اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔27-10-2010

کارگل مشرف اور سپریم کورٹ

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

کارگل جنگ 1989سے نواز شریف اور پرویزی حیلہ ساز مشرف کے مابین تضادات بہتان ترشی اور الزام تراشی کا زریعہ بنی ہوئی ہے۔ کارگل ایڈونچر کی وجہ سے تین ہزار پاکستانی فوجی موت کے تندور میں سلگ سلگ کرراکھ بن گئے۔ کارگل اپریشن کا منصوبہ ساز کون تھا؟ لاحاصل و بے معنی فوجی مہم جوئی کے کیا مقاصد تھے؟ کیا جنرل مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کارگل اپریشن ڈسکس کیا تھا؟ کیا سیاسی حکومت سے اجازت لی گئی تھی؟ پاکستانی قوم اج تک ان حقیقت افزا سوالات کا جواب تلاش کرنے میں ناکام ہوچکی۔ کارگل کے برفیلی چادروں میں چھپے ہوئے دیوقامت پہاڑ بھارتی کشمیر کا حصہ ہیں۔ کارگل اپنے محل وقوع اور فوجی نقطہ نظر سے اہم ترین علاقہ ہے۔لداخ اور سری نگر کا واحد زمینی راستہ یہاں سے گزرتا ہے۔سیاح چین پر موجود بھارتی افواج کی کمک و رسد کے لئے کارگل کا راستہ اہی ائیڈیل ہے۔ کارگل تاسیاچین روٹ سال کے دس مہینوں تک برف کی قید میں رہتا ہے اور صرف دو ماہ کے لئے یہ شاہراہ سیاہ چین کے برف پوش پہاڑوں تک پہنچنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔بھارت کو انہی مہینوں میں فوجی چیک پوسٹس اور فوجی یونٹوں میں کام کرنے والے بھارتی لشکر کی خوراک اور دیگر ضروریات کو سیاہ چین کی چوٹیوں تک لیجانے کا ٹاسک پورا کرنا ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں پہاڑیاں اور سیاہ چین پاکستانی ملکیت تھے جہاں بعد ازاں بھارتی فورسز نے قبضہ جمالیا تھا۔دفاعی نقطہ نظر سے اگر کارگل کے راستوں پر پاک فوج دوبارہ قبضہ کرلیتی تو سری نگر تا لداخ اور کارگل تا سیاہ چین تک بھارتی رسد و کمک کا پہنچنا محال تھا۔ سیاسی مسائل کا حل تو سیاسی حکومتیں کی زمہ داری ہے جبکہ افواج ہر دم تیار رہتی ہیں اور انہیں اعلی حکام کے حکم کا انتظار ہوتا ہے۔فوجی مہم جوئی کی تمام تر پلاننگ اور منصوبہ بندی عسکری ماہرین کے سپردہوتی ہے۔1988 تا1989 میں انڈین فوج برفباری سے بچنے کے لئے نیچے اتر ائی ،۔پاکستان نے چپکے سے کارگل کی بلندیوں پر اپنے قبضے کے پھریرے لہرا دئیے۔ بھارتی فوج نے مئی اور جون میں دوبارہ یہاں انا تھا۔ نپولین بونا پارٹ کا جملہ ہے کہ جنگیں محض بڑھکوں سے نہیں جیتی جا سکتیں فتح کے لئے وسائل اور جنگی سازو سامان ناگزیر ہوا کرتاہے۔مشرف کے ساتھی جرنیلوں نے جوانوں کو جنگ میں جھونک تو دیا مگر شائد فارغ البالی کی وجہ سے منصوبہ بندی کا فقدان تھا۔ مشرفی جرنیلوں نے نہ توقومی قیادت کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی فوجیوں کی خوراک اور اسلحے کی ڈمپنگ کا بندوبست کیا گیا۔ بھارتی اپنی یونٹوں میں واپس ائے تو انکا استقبال گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ہوا۔ ملٹری کمانڈرز نے واقعہ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور عالمی میڈیا کو خبر دی کہ کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدین کا غلبہ ہے مگر یہ راز سربستہ نہ رہ سکا ۔ امریکہ نے بھارت کو کنفرم کیا کہ کارگل پر پاک فوج قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ انڈین فورسز کا مقابلہ براہ راست ازلی دشمن پاکستان کے ساتھ تھا۔ پاکستانی دورے پر ائے ہوئے انڈین وزیراعظم واجپائی نے لاہور میں نواز شریف سے گلہ کیا کہ ہم اپکی میزبانی سے مستفید ہورہے ہیں مگر اپکی فوج نے کارگل پر قبضہ کرلیاہے۔وزیراعظم کی صدارت میں27 مئی1998 کو ہنگامی دفاعی اجلاس منعقد ہوا جس میں تینوں سروسز نیوی ارمی اور فضائی کے سربراہ شامل تھے۔ نیوی اور فضائی چیفس نے نواز شریف کو بتایا کہ ہمیں اس مہم جوئی کی بھنک تک معلوم ہے۔اگر بھارتی نیوی اور فضائی افواج نے رد عمل میں کوئی ایکشن دکھایا تو ہم تباہ ہوسکتے ہیں کیونکہ ابھی تک فوجی جنگ کے لئے زہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ نواز شریف کو جب تمام ریسورسز اور حقائق سے اگاہی مل گئی تو انہوں نے قومی مفاد میں اپریشن کی زمہ داری قبول کرلی۔ عسکری منصوبہ ساز خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ کارگل پر بھارت اپنا میڈیم سائز اسلحہ اور توپ خانہ موبلائز کرنے کے قابل نہیں مگر منصوبہ ساز اس وقت لرزہ براندام ہوگئے جب معلوم ہوا کہ انڈین فورسز کیل کانٹوں سے مسلح ہوکر کارگل پہنچ گئے۔ بھارت کی تازہ دم فوج نے پاک فوج کی مزاحمت ختم کروا کر تمام یونٹوں اور اہم دفاعی پوزیشنز پر قبضہ واگزار کروا لیا۔ بھارتی میڈیا نے ایک طرف پاک فوج کے افیسرز اور رجال کاروں کی لاشوں کو دنیا کے سامنے رکھا تو دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا نے ثابت کردیا کہ کارگل پر مجاہدین کی بجائے پاک فوجی جوان قبضہ کرنے والے تھے۔کل تک تو

isipr

کے ترجمان دنیا کو بتارہے تھے کارگل کی چوٹیوں پر ایک فوجی جوان نہیں بلکہ یہ کارنامہ طالبان کاہے مگر اقوام عالم میںہماری سبکی ہوئی۔قومی مفادات کو زک پہنچی اور ہماری ساکھ کا شیش محل کرچی کرچی ہوگیا۔ پہلے امریکی صدر واشنگٹن نے کہا تھا کہ اپنی قوم اور فوج کے مورال کو قائم دائم رکھنے کے لئے بعض اوقات حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اپ کا جھوٹ شروع میں پکڑ لیا جائے تو معاملہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والا ہوجاتا ہے۔ 2 جولائی کو مشرف کے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔مشرف نے نواز شریف کے سامنے مگر مچھ کے انسو بہائے اور اپیل کی کہ جنگ بندی کروائی جائے۔نواز شریف نے 4 اکتوبر کو امریکہ کے یوم ازادی کے موقع پر بلیر ہاوس میں ملاقات کی اور ملاقات کا وقت سعودی شہنشاہوں نے لے کردیا۔ امریکی صدر کلنٹن نے اپنی کتاب

MY LIFE

 میں سارے حقائق کی تصدیق کی ہے۔4 جولائی کے بعد یہ واضح تھا کہ نواز شریف کارگل کی مہم جوئی کے کارن مشرف سے نجات پائیں گے دوسری طرف مشرف اور اسکے چیلے بھی اپنے کارڈز کھیل رہے تھے۔مشرف نے تمام کور کمانڈرز اور وزیراعظم کی ملاقات پر پابندی عائد کردی۔12 اکتوبر1998 کو مشرف اورساتھیوں نے جمہوریت کا دھڑن تختہ کردیا۔ مشرف نے فوجی بغاوت کی اور برملا یہ اعلان کرنے لگے کہ اگر نواز شریف مجھے ارمی چیف کے عہدے سے برطرف نہ کرتا تو وہ اج بھی ملک کا وزیراعظم ہوتا۔ مشرف کی عاجلانہ مہم جوئی نے پاک فوج کے امیج کو داغدار کردیا ہے۔ ہمارے ہاں جب کبھی فوجی جرنیل امریت نافذ کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ خبر بھی پھیلائی جاتی ہے کہ پوری فوج چیف کی حمایت پر کمر بستہ ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ دوچار اقتدار پرست جرنیل ہی ساری فوج کا مخصوص تشخص داغدار کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ارمی چیف کے غیر ائینی اقدامات پر تمام فوج امر کی طرف دار ہو۔ کیا پاکستان میں یہ کلچر پروان نہیں چڑھ سکتا کہ ساتھی جرنیل اور فوجی جوان غیر ائینی اقدامات پر اختلاف رائے کا اظہار کریں۔ ایسی ایک مثال جنرل میکارتھر کی ہے،میکارتھر نے ماتحتوں کو کوریا کی انچون بندرگاہ پر چڑھائی کا حکم دیا تو میکارتھر انگشت بدنداں رہ گیا جب اسکے فوجیوں نے حکم ماننے سے انکار کردیا۔ میکارتھر نے انکار پر تبصرہ کیا کہ اگر اس پلان میں5000 میں سے ایک فیصد کا امکان پیدا ہوا تو میں یہ کوشش لازمی کرونگا۔ دنیا نے دیکھا میکارتھر کامیاب رہا۔ کارگل جنگ میں ناکامی مشرفی نااہلیوں اور عدم مشاورت کا شاہکار ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ایسا طاقتور جج ایوان عدل میں موجود ہے جو مشرف کو اسکی بداعمالیوں اور ائین شکنی پر تازیانہ عبرت بنائے؟ کیا ہمارے ہاں کوئی باکمال و انصاف پرور لیڈر یا حکمران موجود ہے جو کارگل جنگ کے بانی مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے؟ کیا قوم کے محبوب عادل اعظم چوہدری افتخار جنرل مشرف کو کارگل کے محاز پر اپنے تین ہزار جوانوں کو کشمیری مجاہدین کا نام دیکر انڈین فورسز کے ہاتھوں مروانے والے جنرل مشرف پر قتل کی ایف ائی ار درج کروانے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved