اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔03-12-2010

تو ہین رسالت پر غو وخوض کیوں نہیں؟

کالم  ------------ روف عامر پپا بریار


پاکستان میں اجکل توہین رسالت کا موضوع میڈیا ، عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ ۔توہین رسالت کی ملزمہ اسیہ بی بی کی معافی کے تنازعے پر حکومت وقت درد ناک تنقید کی زد میں ہے ۔ صدر نے اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کی اپیل اور دلائل کے ساتھ اتفاق کیا۔ اقلیتی کیمونٹی کی ملک بھر میں نمائندگی کے اعزاز ہولڈر شہباز بھٹی کہتے ہیں کہ امتناع توہین رسالت قوانین کی ظالمانہ شقوں کو ختم کیا جائے۔ دنیا بھر میں قوانین کی ترامیم چنداں معیوب نہیں تاکہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو تاکہ بے گناہوں کو بچایا اور عادی مقدمہ باز دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کو ممکن بنایا جائے مگر ایسے کسی قانون جو ریاست کے نوے فیصد ابادی کے جذبات اور احساسات کا مظہر ہو اسے بیک جنبش قلم ترامیم کی زد میں لانا عوامی غیض و غضب کو دعوت دینے اور بچگانہ سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔توہین رسالت کے حوالے سے مسلمانوں کی حساسیت کا مخصوص پس منظر ہے۔ متحدہ ہندوستان اور سپین میں توہین رسالت کے واقعات انفرادی نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ اس وقت وقوع پزیر ہوئے جب دنیا بھر میں دین اسلام کے احیا کی تحریکوں نے زور پکڑا اور مسلمانوں نے اسلام کی گمشدہ عظمت رفتہ کی دوبارہ حاکمیت کے احیا کے لئے کوششیں شروع کیں۔ شاتمین رسول رشدی اور تسلیمہ نسرین کی یورپ میں زبردست او بھگت کی جاتی ہے جو بغض اسلام کی مذموم اور روز روشن مثال ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کے خون سے جہاد و اسلام کی عقیدت و یگانگت کے عناصر کو کشید کرکے مسلمانوں کے ایمان و ایقان کی شیرازہ بندی کے ہزاروں مذموم ہتھکنڈوں استعمال کئے جو یک جسم یک جان بنے ہوئے مسلمانوں کے خون میں گروہی مذہبی نسلی اور لسانی تفرقہ بندی کا زہر ملانے میں کامیاب ہوئے۔مسلمانوں کی تنزل پزیری میں یہی عوامل پیش پیش ہیں۔ توہین رسالت میں ترامیم یا ختم کرنے کی کوششیں مسلمانوں کے بدن سے روح محمد نکال کر متاع دین و ایمان سے محروم کرنے کی سازش ہے۔ ترامیم کے نام پر اگ بگولہ بنے ہوئے مسلمانو ں اور مولویانا لانگ مارچ کے شرکا علما و فضلا کو اپنا ریکارڈ درست کرکے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پیغمبر انسانیت نے اپنی زیست حیات کے دوران کئی شاتمین کو معاف کردیا تھا۔ ہندوستان پر راج کرنے والے مغل شہنشاہوں کے درباروں میں اکثر فیصلے قران حدیث اور فرامین رب کی روشنی میں کئے جاتے تھے۔ مغلوں کی گوشمالی کے بعد گورنر جنرل کی ہداہت پر لارڈ میکالے کی سربراہی میں قائم کمیشن نے1862 میں انڈین پینل کوڈ تخلیق کیا جو فوری طور پر نافذ ہوگیا۔1892 میں گورے قابضین نے تعزیرات ہند میں A ۔ 124 شامل کیا جسکے مطابق انگریز سرکار کے خلاف منافرت پھیلانے کے جرم میں عمر قید کی سزا مقرر ہوئی۔1892 میں ہی برٹش تھنک ٹینکس نے تعزیرات ہند میں شق نمبر153کی پیوندکاری کی جو حکومت کے علاوہ تقریر و تحریر یا ارشادات عالیہ سے رعایا کی مختلف جماعتوں کے درمیان منافرت پھیلانے اور فساد کروانے والے ملزموں کو دو سال قید کی سزا اعلان پر مشتعمل ہے۔ غازی علم دین کا مقدمہ اسی شق153 کے تحت قائم ہوا تھا۔ شاتمین رسول اور توہین رسالت کے مقدمہ جات شق153 کے تحت چلائے جاتے تھے۔ راج پال نامی پبلشر نے رنگیلا رسول نامی کتاب شائع کی جس کی پاداش میں علم دین شہید نے اسے اگلے جہاں بھیج دیا۔زیلی عدالتوں میں ناشر کو سزائیں دی گئیں مگر بڑی عدلیہ نے راج پال کو معاف کردیا جس نے مسلمانوں کی رگوں میں بہنے والے کافوری خون گرما دیا ۔عدلیہ سے انصاف نہ ملنے پر مسلمان مایوس ہوچکے تھے یوں غازی علم دین شہید نے گستاخ رسول کوخود سزا دینے کی ٹھان لی۔ شاتم رسول کی ہلاکت پر علم دین کو موت کا پروانہ ملا وہ سولی پر لٹک کر زندہ جاوید بن گیا۔ پاکستان میںدفعہ نمبر153 کی جگہ295.A نے لے لی اس شق میں مذہبی عقائد کی بے حرمتی پر دوسال کی قید دی جائیگی۔1980 میں شق نمبر298 قانون کا حصہ بن گئی ۔اس شق کے مطابق جو شخص اصحابہ کرام اہل بیت اور امہات الا مومنین خلفائے راشدین کی شان میں کسی قسم کی ہرژہ سرائی طعنہ زنی اور بہتان تراشی کریگا وہ تین سال جیل کی سلاخوں کا دولہا ہو گا۔1984 میں قومی اسمبلی نے ایکٹ نمبر295 C کی منظوری دی کہ شاتم رسول کو موت کی سزا دی جائے گی چاہے گستاخی قلم سے ہو یا زبان سے اشاروں میں کی جائے یا تحریر کا سہارا لیاجائے اہانت رسول بلواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ توہین تنقیص اور بے حرمتی کرنے والا بھی اسی زمرے کا ملزم ہوگا۔پاکستان میں توہین رسالت کے موجودہ بل کوفیڈرل شرعی کورٹ کے 5 ججز چیف جسٹس گل محمد خان جسٹس کنڈی جسٹس رزاق تھیم عبادت یار خان اور ڈاکٹر فدا محمد خان نے30 اکتوبر1990 میں ترامیم کے ساتھ منظور کیا تھا۔ قران کریم میں رب تعالی فرماتے ہیں کہ تمھارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ اسلام کی اساسی تعلیمات میں اپکی اطاعت محبت لازم جبکہ نافرمانی اور ازیت دینے کو حرام قراردیا گیا ہے۔ امت کا مفاد اسی میں ہے کہ اس عظیم ترین محبوب دوجہاں کے مرکزی حقوق اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ہی نئی نسلوں کو تعلیمات نبوت اور اسوہ حسنہ سے اشنا کیا جائے۔ حضرت محمد صلعم معاشرے کے امن اور اصلاح کے لئے لازم ہے کہ اپکی محبت و عقیدت میں فرق نہ ائے ۔ درد دل مسلم مقام مصطفی است ابروئے ماز نام مصطفی است۔ یہ حقیقت بھی الم نشرح ہے کہ توہین رسالت کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اسی لئے اگر کوئی ترامیمی سقم قانون کے جارہانہ لغو استعمال کو روک سکتا ہے تو پھر شرف انسانیت کی کارفرمائی کے لئے ترامیم پر چابک مارنے سے گریز کیا جائے۔ حضرت محمد کی ہزار ہا شانوں اور تکریم میں سے دو ممتاز ہیں۔ اپ بنی نوع انسان ہیں یوں اشرف المخلوق ہیں اور اشرف المخلوقات میں اپ اشرف ترین ہیں۔اولاد ادم میں سے ایک شخص ایسا نہیں جو زات کمالات اور صفات کی رو سے اپکہ ہم پلہ بن سکے۔ اللہ پاک اپکی محبت کو اپنی محبت اور اپکی اطاعت کو اپنی اطاعت گزاری کا نام دیتے ہیں۔ اللہ پاک اپکی توہین کرنے والوں کو جہنمی اور ملعون کا نام دیتے ہیں۔ توہین رسالت جرم عظیم اور حرام ہے۔حضرت محمد ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے عرصہ میں ایذا دینے والے شاتمین کو معاف کردیا اور انکی ہدایت کے لئے دعا مانگی۔ رب کے محبوب ترین نبی نے راہ میں کانٹے بچھانے اور گند پھینکنے والی عورت کو معاف کردیا۔ابو سفیان ہند ہ وحشی کو معاف کرنے کے واقعات سے حضرت صلعم کی محبت انسانی اور احترام ادمیت اور اعجاز و افتخار کے مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ہوگا۔ کوئی مسلمان اپکی شان میں گستاخی کا تصور نہیں کرسکتا۔اپکی اطاعت گزاری دنیا اور اخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ ہم مسلمان دو رخی رویوں کو سینے میں جگہ دے چکے ہیں۔ایک طرف مسلمانوں کی نبی کریم کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اگر مغربی ملکوں میں توہین رسالت کا واقعہ ہوجائے تو ہم احتجاج کے لئے سڑکوں پر کود پڑتے ہیں ۔جلاو گھیراو اور تشدد سے گریز نہیں کرتے مگر دوسری طرف ہمارے ارد گرد روزانہ بیک وقت توہین رسالت کے کئی کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں مگر ہم نظریں جھکا کر چلتے بنتے ہیں کیا یہ توہین رسالت نہیں؟ کیا دفاتر میں ہونے والی کرپشن، تھانوں میں ہونے والا تشدد، استحصال، زخیرہ اندوزی مہنگائی قانون شکنی تفرقہ پرستی دینی و مذہبی دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے توہین رسالت کے زمرے میں نہیں اتے؟ کیا ہم خود قدم قدم پر توہین رسالت کے مرتکب نہیں ہوتے؟ جناب سب سے پہلے ہمیں اپنا احتساب کرکے فرامین رسول ﷺ تعلیمات خدا اور ارشادات قران کو نہ صرف سمجھنے کی کوشش کی جائے بلکہ دنیاوی سکون کے لئے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنی چاہیے ورنہ یاد رہے کہ بروز حشر ہمارا شمار بھی شاتمین رسول کی صفوں میں ہوگا؟ مغرب میں ہزاروں دانشروں ریسرچ سکالرز نے حضرت محمد کو پوری انسانیت کے علمبردار کا نام دیا۔انگلش تاریخ دان مائیکل ہرٹ کئی دہائیاں ریسرچ کرکے کسی عظیم ہستی کو تلاش کرنے میں ہلکان رہے جو حضرت محمدﷺ کا مقابلہ کرسکے مگر اسے ناکامی ہوئی۔یوں نان مسلم سکالر مائیکل ہرٹ نے روئے ارض کی 100عظیم و مدبر شخصیات میں سے پہلے نمبر پر محبوب خدا حضرت محمدﷺکا نام درج کیا۔ برطانوی مصنفہ کیرن نے اپنی کتاب

preaching of islam

میں مغربی میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام رواداری مساوات کا پرچار دین ہے جو تشدد اور تلوار کی بجائے مسلمانوں کے طرز عمل انصاف امن و امان اور مساوات کے سنہری عوامل کی وجہ سے روئے ارض کے ہر کونے میں جگمگانے لگا۔

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved