اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔05-12-2010

ایٹمی طاقت کی تاریخ اور ڈاکٹر خان

کالم  ------------ روف عامر پپا بریار

 
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ابتدا سے ہی مغرب امریکہ اور اسرائیل کے لئے سر درد بنا ہوا ہے۔ استعماریت سرمایہ داریت کے پرتش کار صہیونیوں کو زعم تھا کہ پاکستان چاہے جتنا زور لگالے وہ جوہری بم کی شکل کا دیدار نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ہمیشہ سے ہی خطرات خدشات اور وہم و وسوسوں نے گھیرے رکھا۔ امریکی سرپرستی میں مغربی ایجنسیاں کہوٹہ پلانٹ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازشیں کر تی رہیں مگر یہود و ہنود کی شرپسندی کوپچھلی چار دہائیوں میں نامرادی اورکم ظرفی کے علاوہ کچھ ہاتھ ایا۔ اسلام دشمن عناصر اور یورپی میڈیا تو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف لغویات اور بکواسات پر مبنی ہزاروں من جھوٹے پلندے چھاپتے رہتے ہیں تاکہ اقوام عالم کے نذدیک دہشت گردی اور جوہری طاقت کو جوڑ کر اسے دنیاوی امن کے لئے زہر قاتل ثابت کیا جائے اور پھر عالمی طاقتوں اور امریکن نواز عالمی اداروں کے تعاون سے اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔
یہود و ہنود اور اغیار کی جوہری طاقت پر دہشت گردی، غیر محفوظ ہاتھوں اور دیگر ننگے و گنجے الزامات پر اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی سیاسی جماعتوں حکمرانوں یا ہمارے کسی شعبہ زندگی سے منسلک ہم وطنوں کی جانب سے جوہری اثاثوں کے متعلق حقائق سے مبرا گفتگو کی جاتی ہے تو دل خون کے انسو ندی کے پانی کی طرح بہنے لگتا ہے۔ مشرف دور میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو نظر بندی کے وحشیانہ اندھیروں میں ڈالا گیا تو انکے خلاف عالمی اور مشرف نواز میڈیا نے خوب طوفان برپا کیا۔اہل پاکستان کی نظروں میںڈاکٹر کیو اے خان کا بلند المرتبت مقام مجروح کرنے کے کئی افسانے اور قصے سننے کو ملے۔سائنس دانوں کے ایک گروپ اور ایٹمی اداروں کے کئی ماہرین نے مسلم امہ کے اس ہیرو کے ساتھ ہیراپھیری کی گئی کہ ڈاکٹر کیو اے خان کو ایٹمی بم کا بانی نہیں کہا جاسکتا۔ ڈاکٹر کیو اے خان پر ایران اور لیبیا کو جوہری پرزہ جات مہیا کرنے اور اربوں کی کرپشن کا مجرم بنایا گیا۔ امریکی خوشنودی کے لئے امت مسلمہ کے اس ہیرو پر قید و بند اور افترپردازی سمیت دیگر پر اشوب مشکلات مسلط کرنے کا جو سفر دور مشرف میں شروع ہے وہ اج تک کسی نہ کسی رنگ میں قائم ہے۔ ایک خبر کے مطابق ملتان میں ہونیوالے دو سیاسی کنونشنوں میں سیاسی راجوں اور مہاراجوں نے جوہری قوت کا سہرا اپنی اپنی جماعتوں کے سر باندھنے کے لئے سچائی حقائق کا گلا کھوٹنے کی بھرپور جدوجہد کی۔ہر کوئی اپنے سیاسی مفادات کی روشنی میں اٹامک ہسٹری کو مسخ کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ایران اور شمالی کوریا نے ایٹمی شعبے میں جو ناقابل تصور کامیابیاں اپنی قوموں کے سپرد کیں اسکا کریڈٹ قومی اتحاد یکجہتی اور ملکی وحدت کو حاصل ہے۔ مختلف الخیال و نظریات کے پرتش کار کورینز اور ایرانیوں نے ایٹمی قوت کے معاملے میں حکومت کا ہاتھ بٹایا۔ایران اور شمالی کوریا کو جب کبھی استعماری اور سامراجی اقاووں کی طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں تجارتی پابندیاں لگائی جاتی ہیں یا جب کبھی قوم کو جوہری طاقت پر کہیں سے انے والی انچ کے خدشات کا اندیشہ لاحق ہوا تو ساری قوم سربکف ہوکر حکمرانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔کسی دانشور کا قول ہے کہ قومی یکجہتی بھائی چارے اتحاد و اتفاق کے بغیر کسی قوم کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی بیشک وہ معاشی دفاعی اور صنعتی طور پر روئے ارض کی سپرپاور ہی کیوں نہ ہو؟ ن لیگ دعوی کرتی ہے کہ نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی قوت کا گوہر مقصود بخشا ہے۔نواز شریف نے پہلی وزارت عظمی کے دوران صوبہ سرحد میں جلسے میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔ متوالے28 مئی کو ہر سال یوم تکبیر منا کر اپنے رہنماوں کو جوہری طاقت کا تخلیق کار کہتے ہیں۔ دیہاتوں میں تعمیراتی پراجیکٹس کے ساتھ سائن بورڈ اویزاں ہوتا ہے جس پر متعلقہ حکمرانوں اور اسمبلی ممبران کی تصویریں چسپاں ہوتی ہیں تاکہ عوامی خدمات کو اجاگر کیا جائے تاکہ انکی مقبولیت و شہرت میں اضافہ ہو مگر جونہی اپوزیشن اقتدار میں اتی ہے تو منظر نامہ بدل جاتا ہے سائن بورڈ تو وہی ہوتا ہے مگر تصویریں الفاظ اور معنی مختلف ہوتے ہیں۔پاکستان میں یہ وبا گلی گلی کوچے کوچے تک پھیل چکی ہے۔ن لیگ کے لایعنی دعووں کی حثیت سائن بورڈ سے لگا کھاتی ہے۔لیگی ایک طرف ایٹم بم کی ایجادات کو اپنے لیڈر کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو دوسری طرف اسکا سارا کریڈٹ ڈاکٹر خان کو دیا جاتا ہے جو درست نہیں۔ جوہری بم کی ایجاد میں ہزاروں لوگ سرکھپاتے ہیں۔ جوہری وار ہیڈ کے لئے افزودہ یورینیم ناگزیر ہے جسے حاصل کرنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔یورینیم کی مائنگ و ملنگ کے بعد جوyello cake بنتا ہے اسے یورینیم بکسا فلورائیڈ میں ڈھالنا پڑتا ہے۔اس عنصر کے بغیر یورینیم کی افزودگی ممکن نہیں۔ یورنیم اکسائیڈ بجلی گھروں کو چلانے کے لئے ایندھن کا کام دیتا ہے۔ سنڈے ٹیلی گراف نے جون1999 کو ہمارے ایٹمی دھماکوں پر تفصیلی سائنسی رپورٹ شائع کی تھی۔رپورٹ کے مطابق افزودہ یورینیم کوufb گیس اور پھر اسے دھات میں ڈھال دیا جاتا ہے۔یہی دھاتی راڈز وار ہیڈز میں فکس کئے جاتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کو اپریشنل بنانے کے لئے دو اہم مشینوں و پرزہ جات کی ضرورت پڑتی ہے جن میں ایک دھماکہ کرنے والی ڈیوائس اورtragger mechanism شامل ہیں۔ہتھیاروں کی تیاری کے بعد نیوکلیر فیول کی خاصی مقدار کی موجودگی لازمی ہوتی ہے ۔ سینکڑوں کولڈ ٹیسٹ میں فیول انرجی استعمال ہوتی ہے۔کیا کوئی لیگی یا متوالا یہ اطلاع دے سکتا ہے کہ ابتدا سے چاغی تک کے پر اشوب سفر میں کس نے کیا کارنامہ انجام دیا؟ میری زاتی ناقص العقل رائے کے مطابق متوالے جنکا احساس تفاخر28 مئی کو گردن سے چار فٹ اونچا چلاجاتا ہے. اکثر ہم وطنوں کی طرح لیگی پاکستان کے جوہری سفر کی تاریخ کا سرے سے کوئی علم نہیں رکھتے۔ ہماری ایٹمی تاریخ کا سفر28 مئی کی بجاے6 جنوری1955 کو محمد علی بوگرہ کے قلم مبارک سے ہوا جب انہوں نے پہلے اٹامک انرجی کونسل قائم کی اور پھر اگلے سال یہی کونسل کمیشن PAEC میں بدل گئی۔کمیشن کی سربراہی زرعی سائنس دان ڈاکٹر نزیر کے سپرد کی گئی۔ایوب خان نے1964 میں80 لاکھ ڈالر کا جوہری پلانٹ کینیڈا سے خریدا۔بھٹو نے1972 میں ملتان میں سائنسی کانفرنس منعقد کی تاکہ ساروں کو اکٹھے بٹھا کر سائنسی انقلابات اور ایجادات کی طرف سفر کیا جاوے۔ بھٹو نے ملتان میں اٹامک کمیشن کی طنابیں منیر احمد خان کو تھمادیں جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت کرتے تھے۔ ڈاکٹر منیر احمد بیس سال کمیشن کے چیرمین رہے۔وہ1950 میں نارتھ کیرولینا میں منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لئے امریکہ گئے مگرواپس نہ ائے ۔ کوشش از بسیار کے بعد معلوم ہوا کہ منیر خان نے امریکی خاتون کو شریکہ حیات بنا کر وہیں پناہ لے لی اور انہیں ملازمت بھی مل چکی ہے۔ ۔ کہوٹہ پا ¿لانٹ پاکستان کی عظمت رفتہ کا اہم شاہکار ہے۔بھٹو نے1974 میں اسکا سنگ بنیاد رکھا اور اسکی سربراہی کا تاج ڈاکٹر منیر سے سلطان بشیر الدین کے سرپر رکھ دیا۔ کہوٹہ پلانٹ کو کئی نام دئیے گئے ایرپورٹ ڈویپلپمنٹ ارگنائزیشن اور بعد میں اسے انجیرننگ ڈویلپمنٹ ورکشاپ کا نام دیا گیا۔ ڈاکٹر خان نے بھٹو کو خط لکھا تو ابتدا میں بھٹو کے نمائندے کی حثیت سے سلطان بشیر الدین نے ہالینڈ جاجا کر انکا پہلا انٹرویو کیا تھا۔GOOD BY SHAHZADI انڈین مصنف شیام بھاٹیہ کی لاجواب کتاب ہے وہ کتاب میں بینظیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چاغی کی سرنگیں1980 میں تیار ہوچکی تھیں پاکستان نے1983 سے1990 تک 24 کولڈ ٹیسٹ کئے۔ کہوٹہ پلانٹ کا نام 1981 میں ڈاکٹرAQ خان کے نام سے منسوب ہوا۔ ڈاکٹر خان کے علاوہ سلطان بشیرالدین ڈاکٹر ثمر مند مبارک ڈاکٹر اشفاق ڈاکٹر عالم، ڈاکٹر پرویز بٹ ڈاکٹر اشرف عطا ڈاکٹر نعمت علی ریاض الدین وغیرہ نے پاکستان کو جوہری قوت سے مالامال کرنے کی خاطر جاں گسل محنت و جدوجہد کی۔ ہمارا جوہری بم اور میزائل سسٹم استحکام پاکستان کی ضمانت ہے۔کہوٹہ پلانٹ کی بنیادوں میں درجنوں سائنسدانوں افواج پاکستان کے راجوں اور انجیرننگ شعبے کے مہاراجوں کا پسینہ اور قائد عوام کی جانی قربانی کا خون شامل ہے۔ایٹمی قوت کی تیاری میں کئی اور اداروں کا مثالی کردار شامل ہے۔ سب سے بڑھ کر ساری قوم کی دعائیں بھٹو اور سائنسدانوں کے ساتھ تھیں۔یہ کارنامہ کسی ایک فرد کی بجائے کہوٹہ پلانٹ میں کام کرنے والے ماہرین ملازمین اور قوم کی مشترکہ مساعی جلیلہ کا شاہکار ہے مگر سائنسدانوں کی زاتی رنجشوں اور امریکی بداعمالیوں کے باوجود پاکستان کی جوہری تاریخ میں بھٹو اور ڈاکٹر اے کیو خان کے تاریخ ساز کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved