اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔13-11-2010

 ڈرون سفاکیت پر اہ و بکا

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

دس سالوں میں امریکہ کوشش از بسیار کے باوجود نہ تو اسامہ بن لادن کو پکڑ سکا اور نہ ہی اربوں کھربوں ڈالر کے جنگی اخراجات ایمن الظواہری اور القاعدہ کے چوٹی کے عہدیداروں کو نیچا دکھانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ جنگ باز ملا عمر کا سایہ تلاش کرسکے اور نہ ہی طالبان کا کوئی اہم کمانڈر انکے ہاتھ لگا۔ دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا ناٹک دکھا کر کابل پر قبضہ کرنے والے اتحادیوں نے افغانیوں کو جمہوریت جدیدیت اور تعمیر نو کا جو جھانسہ دیا تھا وہ بخارات کی طرح ہوا میں تحلیل ہو چکا۔ افغانستان کو اتحادی گلستان کا درجہ تو نہ دے سکے البتہ ناٹو کے موت برساتے میزائلوں اور اگ و خون کی ہولی کھیلنے اور غاروں تک کی اکسیجن تک چوس لینے والے بموں نے افغانستان کو قبرستان اور کھنڈرات میں بدل دیا جس میں 10 لاکھ معصوم افغانی ہمیشہ کے لئے دفن ہوگئے۔ نوشتہ دیوار بن جانے والی شکست کے باوجود امریکہ کو سمجھ نہیں ائی۔اگر اوبامہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتے تو وہ شدت پسندی کے بنیادی عوارض پر غور و فکر فرماتے اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کی کوئی سبیل نکالنے کی ہدایت کرتے۔ نو دو گیارہ کے بعد امریکہ اور صہیونی شاطروں کے خیالات فاسدہ کی کوکھ سے جنم لینے والی جنگ کا دائرہ کار اور کھولتا ہوا الاو پکیتا قندھار کابل اور پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پہنچ گیا۔ امریکہ نے قبائلی علاقوں کو دنیاوی جہنم بنادیا۔ امریکی ظلمت نے قبائلی جوانوں کو بندوق تھامنے پر مجبور کردیا۔وہ ایک طرف پاکستانی فورسز کے خلاف معرکہ ارا ہیں تو دوسری طرف انہوں نے جہادیوں کے برعکس پاکستان کو دشمنوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر لکھ رکھا ہے۔تحریک طالبان نے ملک کے کونے کونے میں خود کش بمباروں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا جال بچھادیا ۔دہشت گردوںنے خیبر سے کراچی تک اپنی سفاکیت و بربریت سے خون کے دریا بہا دئیے۔ہزاروں بچے بوڑھے جوان خون مسلم کے دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ افرنگی پاکستان کے سر مونڈھتے رہتے ہیں کہ فاٹا جنگجووں کا گڑھ ہے اور وہ فاٹا کے راستے افغانستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے واپس فاٹا کا رخ کرتے ہیں۔ امریکن تھنک ٹینکس اور مشرف کے مابین2003 میںفاٹا پر ڈرون میزائل استعمال کرنے کا معاہدہ ہوا۔ تب سے لیکر اج تک اتحادیوں نے فاٹا میں القاعدہ کے جنگجووں کو نشانہ بنانے کی اڑ میں ڈرون ٹیکنالوجی کا وحشیانہ استعمال شروع کررکھا ہے۔غیر جانبدار زرائع کے مطابق ڈرون حملوں میں2 فیصد جنگجو نشانہ بن جاتے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والی اکثریت عام شہریوں پر مشتعمل ہوتی ہے۔ ڈرون حملوں نے بین الالقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے جنگی چارٹر کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ ڈرون نے ظلم و تعدی اور وحشتناکی کی ایسی روح فرسا مثالیں قائم کی ہیں کہ غیر ملکی تجزیہ نگار بھی سکتے میں اگئے مگر ظلم تو یہ ہے کہ ارباب اقتدار سے لیکر سیکیورٹی فورسز اور قوم پاکستان سے لیکر پارلیمان تک نے چپ سادھ رکھی ہے ۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے صحافیjohann heri نے فاٹا میں جاری درندگی پر اہل مغرب کے ضمیر جھنجوڑنے کے لئے کالم تحریر کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں اگر تمھارے گھروں پر روبوٹ ٹائپ بغیر پائلٹ جہاز اڑ رہا ہو جو 7000 ہزار میل کی دوری سے ایا ہو۔ چند سیکنڈوں منٹوں میں جہاز گدھ کی طرح محلے پر ٹوٹ پڑے اور دو چار میزائل داغ کر رفو چکر ہوجائے۔حملے میں پورا محلہ جل کر خاکستر بن جائے۔لاشیں بے شناخت ہوں اور دفنانے کے لئے چند چبائے ہوئے سو ختہ لقموں کے سوا کچھ نہ ہو۔ اپکو بھنک پڑجائے یہ جہاز پاکستانی فوج نے قتل کرنے کی غرض سے بھیجا ہے۔ اگر کوئی ہمت کرکے قاتلوں سے وجہ دریافت کرے مگر وہ اپنے اپکو جہاز اور کاروائی سے بری الذمہ قرار دیں مگر تھوڑی دیر بعد وہی گورے میڈیا میں فخر و متانت اور اکڑفوں کے ساتھ جگالی کررہے ہوں کہ یہ کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے۔ کاروائی کی وجہ دریافت کرنے پربتایا جائے کہ تم میں سے فلاں شخص حملے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔نشان دہی کس نے کی ؟کے سوال پر یہ جواب ملے کہ کسی نے بتایا ۔کس نے ؟ پتہ نہیں جوہان ہیری اگے چل کر لکھتے ہیں کہ غور کریں کہ حملوں کی تعداد روز افزوں ہے اور انکی تعداد میں ہر ہفتے اضافہ ہو رہا ہے۔ اپ حملہ اوروں کے سامنے جتنی دلیلیں پیش کریں اپنی شرافت کی گواہیاں دیں۔علاقائی لوگ اپ کی پاک دامنی کی قسمیں اٹھائیں مگر وہ دلائل کو یکسر مسترد کردیں۔ اگ و خون کے اس کھیل کی گرد و نواح سے روزانہ اپکو خبریں ملتی ہیں تو اپکا موقف کیا ہوگا؟ اس کدو کش میں اپکو بتایا جائے کہ پاکستان ملعون ملک ہے اور سب کیا دھرا اسی کا ہے کیا اپ انکی ہاں میں ہاں نہیں ملائیں گے؟ ہیری نے امریکہ کی جگہ پاکستان کو رکھ کر افغانوںا ور قبائلیوں کے قتل عام کو جس باوقار اور پراثر انداز میں اٹھایا ہے اسکے پیچھے صرف انسانیت دوستی اور سچائی کے عوامل کارفرما ہیں۔ امریکہ کے جنگی جنون پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔پاکستان تین مہینے سیلاب کی افت سماوی سے لڑتا رہا۔ڈرون حملے سیلاب کی المناکیوں کے دوران بھی کئے جاتے رہے۔ انسانیت کشی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے۔ ناٹو کی شقاوت پر کئی نان مسلم چیخ اٹھے۔ معروف امریکی جرنلسٹ chiris flyod نے امریکہ کے ناجائز قتل عام کی تفاصیل بیان کیں اور وہ امریکیوں شہریوں کو مخاطب کرکے گویا ہوا کیا اپ ایک قاتل کا ہاتھ روکنے کے لئے دوسرے قاتل کے پیروکار بن جاو گے اور یہ وہ قاتل ہیں جو شریف شہریوں کے گھروں میں داخل ہوکر خون بہانے میں تسکین محسوس کرتے ہیں اور جنہوں نے بچوں کے سروں میں گولیاں مار کر بھیجے نکالنے کا مشغلہ اختیار کررکھا ہے اور ئیہ فاسق مرے ہوئے نازک اندام بچوں کے بھیجوں کے ساتھ پھول رکھ دیتے ہیں۔ ڈرون کی قیامت صغری پر مغرب تو چیخ اٹھا ہے مگر ہمارے ہاں وکلا دانشور سیاست دانوں اور حکومتی شہزادوں نے اس کھلی و ننگی سفاکی پر اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ واشنگٹن میں وزارت خارجہ کے مشیرdavid calculen کا ضمیر بھی بھڑک اٹھا۔ڈیوڈ نے میڈیا کے سامنے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں میں مرنے والے جہادیوں کی تعداد دو فیصد جبکہ اٹھانوے فیصد معصوم شہری ہیں۔ ڈیوڈ نے اسے غیر اخلاقی جرم کا نام دیا۔وہ اس دہشت کے معکوس نتائج اخذ کرتے ہیں کہ مرنے والے شخص کا گھرانہ 5 تا10فراد پر مشتعمل ہے۔ پسماندگان انتقام کے لئے اٹھ کھڑ ے ہو تے ہیں جس سے انتہاپسند لیڈروں کو نئی کھیپ کے لئے رنگروٹ اسانی سے مل جاتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری ر ہا ڈرون حملوں میں کمی نہ ہوئی ہے تو حالات سنگین سے سنگین تر بن جائیں گے۔ باب وڈ کی کتاب اوبامہ وارز میں لکھا گیا ہے کہ اگر پاکستان کے کسی جہادی نے امریکہ میں شرپسندانہ کاروائی کی تو امریکہ نے ایک150 جگہوں پر بمباری کا پلان تیار کررکھا ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کسی بڑی کاروائی کا جواز تراشنے کے لئے حملوں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے تاکہ پاکستانی اشتعال میں اکر کچھ ایسا کریں تاکہ فاٹا پر حملے کا بہانہ مل سکے۔ارباب اختیار اور مغربی خیالات کی ترجمانی یورپی تہذیب کی نقالی اور مغربی مفادات کی نگہبانی کرنے والی ایسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ امریکہ پر تکیہ کرنے کی بجائے اسکی چالبازیوں پر نظر رکھے تاکہ استعماری عزائم خاک میں مل جائیں۔ ڈرون میزائلوں نے معصوم شہریوں کو لقمہ بنالیا ہے۔پاکستان اگر ناٹو کے جہازوں کی سرحدی خلاف ورزی پر سپلائی روکنے کا ملکہ دکھا سکتا ہے تو پھر ڈرون کی سفاکیت کو روکنے کے لئے دوبارہ جرات رندانہ کا اظہار کیوں نہیں کرتا ۔قوم کو بتائیے کہ ڈرون شب خون کے کتھارس میں نیٹو سپلائی روک دینے میں کیا قباحت ہے؟
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved