اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔09-12-2010

محرم کی افادیت اور امت مسلمہ

کالم  ------------ روف عامر پپا بریار


محرم اسلامی تقویم و کیلنڈر کا پہلا متبرک دلسوز مہینہ ہے یہ ہجری سن کا نقطہ اغاز ہے۔ رب العالمین نے محرم کو اسلامی کیلنڈر کے چار مقدس مہینوں میں اول درجہ دیکر اسکی عظمت حرمت و مقدسیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ خدا وند قدوس نے محرم کو امن کا نام دیا۔ محرم ایک طرف خدائے زولجلال کی رحمتوں نوازشات برکات اور نعمتوں سے ہم اہنگ ہے تو دوسری طرف محرم کے دامن میں غم و اندوہ رنج و الم اور خون مقدس سے قلم بند ہونے والی کئی داستانیں موجود ہیں۔یہی داستانیں جہاں مسلمانوں اور باضمیر انسانوں کی روح تک کو سسکا دیتی ہیں تو وہیں امت محمدی کے جانثار اور روئتے ارض کے تمام مسلمان محرم کی درخشندہ تاریخ پر رشک کرتے ہیں انکا سر فخر سے جھوم اٹھتا ہے کیونکہ اہل بیت کی قربانیوں کے باوصف دین اسلام کے نوزائیدہ پودے نے 1400 سال کے بعد ایک شجر سایہ دار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یکم محرم کو سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے جبکہ عاشورہ محرم جگر گوشہ علی و بتول خاقان اعظم حضرت امام حسین اور شہدائے کربلا کی شہادت عظمی کی نمناک داستانوں کا چشم دید گواہ ہے ۔سانحہ کربلا انسانیت کی تاریخ کا وہ واحد واقعہ ہے جسے تاقیامت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جرات رسالت شجاعت و بسالت حق و صداقت اور باطل کے سامنے پائے استقامت کا پیام ہے۔ دھرتی کربلا سچ و فریب یذیذیت اور حسینیت ملوکیت اور خلافت جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کے مابین ہونے والی لڑائیوں و جنگوں کی ائینہ دار ہے جہاں یذیذیت ملوکیت امریت اور باطل کو ایسی زلت امیز شکست کا منہ دیکھنا پڑا کہ یہ ٹولا تاابد نفرت و حقارت کا استعارہ بن چکا ہے مگر حسینیت کا ڈنکا ہر سو شان و شوکت سے بجتا رہتا ہے۔ دوسری طرف سن ہجری کا اغاز ہجرت نبوی ہے جو حضرت محمدﷺ اور ساتھیوں پر مشرقین مکہ کی ڈھائی جانے والی ڈریکولائی استبدادیت ِبربریت و کرب و الم سے عبارت ہے۔یہ وہ انقلابی موڑ ہے جہاں کفار مکہ کے جبر و وحشت کے کارن آخر کار امام الاانبیا سید المرسلین ﷺ کو ہجرت کی ہدایت کی گئی۔ ہجرت مدینہ اسلامک ہسٹری کا وہ عہد افریں موڑ ہے جس نے دین اسلام کی فکر انگیز انقلابی تحریک ، فرمودات خدا اور دین محمدی کے پیغام رشد و ہدایت اور تبلیغ و ہدایت کا ہمہ گیر کارنامہ سرانجام دیا۔ ہجرت کے کمالات نے اسلام کو عالمگیر اور ابدی دین کا درجہ حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہجرت نبوی اور سانحہ کربلا نے ایک طرف انسانیت کو عزت و وقار تکریم و تقدیس سے ہمکنار کیا تو دوسری طرف اہل بیت کی شہادت نے استعماریوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس و ناکس اقوام اور حق و سچ کے پیروکاروں کے لئے رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کردی ہے کہ مخالف چاہیے جتنی بڑی فوجی طاقت کا مالک ہو گھبرانے کی ضرورت نہیں استقامت و عزم و جنون کے ہتھیاروں سے ڈٹ جاو چاہے تمھاری جان جان افریں کے سپرد کیوں نہ ہوجائے فتح کی دیوی تمھارے پاوں چھوئے گی۔ جبران نے کہا تھا یاد رکھو امریت و یذیذیت وقتی طور پر فتح یا ب تو ہوسکتی ہے مگر ہمیشہ نہیں حقیقی جیت کا سہرا سچ کے علمبرداروں کے حصے میں اتا ہے۔ سانحہ کربلا اسلامی تاریخ کا نمایاں اور تاریخ ساز وزاقعہ ہے جسے اسکے اصل تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اسلام نے ملوکیت کے مقابلے میں مسلمانوں کو خلافت کا نظام عطا کیا۔دین اسلام ملوکیت کی بجائے مشاورت کا نہ صرف تقا ضہ کرتا ہے بلکہ اسے اسلامی مملکت کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ امام حسین نے یذیذی ٹولے کی ملوکیت کے خلاف اواز حق بلند کی تھی۔ حضرت محمد ﷺ اللہ کے نبی تھے اور نبیوں کو اللہ تعالی مقرر کرتا ہے۔ اپ نے ﷺفرمایا میرے بعد نبوت ختم ہوچکی ہے اب کوئی نبی نہیں ائے گا۔ مسلمان خلافت راشدہ کے تابع فرماں ہونگے۔ خلیفہ یعنی امیر المومنین کا تقرر شوری متفقہ فیصلے سے کرتی ہے۔ خلیفہ کا تقرر اہلیت صافیت علم و تقوی صداقت اور امانت ایسی خوبیوں کو مد نظر رکھ کرکیا جاتا ہے۔اللہ کے نبی ﷺ نے اصحابہ کے جو مناجات بیان کئے تھے اسکی روح سے صاف ظاہر تھا کہ بندگی خدا اور انسان دوستی کے ضمن میں بلند مقام و مرتبہ صدیق اکبر کو ہے۔ حضرت محمد نے وصال سے قبل کسی کو اپنا جانشین منتخب نہ کیا تاکہ امت مشاورت سے خلیفہ نامزد کرسکے۔ اپﷺ کے قریبی مقربین اصحابہ نے حضرت ابوبکر صدیق کو جماعت اصحابہ میں سے خلیفہ نامزد کردیا۔اپ کے وصال کے بعد چونکہ نئے خلیفہ کا تقرر فوری نوعیت کا معاملہ تھا اسی لئے ساتھیوں نے باہمی مشاورت اور قران و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ابوبکر صدیق کو خلافت کی دستار پہنادی۔ اپکا تعلق چونکہ عام قبیلے سے تھا اسی لئے بڑے قبائل کے سرداروں کو تشویش ہوئی مگر گفت و شنید سے ساری جماعت اصحابہ کا اجماع ہوگیا ۔رعایا اور شوری نے مسرت و شادمانی سے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر بعیت کرلی۔ امام بن کثیر کی تصانیف میں نئے خلیفہ کے تقرر کی پوری داستان موجود ہے۔ حضرت ابوبکر 2.5سال بطریق احسن خلافت کے امور سرانجام دیتے رہے۔ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے فوری طور پر شوری کے ساتھیوں سے نئے خلیفہ کے نام پر مشاورت کی۔ جانشین کے طور پر کئی بلند المرتبت نام زیر غور ائے جن میں جید اصحابہ کرام شامل تھے۔ حضرت رحمن بن عوف حضرت عمر خطاب حضرت عثمان حضرت علی بن ابی طالب حضرت سعید بن زید اول الذکر 5 نام عشرہ مبشرہ میں شامل تھے جنکا تعلق مہاجرین سے تھا جبکہ 2 انصار تھے۔ امام طبری اپنی کتاب تاریخ الملوک میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان نے عمر بن خطاب کا نام تجویزکیا۔ امام بن اثیر لکھتے ہیں کہ حضرت علی تو یہاں تک پرجوش تھے کہ ساتھیوں کو بتایا اگر عمر بن خطاب کی بجائے کسی اور کو دستار خلافت پہنائی گئی تو امت تسلیم نہیں کرے گی۔ حضرت عمر خلیفہ ثانی تھے۔ انکے 10سالہ زریں دور خلافت میں اسلامی فورسز پوری دنیا پر چھاگئیں اور کئی کارہائے نمایاں سر انجام م دئیے۔ عمر بن خطاب کے بعد حضرت عثمان خلافت کے سربراہ بنے اور 12سال امت مسلمہ کے خلیفہ رہے۔ انہی کے دور میں چند فتنوں نے سر اٹھایا اور انہی فتنوں نے جو فساد برپا کیا اپ انہی میں شہید ہوگئے۔ مسلمانوں پر کڑا وقت اگیا۔ امام طبری لکھتے ہیں کہ شوری نے حضرت علی کرم وجہہ سے اپیل کی کہ وہ خلافت کی زمہ داریاں نبھائیں مگر اپ نے انکار کردیا کہ وہ وزیر کی حثیت سے کام کر یں گے مگر شیر خدا کے ساتھ امت کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپکے سوا کسی او ر کی بعیت پر امادہ خاطر نہ تھی یوں عوامی مطالبے پر حضرت علی امت مسلمہ کے چوتھے خلیفہ بن گئے مگر شام کے گورنر امیر معاویہ بن ابی سفیان نے اپکی خلافت کو متنازعہ بنانے کے لئے اپکی نامزدگی کو مسترد کردیا۔ حضرت معاویہ حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے۔ حضرت علی نے خلیفہ کی بجائے بادشاہ کی حثیت سے شام میں حکومت قائم کی۔ وہ پانچ سال تک اپنی زمہ داریاں نبھاتے رہے۔ اپکو خارجی عبدالرحمان بن ملجم نے شہید کردیا۔ حضرت علی کے بعد حضرت حسن کی بیعت کی گئی مگر حضرت حسن نے چھ ماہ بعد امت کو انتشار سے بچانے کے لئے بادشاہت چھوڑدی اور امیر معاویہ کی بیعت کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ اپ ﷺ نے کہا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک دور خلافت جاری رہیگا اسکے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوگا۔ حضرت امیر معاویہ نے اپنے بعد کارزار خلافت یذیذ کے سپرد کی اور خلافت کی بجائے موروثی ملوکیت کا اعلان کیا تو علما فضلا اصحابہ اور اہل بیت نے امیر معاویہ کے فیصلے کو رد کردیا۔ یذیذ جابر و خائن ڈکٹیٹر کے روپ میں مسلمانوں پر مسلط ہوا۔ اسکا کردار درست نہ تھا۔اسکے کارپردازان ریاستی دہشت گردی کے زور پر لوگوں کو یذیذ کی بیعت پر مجبور کرتے تھے۔ دور یزیزی میںاسلامی شعائر کی تکذیب کی گئی۔ شاہی خزانے کو بیدردی سے لوٹا جانے لگا۔ یذیذ اپنی بادشاہت کی طوالت کے لئے مخالفین پر ظلم کے سائے دراز کرتا جارہا تھا۔ یذیذ نے خباثت پر مبنی ہر وہ ظلمت انگیز طریقہ اپنایا جو دور حاظرہ کے ڈکٹیٹرز اپناتے ہیں۔ حضرت امام حسین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لئے یذیذ کے سامنے ڈٹ جائیں گے۔ حضرت امام حسین بہتر رکنی قافلے کے ساتھ عراق پہنچے جہاں کربلا کے مقام پر یذیذی افواج نے حسینی لشکر کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ یزیزی افواج نے اپکو یذیذ کی بیعت پر قائل کرنے کی بہتیری کوششیں کیں مگر نواسہ رسول ڈٹ گئے جھکے نہیں۔کربلا کی تپتی ریت پر معصوم بچوں اور اہل بیت کے دوسرے افراد پر پانی تک بند کردیا گیا۔ اہل بیت کے سرفروش یذیذی افواج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوتے رہے؛ اہل بیت کا ہر بچہ اور جوان دین اسلام کی حرمت پر کٹ گیا۔ حضرت امام حسین دس محرم کو شہید ہوگئے مگر شائد یذیذ کو معلوم نہ تھا کہ وہ تھوڑے عرصہ بعد لعنت و ملامت کی ایسی کھائی میں غرق ہوگا کہ تاریخ کے ہاتھوں دھتکار دیا جائے گا۔ حضرت امام حسین نے سر کٹواکر اپنے نانا اور رب کے دین کو سرخرو کیا۔ کیا دور حاظرہ کے مسلم حکمران امریکہ کے تلوے چوسنے کی بجائے راہ حسینیت کی راہ اپنا لیں جو ہمیشہ اپنے شیدائیوں کو تاریخ کے سنہری حروف میں زندہ رکھتی ہے۔کیا کوئی مسلم حکمران محرم کے دل اندوہ سانحے سے خود حمیتی کا سبق سیکھ سکتا ہے اور کیا پاکستان جو ایٹمی قوت ہے امریکی غلامی کے معاشی دفاعی اور جنگی قہر کو خدا حافظ کہہ کر حسینیت کا علم بلند کرنے کی ہمت دکھا پائے گا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved