جمہوریت پر کوئی سمجھوتا قبول نہیں۔اوبامہ کے خیالات اور احساسات قابل تعریف ہیں اگر وہ اگلے الیکشن تک محدود نہیں۔پاکستانی قوم شدت کے ساتھ محسوس کرتی ہے کہ انتہاپسندوں کے ساتھ لڑائی میں انکے جوابی رد عمل کا زخم سہنے اور سیاسی معاشی اور سماجی نقصانات برداشت کرنے کے بعد جب کبھی امریکہ پاکستانی کردار پر تحسین کے ڈونگرے برساتا ہے تو کچھ عرصے بعد یہی امریکہ القاعدہ اور جانثاروں اسامہ لادن وغیرہ کی پاکستان موجودگی کا شوشہ چھوڑ نے اور فرضی الزامات کی طومار باندھ کرdo more کا مطالبہ کرتا ہے۔ واشنگٹن کو پاکستان کے مخصوص مزاج کا پتہ ہونا چاہیے کہ یہاں گاجر اور چھڑی کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جنگ اور امن کا راستہ پشاور اور کوئٹے سے ہوکر جاتا ہے۔پاکستان نے اسی خطے میں رہنا ہے وہ بھاگ کر کہیں اور نہیں جاسکتا جسطرح امریکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد چلتا بنا۔ پاکستان کو جلد یا بدیر شمالی وزیرستان میں پناہ گزین شدت پسندوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے ہیں۔شمالی وزیرستان میں فوج اسی وقت اپریشن کرسکتی ہے جب امریکہ پاک فوج کو جدید عسکری ریسورسز سے مسلح کرے۔ امریکہ پاکستان کو سول نیوکلیر ٹیکنالوجی دینے سے انکاری ہے۔امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو نیوکلیر کولڈ سے دور رکھے۔ بش جونیرنے پاکستانی خواہشات کے برعکس بھارت سے سوویلین جوہری پارٹنرشپ کا سنگ بنیاد رکھا۔ امریکہ خطے میں بیلنس اف پاور کو یکساں کرنے کے لئے پاکستان کو سول جوہری انرجی مہیا کرے۔توقع تھی کہ اسی سال مارچ میں واشنگٹن ڈی سی میں اسلام اباد کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں خاصی پیش رفت ہوگی مگر وائٹ ہاوس کے ترجمان کا یہ بیان پڑھکر مایوسی ہوئی کہ ایسی کوئی ڈیل ایجنڈے کا حصہ ہی نہ تھی۔ امریکہ پاک امریکہ پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ امریکہ پاکستان کی معاشی خوشحالی اور جنوبی ایشیا میں قیام امن اور جمہوری استحکام کے لئے عملی اور ہنگامی اقدامات کرے۔ اگر چہ پاکستان امریکہ کی برابری نہیں کرسکتا لیکن وہ خطے کا اہم سٹیک ہولڈر ضرور ہے۔پاک امریکہ تعلقات کا تقاضہ ہے کہ دونوں ملکوں کو مستقبل میں باہمی برابری کی بنیاد پر مستقل ریلیشن شپ قائم کرنے چاہیں۔ صدر اوبامہ کابل سے بیک جنبش امریکی افواج کی وطن واپسی کے خواہاں ہیں۔ امریکہ کے انخلا کے بعد خطے میں خلا پیدا ہوگا پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو اس خلا کو پر سکتا ہے۔یہ کردار بطور امریکن پراکسی کی بجائے باہمی قومی مفادات کی بنا پر کیا جاسکتا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا جو رشتہ تعلق یا دوستی برابری کی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتی وہ کچے دھاگے کی مانند کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔ امریکہ ڈرون حملوں کا اختیار پاکستان کے سپرد کرے کیونکہ پاکستانی قوم کے جذبات میں اگ بھڑک اٹھتی ہے جب ڈرون شب خون عام شہریوں کو موت کا لال کفن پہناتاہے۔ امریکہ پاکستانی قوم میں اعتماد سازی کے لئے ایک طرف سویلین جوہری ڈیل کو یقینی بنائے تو دوسری طرف پاک فوج کو ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کرے ورنہ سترہ کروڑ پاکستانی امریکیوں سے نفرت و عداوت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے رہیں گے۔ اعتماد سازی کے لئے ضروری ہے کہ ایسے عملی اقدامات کئے جائیں جو یہ ثابت کردیں کہ دوستی امن اور رواداری کے امریکی دعوے درست ہیں۔ پاکستانی قوم امریکہ کو اس وقت اپنا دشمن نمبر ون ڈیکلیر کرکے خیر کی بجائے شر کی توقع رکھتی ہے جب امریکہ سے تعلق رکھنے والے دانشور ادیب صحافی اور سیاست دان اپنے ارٹیکلز مضامین اور کتابوں میں پاکستان کے خلاف امریکن تھنک ٹینکس کے بھونڈے عزائم کو منکشف کرتے ہیں جسکی ایک واضح مثال پورے منظر نامے کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔webster tarplay امریکی صحافت میں وائٹ ہاوس کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے میں عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔ اسے تفتیشی صحافت کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے۔یہ ویبسٹر تارپلے تھا جس نے اٹلی کے وزیراعظم aldmoro کو قتل کرنے والی ایجنسیوں کو بے نقاب کیا۔ویبسٹر ہر ہفتےworld crises radio پر خفیہ ایجنسیوں اور عالمی طاقتوں کے مکروہ عزائم سے پردہ اٹھاتا ہے۔ تارپلے ویبسٹر نے نائن الیون کے حقائق اور کرداروں کی قلعی کھولنے کے لئے نو دو گیارہ نامیZERO INVESTIGATION فلم بنا کر شہرت حاصل کی۔ویبسٹر نے ثابت کیا کہ یہ حملہ اسلحہ ساز فیکٹریوں اور خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔ اسی شخص نے سب سے پہلے بلیک واٹر کی پاکستان موجودگی کا انکشاف کیا جسکا مقصد کراچی اور بلوچستان میں شورش اور افراتفری پیدا کرنا تھا کہ انتظامی مشینری بے قابو ہوجائے تاکہ کوئٹہ اور کراچی پر قبضہ کیا جاسکے۔ ایسی خبریں قوم کو بیقرار بے چین اور مضطرب کردیتی ہیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی بازگشت تو سارا سال کانوں میں بھٹکتی رہتی ہے۔اوبامہ ایڈمنسٹریشن نے اگر نیک نیتی سے پاکستان کے جمہوری معاشی اور دفاعی شعبوں کو مضبوط کرنے کا تہیہ کرر کھا ہے تو پھر پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات سے بچانے کے لئے مغربی میڈیا کی شرانگیزی کو ختم کروانا امریکن ڈیوٹی ہے۔اگر ایسا نہ ہوسکا تو حالیہ ڈائیلاگ کو کامیاب کہنا دیوانے کی بڑ ہی کہلائے گی۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved