اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔23-11-2010

 لزبون کانفرنس اور پاکستان

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بحیثیت مجموعی امریکی تہذیب کے زہنی خلجان کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی۔ امریکہ سے دشمنی خطرناک ہوسکتی ہے مگر امریکہ سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔صدر اوبامہ نے دورہ ہند میں ارشاد کیا تھا

india should not only look east bt also engauge east

 اوبامہ کے اس جملے اور امریکہ کی گرگ شنائی نے خطے میں امریکہ کی تزویراتی اور نئے زاویوں کی سوچ سب پر منکشف کردی تھی۔اوبامہ نے بھارت نوازی میں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے۔ راقم الحروف کے زہن میں ہنری کسنجر اور اوبامہ کے دل نواز جملے نے اس وقت جمائی و انگڑائی لی جب یار لوگوں نے لزبن کانفرنس میں پاکستان کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ افغانستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے درمیان دریائے پنچ بہتا ہے۔کابل میں امریکی اور ناٹو فورسز کی امد کے بعد اٹلی نے3 کروڑ70 لاکھ روپے کی لاگت سے اس دریا پر پل تعمیر کیا جو اب امریکن انجیرنگ کور کے زیر استعمال ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں یہ پل وسطی اور جنوبی ایشیا کے مابین اہم ترین سنگ میل ثابت ہوگی مگر یہ پل روس اور سنٹرل ایشیائی ریاستوں کے لئے وبال جان بن چکا ہے کیونکہ یہ پل ان ملکوں اور وسطی ایشیائی خطے میں منشیات کی ترسیل کی سب سے بڑی گزر گاہ بن چکی ہے۔ امریکنcia کی سرپرستی میں یورپ سنٹرل ایشیا اور روس منشیات کی سمگلنگ کے بین الاقوامی اڈے بن چکے ہیں۔ شائد یہ بنیادی نقطہ تھا جس کے پیش نظر جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام کے انسٹیٹیوٹ نے اسلام اباد میں لزبن کانفرنس سے پہلے دو روزہ سیمینار بعنوان (تنازعہ افغانستان میں رشین کردار )منعقد کیا۔ سیمینار میں پاکستان روس اور افغانستان کی چنیدہ اور سربردہ شخصیات نے شرکت کی۔ پاکستان کے مقتدر ادارے کے نامی گرامی زعما کی موجودگی قابل دید تھی۔ افغان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر میر وائس یسینی ،پاکستان میں قائم مقام افغان سفیر اور تزیروارتی معاملات میں مہارت رکھنے والے روسی کرنل کولا کوف کی شرکت کے باوجود خطے کی دو اہم طاقتوں کی غیر موجودگی کے احساس نے سیمینار کے رنگ کو پھیکا کردیا۔ورکشاپ کی مباحث اور مقررین کی تجاویز خاصی قیمتی اور اہم تھیں مگر دکھ تو یہ ہے کہ یہ سیمینار ایک ایسے موقع پر منعقد ہوا جب وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا تھا۔ اگر سیمینار کے موضوعات کو عالمی جنگ سے پہلے ایجنڈے کا حصہ بنا دیا جاتا اور حساس نو عیت کے فیصلوں سے جنگ کے داخلی اثرات کا جائزہ لے لیا جاتا تو ہمیں سانپ کے بھاگنے کے بعد لکیریں پیٹنے کی مشقیں بار بار نہ کرنی پڑتیں۔ پاکستان روس اور افغانستان کے باہمی کوارڈینیشن سے منعقد ہونے والی ورکشاپ کا مقصد دراصل پرتگال میں ہونے والی ناٹو ممالک کی لزبن کانفرنس کے دوران خطے میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی ایک کوشش تھی۔ اس موقع پر ہماری چھٹی حس ہمیں ماضی کا ایک واقعہ قلم بند کرنے کی ترغیب دے رہی ہے جسکا تذکرہ بر محل ہوگا۔9 دسمبر1971 میں پاکستان کی کوتاہ اندیش اور ہٹ دھرم مقتدرہ نے صاف دکھائی دینے والی شکست اور3 دسبر1971 میں مغربی سرحدوں پر بھڑکنے والی اگ سے بدحواس ہوکر نور الامین کو وزیراعظم بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ نامزد کردیا۔ بھٹو کو حلف اٹھوائے بغیر مقتدرہ کے گناہ دھلوانے کے لئے نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھجوادیا تھا۔ کہاوت ہے کہ ریچھ سے اسکا ایک بال بھی مل جائے تو کافی ہے۔ پرتگال کے کیپٹل لزبن میں ٹاٹو اتحادیوں کی کانفرنس میں کابل سے ناٹو فورسز کے انخلا کی توثیق کردی گئی۔ نیٹو کانفرنس میں امریکہ نے جنگ کے فرنٹ لائنر اور نان الائنس اتحادی پاکستان کو کانفرنس اور اسکے فیصلوں کی بو سے بھی دور رکھا ۔یوں ہماری مقتدرہ کی ساری خوش گمانیوں کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں ٹوٹ چکا ہے۔ لز بن کانفرنس کے مندوبین کے خیالات اور ارا جبکہ فیصلوں کے تناظر میں یہ سچائی بے نقاب ہوچکی ہے کہ پاکستان کو افغان معاملات سے دور رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور ہمیں اپنے خطرناک تزویری اثاثوں کا بوجھ اٹھا کر عالمی تنہائی کے سفر کی راہ دکھا دی گئی۔ کیا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ نہیں ہمیں کسی حال کا بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ہم تو افغانستان میں بھاگتے چور کی لنگوٹی کو لوٹنے میں معاونت کے لئے روس کا کردار ادا کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے مگر لزبن کانفرنس میں ہماری میز ہم پر الٹاتے ہوئے بال اور لنگوٹی دونوں چھین کر سب کچھ سفید ریچھ کے سپرد کردیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ لزبن کانفرنس کا غیر اعلانیہ اہم نقطہ یہ تھا کہ پاکستان کو سارے معاملے سے دور رکھا جائے۔سپلائی کا سارا کام ماسکو کے چرنوں میں ڈال دیا گیا۔ لزبن کانفرنس کے اعلامیے کا اہم ترین پوائنٹ یہ تھا کہ افغان فورسز مرحلہ وار افغانستان کی سیکیورٹی کے معاملات خود انجام دیں گی۔ ناٹو فورسز کے انخلا کی توثیق امریکہ اور یورپ کو معاشی تباہی سے بچانے کی کوشش ہے یا طالبان سے ڈائیلاگ کی شرط کا شاخصانہ یہ سوچنا ساون کے اندھوں کا کام ہے جو ہر وقت یہ راگنی بجاتے پھرتے کہ امریکہ اور اتحادی سوویت یونین کے حشر سے دوچار نہیں ہونگے کیونکہ ساری دنیا اور مسلم حکمرانوں کی امداد اور استعانت امریکہ کو حاصل تھی۔ کم ہمت بے حوصلہ اور زہنی طور پر شکست خوردہ امریکی اور مغربی فوجیوں کو اگر انخلا کی نوید نہ دی جاتی تو اعصاب شکستگی میں مبتلا سپاہی میدان جنگ سے فرار ہوکر روسیوں کی یاد تازہ کردیتے۔غیور ، ناخواندہ، پسماندہ، اپنوں اور غیروں سے ڈسے ہوئے زخم خوردہ افغان عسکریت پسندوں نے امریکہ یورپ اور طاقتور ترین ممالک کی متحدہ افواج کا عزیمت و استقامت سے مقابلہ کیا ہے وہ صرف اور صرف جذبہ جہاد کی سرشاری کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان سے بلوچستان اور کوئٹہ کو ڈرون حملوں کی مقتل گاہ بنانے کی اجازت کی تھی مگر پاکستان نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پینٹاگون بلوچستان کے شہری علاقوں کو ڈرون حملوں کا ٹارگٹ بنانے کا منصوبہ بنا چکا ہے مگر پاکستان کسی صورت میں کوئٹہ پر شب خون مارنے کی اجازت دینے پر راضی نہیں۔ہوسکتا ہے کہ پاکستانی انکار کے بعد امریکہ نے لزبن کانفرنس میں پاکستان کو رسوا کرنے کا فیصلہ کیا ہو؟یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ نے بھارتی قیادت کو رام کرنے کے لئے ایسی گھناوئنی ساز ش کی ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو دانش مندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان لزبن کانفرنس میں رکھے جانیوالے ناروا اور دوست کش رویوں کے تناظر اور ہنری کسنجر اور صدر اوبامہ کے محولہ بالا جملوں کی روشنی میں ازادانہ غیرت مندانہ اور خود مختیارانہ پالیسی تشکیل دے۔ بلوچستان میں ڈرون حملوں سے انکار کے اعلان پر قائم رہے۔شمالی وزیرستان میں اپریشن کرنے کے مطالبے کو پہلے کی طرح رد کردے تاکہ لزبن کانفرنس کی بے عزتی کا مردانہ وار بدلہ چکایا جائے۔

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved