اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔29-11-2010

جرنیلوں کی بہادریاں؟

کالم     ۔۔۔     روف عامر پپا بریار

خود غرضی ہٹ دھرمی اکڑفوںکی بدشکل رکھنے اور دوسروں کوجانور اور کیڑے مکوڑے سمجھ کر احسا س تفاخر کے نشے میں دھت رہنے والا شقی القلب شخص ڈکٹیٹر تو ہوسکتا ہے مہذب انسان نہیں۔ امر مرتے دم تک اپنی خود ساختہ بالادستی اور خام خیالی کے خول میں بند رہتے ہیں۔اگرجنرل مشرف کی جرنیلی اور امریت کو نقد و نظر کے ترازو میں تولا جائے تو انکا شمار اسی قبیل کے امروں میں ہوتا ہے۔ جو اپنی رعونت امیز جبلت کی تسکین کے لئے اپنی رعایا کو تو مکے دکھا کر اپنی دیوتائی کے سامنے سرنگوں کرنے کا حکم دیتے ہیں مگرانکی مردانگی اور پامردی کا ٹائر پنکچر ہوجاتا ہے جب وہ ایک فون کال پر نہ صرف قالین کی طرح بچھ جاتے ہیں بلکہ لیلائے اقتدار کے مجنوں کااعزاز پانے کے لئے ریاستی سلامتی خودمختیاری اورازادی کا جنازہ نکالتے ہیں۔ میں جب بھی جنرل مشرف کے مکے کا منظر دیکھتا ہوں تو ایسے ڈکٹیٹروں کی بہادری کے کھوکھلے پن کی تاریخ خون کے انسو رلا دیتی ہے کیونکہ اس کھوکھلے پن نے ایک طرف پاکستان کو دو حصوںمیںکاٹ دیا تو دوسری طرف جمہوریت مساوات رواداری اور انسانی حقوق کی کارفرمائی کے نام پر حاصل کردہ ملک کی نظریاتی اساس کی جڑیں تک سوکھ گئیں جسکا بھیانک نتیجہ برامد ہوا اور پاکستان کو لسانی گروہی تضادات دینی کشاکش دہشت گردی بے روزگاری اور غربت کرپشن ناانصافی اور انتشار نے چاروں اطراف سے گھیر لیا ۔ قوم ایسے اندھے کنویں میں گرچکی ہے جہاں نہ توباہر نکلنے کا راستہ ہے اور نہ روشنی۔ سکندر ٓعظم نے راجہ پورس کو شکست دی تو اسے پایہ زنجیر فاتح کے سامنے پیش کیا گیا۔سکندر اعظم نے پوچھا کیا سلوک کیا جائے تو پورس نے باوقار انداز میں جواب دیا جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ سکندر نے پورس کو فوری رہا کردیا۔ جنرل رومیل کا شمار یورپ کے جہاندیدہ جرنیلوں میں کیا جاتا ہے جو میدان جنگ میں صد فیصد شکست کو فتح میں بدلنے کا بادشاہ تھا۔رومیل نے جنگ عظیم میں اتحادیوں کے کس بل نکال دئیے ۔ جرمن چانسلر ہٹلر نے اسے مصر کے محاز سے واپس بلالیا۔رومیل نے ہٹلر کے فیصلے کوبے عزتی سے منسوب کیا اور واپسی کے سفر میں زہر کھا کر موت کو گلے لگالیا۔رومیل نے اپنے ساتھ سفر کرنے والے فوجی دستے کو کانوں کان خبر نہ ہ ہونے دی۔ ہٹلر غیرت مند حکمران تھا۔اتحادی فوجیں فاتح کی حثیت سے برلن میں داخل ہوئیں تو ہٹلر کو زندہ گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔اتحادیوں نے ہٹلر کے محلات دفاتر اور رہائشگاہوں کا کونہ کونہ چھان مارا مگر وہ چھلاوے کی طرح ایسا گم ہوا کہ ہٹلر کی موت اج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔تاریخ لکھتی ہے کہ ہٹلر نے کسی نامعلوم جگہ پر خود کشی کرلی۔وہ شکست کا داغ لیکر دشمنوں کے سامنے جانے پر راضی نہ تھا۔ برصغیر میں ٹیپو سلطان رائے احمد کھرل جھانسی کی رانی سید احمد شہید غازی علم دین شہید سمیت درجنوں ایسے حریت پسند جرنیل تاریخ کے سنہری ابواب میں جھلملا رہے ہیں جنہوں نے استعماریوں کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے اخری سانسوں تک پائے استقامت سے سربکف ر ہنے کو ترجیح د ی اور پھر شہادت کے بعد ہی افرنگی انکے جسد خاکی کو چھونے میں کامیاب ہوسکے۔1965 کی پاک بھارت جنگ میں باہمت فوجی جوانوں نے چھمب چوڑیاں سیکٹر، سیالکوٹ قصور اور BR CANAL کے راستے پاکستانی سرحد عبور کرنے والے ٹینکوں اور سپیشل فورسز کے جتھوں کو انسانی بموں سے پسپا کرکے اوللعزمی کی تابناک داستانیں رقم کیں جو اج تک تاریخ کے ماتھے پر پتھرا رہی ہیں ۔ فوجی جانثاروں نے مایوسیوں کی تاریک پرچھائیوں میں خون جگر سے امیدوں کے چراغ روشن کئے اور وطن کی سلامتی پر انچ نہ انے دی۔1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں فوجی جوانوں نے جرات رندانہ اور جنون بادہ پیمائی کے کئی معرکے سرانجام دئیے جو جرنیلوں کی اخلاقی گراوٹوں اور بذدلانہ پالیسیوں کی وجہ سے شکست کے غبار تلے دھنس گئے۔ ایسٹرن کمانڈ کے دیسی ٹائیگر جنرل نیازی نے سرنڈر کا اعلان کیا تو کئی محازوں پر فوجیوں نے حکم عدولی کرتے ہوئے جنگ جاری ر کھی۔ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ اسلحہ تو دور کی بات ہے وہ اپنے اپکو دشمن کے حوالے کرنے کی بجائے موت کی راہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی شام غریباں چھاگئی مگرٹینک مین حوالدار سرور نے اگلے تین دنوں تک اکیلے دشمنوں پر گولے داغنے کا جہاد جاری رکھا۔وہ بھارتی میجر سمیت پندرہ فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہوا۔ شہادت کا فلسفہ صرف دین اسلام نے پیش کیا۔ شہادت کا ڈاکٹرائن اور شہید کا مقدس رتبہ مومن کو میدان جنگ میں مارنے یا مرجا نے کی ترغیب دیتا ہے۔شہید کا مقام پانے کی خواہش ہر مسلم دل میں دھڑکتی ہے۔ غازی یا شہید بننا مسلم سپاہیوں کو نیا ولولہ اور جوش عطا کرتا ہے یہ وہی جذبہ ہے جو مٹھی بھر مجاہدین کو جدید کیل کانٹوں سے مسلح ہزاروں لاکھوں کے لادین لشکر پر غلبے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اسی جذبے سے محروم کرنے کے لئے مغرب نے سینکڑوں ہتھکنڈے استعمال کئے۔مسلمانوں کو دہشت گرد اور اسلام کو شدت پسندی سے جوڑ کر امریکہ اور اتحادیوں نے عراق اور کابل کو اگ و خون کے دریا میں بہا دیا مگر حیف اس ولولہ تازہ کے مخصوص تشخص کو اج تک مسخ نہیں کیا جاسکا۔ کشمیر فلسطین عراق اور افغانستان میں اسی حریت کیش افکار نے استعماریوں کو دن میں تارے دکھا رکھے ہیں۔ جنرل نیازی نے سرنڈر کے وقت اپنا ریوالور جنرل اروڑہ کے سپرد کیا تھا جسے بھارت میں پاکستان کی تذلیل کے لئے عجائب گھروں میں سجا کر رکھا جاتا ہے۔ بھارتی فوج میں بھرتی ہونے والے رنگروٹ سپاہیوں اور افیسروں کو اسکی زیارت کروائی جاتی ہے تاکہ افواج پاکستان کو شکست خوردہ اور کم تر ثابت کیا جائے۔جنرل نیازی کے سرنڈر کا طریقہ واردات انتہائی شرمناک تھا۔ بادہ ساغر و جام کی نسل سے تعلق رکھنے والے یحیی خان اور دیسی ٹائیگر سمیت ضیاالحق اور مشرف پاکستان کے علاوہ امت مسلمہ کے چہرے پر کلنک کا ٹکہ ہیں جن کی کارستانیاں اور بداعمالیاں ہماری انے والی نسلوں کو بھی بھگتنی پڑیں گی۔ یحیی اور دیسی ٹائیگرنے وسکی کے جاموں اور شراب و کباب کی محفل خرابات میں ادھا ملک دفن کیا تو ضیا اور مشرف نے امریکی کاسہ لیسی کا کردار نبھاتے ہوئے قوم کو گروہوں میں تقسیم کردیا ۔ مذہبی فسادات خود کش حملوں افراتفری ٹارگٹ کلنگ منشیات کی سمگلنگ اور خیبر سے کراچی تک کلاشنکوف کلچر دنگے فساد اور انتہاپسندی جمہوریت کی بیخ کنی ہارس ٹریڈنگ نے ملک کا ستیاناس کردیا۔ جنرل نیازی اور ایوب خان ننگ ملت و ننگ دین جبکہ مشرف و ضیا یہود و ہنود کے کل پرزے میر جعفر و میر صادق تھے۔ اگر جنرل نیازی اور یحیی خان کو نشانہ عبرت بنایا جاتا تو یہ مملکت خداداد انے والے امروں کی بدبو سے محفوظ رہتی۔ جنگوں میں فتح اور شکست ہوتی رہتی ہے مگر چند جنگیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں قوموں کے مستقبل کی خاطر کمانڈروں اور سربراہوں کے لئے سرنڈر رومیل اور ہٹلر کی طرح اخود کشی ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ جنرل نیازی اگر دنیاوی زندگی کے چند سالوں کے لئے سرنڈر کی بجائے اپنے اپکو گولی سے ہلاک کردیتا تو وہ تاریخ کا حصہ بن کر ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں روشنی بن کر چمکتا۔ ایک جان کی خاطر مستقبل کی نسلیں رسوائی سے بچ جاتیں تو یہ مہنگا سودا نہ تھا۔ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ افواج پاکستان کے دوچار امروں نے قوم کو زلت امیز تحائف اور شکست کے داغ دئیے اور گنے چنے جرنیلوں نے پاکستان کو امریکہ کی طفیلی ریاست بنا دیا جہاں ہر سو خون کی ہولیاں بہہ رہی ہیں لاقانونیت دھینگا مشتی خود کش بمباروں کی سفاکیت شدت پسندی اور سیاسی انتشار زوروں پر ہے۔پاک فوج کے جری جرنیل پرویز کیانی نے افواج کو سیاسی اکھاڑے سے نکال کر اپنے پروفیشن کی جانب مائل کردیا۔ پاک فوج کے موجودہ سرخیل پرویز کیانی صدر مملکت زرداری یوسف رضا گیلانی اور اپوزیشن جماعتیں باہمی رواداری اور گفت و شنید سے ایک طرف ہنگامی اقدامات اٹھائیں کہ مستقبل میں کسی دیسی ٹائیگر کو کسی کو اروڑہ کے سامنے سرنڈر کی ضرورت پیش نہ ائے اور دوسری طرف ساروں کا فریضہ ہے کہ وہ پاکستان کو صنعتی معاشی دفاعی اور جموری میدان میں اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے ساتھ امریکی غلامی کے قہر سے ازاد کروائیں امریکہ پاکستان کا کبھی دوست نہیں بن سکتا ۔ہاتھی چاہیے کتنا مہذب کیوں نہ ہو وہ سونڈ ہلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک جنرل مشرف کے مکوں کا تعلق ہے تو وہ ایسی اداکاری چھوڑدیں اور اخرت کے رخت سفر کی تیاری فرمائیں ویسے اجکل میلوں کے موسم میں لگے ہوئے ہر چڑیا گھر میں گیدڑوں کی بہتات ہے جو تماش بینوں کا استقبال کھڑے ہوکر کرتے ہیں بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جیسے ساروں نے انسانوں پر مکے تان رکھے ہوں
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved