اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com

Telephone:- 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

<<<<-----<<<<

 
 
تاریخ اشاعت:۔27-06-2010

 کیا پاکستان ناکام ریاست ہے؟

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

امریکہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے کئی ادارے اخبارات اور تھنک ٹینک ہر سال دنیا بھر میں عالمی امور اور دیگر واقعات کے متعلق سروے کرتے رہتے ہیں۔ امریکی صدر کی مقبولیت کا ا عجاز و افتخار جانچنے کے لئے واشنگٹن کا پیو ریسرچ سنٹر پچھلے 6 سالوں سے اپنے مظاہر کا جلوہ دکھا رہا ہے۔ سروے کے نتائج امریکن خارجہ پالیسی میگزین فنڈ فار پیس نامی تھنک ٹینک کے تعاون سے شائع کرتا ہے۔ حالیہ سروے2010 میں پاکستان کو ناکام ریاستوں کی فہرست میں 10ویں درجے پر فائز کیا گیا ہے۔ سروے کا اتوار بازار دنیا کے22 ممالک میں منعقد ہوا تاکہ اوبامہ کی شہرت کا معیار مقرر کیا جاوے۔پاکستان میں صرف8 ٪ جبکہ بھارت میں73 ٪لوگوں نے اوبامہ کی فارن پالیسی کی تعریفوں کے پل باندھے۔56 ٪ پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکن جنگ سے بیزاری کا اظہار کیا جبکہ65 ٪نے رائے دی کہ امریکن فورسز جلد از جلد پاکستان اور کابل سے واپس چلی جائیں۔22 ریاستوں میں سے 4 انڈیا، برازیل،چین اور پولینڈ ایسے ملک ہیں جو کساد بازاری کے عوارض سے محفوظ رہے۔ 14 ٪ پاکستانیوں نے ملک کی موجودہ حالت پر اطمینان کا سانس لیا جبکہ18٪ نے معاشی پوزیشن کو درست کہا۔66 ٪ پاکستانیوں کو خوف ہے کہ انتہاپسند ملک کا نظم و نسق چھین سکتے ہیں مگر خود کش بمباروں کے متعلق پاکستانیوں کی سوچ میں حیرت ناک تبدیلی نوٹ کی گئی۔2002 میں33 ٪ پاکستانی کھل کر خود کش حملوں کی حمایت کرتے تھے تاہم2009 میں33 کا مجموعہ گھٹ کر 5 ٪ ہوگیا تھا مگر اب اس میں3 ٪کا اضافہ ہوگیا ہے۔ صدر زرداری کی مقبولیت کے متعلق تھنک ٹینکس نے لکھا ہے کہ یہ گھٹ کر ادھی رہ گئی ہے جسکا تمام تر فائدہ ن لیگ کو ہوگا۔ہمارے لئے تعجب و تشویش ناک امر فریڈم ہاوس2009 کے نتائج ہیں جن میں پاکستان کو یمن صومالیہ عراق و افغانستان کے ساتھ رکھا گیا ہے جہاں اسلامک تشدد پسندی فروغ پارہی ہے۔پاکستان میں مشرف کے طویل دور سیاہ کے بعد لولی لنگڑی جمہوریت بحال ہوئی ہے مگر فریڈم ہاوس کے ماڈل کے مطابق پاکستان افغانستان کو چھوڑ کر بدترین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔فریڈم ہاوس ریاستوں کی ازادی کا تعین تین درجوں سے کرتا ہے۔ازاد، جزوی ازاد اور غیر ازاد جبکہ شہری حقوق کی درجہ بندی 7 نمبروں سے ماپی جاتی ہے۔نمبر 1 والے ملک کو مکمل ازاد جبکہ 7 نمبر والے ملک کو بدترین کہا جاتا ہے۔ فریڈم ہاوس نے بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکن کو جمہوری مملکتوں کا ایوارڈ دیا گیا ہے جبکہ پاکستان کو جزوی ازادی کا نام دیا گیا ہے۔انڈیا کو 7 کی درجہ بندی میں2اور3 جبکہ پاکستان کو 5 کا ہندسہ بخشا گیا۔ پاکستان کو کرپشن بدعنوانیوں اور مذہبی تفرقہ پرستی اور دہشت گردی کی وجہ سے نچلی سطح پر فائز کیا گیا۔ چیف جسٹس کی بحالی اور فاٹا میں اصلاحات کرنے کو مثبت اقدام کہا گیا۔پاکستان کے متعلق تینوں جائزے ان امریکی تھنک ٹینکس نے ترتیب دئیے ہیں جن کی انکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور پاک دشمنی سے منسلک ہے مگر اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں صورتحال اتنی ناگفتہ بے ہوچکی ہے کہ ہمیں ناکام ریاست کے طعنے دئیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کی قلیل تعداد اس نقطے کو تسلیم کرے گی کہ ریاست کی جمہوری حکومت ناکام ہوگئی۔سیاسی بعد المشرقین سے ازاد ہوکر سوچا جائے تو یہ سچ سامنے اتا ہے کہ پاکستان میں امریتوں کے بلند و بالہ قلعوں کو زمین بوس کرنے میں اہم ترین کردار پی پی پی نے انجام دیا۔فوجی حکمرانی کے معذرت خواہاں دلیل دیتے ہیں کہ جرنیلوں نے سویلین حکمرانوں سے اچھی حکومت کی مگر حقیقت تو یہ کہ بار بار کی فوجی امریت نے ایک طرف پاکستان کے دو ٹکڑے کئے تو دوسری طرف سیاست میں اربوں کی لوٹ مار، ہارس ٹریڈنگ اقرباپروری دہشت گردی خود کش حملے فوجی ادوار کے ناسور ہیں جنہوں نے ریاست کے تمام اداروں کو بدحال کردیا۔بدعنوانیوں کی بھیانک داستانیں اختیارات کی غلط تقسیم مخالفین کو راندہ درگاہ بنانے کے واقعات اور زاتی مقاصد کے لئے سیاسی جماعتوں کی افزائش اور قومی خزانے کی لوٹ مار و ائین کشی کے سانحات کی تعداد سیاسی ادوار کے مقابلے میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے دوران بہت زیادہ سننے اور پڑھنے کو ملی۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چند روز قبل ا مریکی وائسرائے البروک کے سامنے شکایت کی کہ دنیا پاکستان کے اقتصادی بحران کی طر ف توجہ نہیں دے رہی۔البروک نے فرینڈز اف پاکستان کے اگلے اجلاس میں ہمارے کشگول میں امداد کے نام پر بھیک ڈالنے کا وعدہ کیا۔درویش کا قول ہے کشگول ہمیشہ کشگول رہتا ہے چاہے اس میں ہیرے جواہرات ہی کیوں نہ جڑ دئیے جائیں۔۔ہاتھ میں بھیک کا پیالہ لیکر امداد کے نام پر خیراتیں اور ریاستی غیرت و حمیت کو فروخت کرکے امدادی بل حاصل کرنے سے پاکستان کبھی اقتصادی طور پر ازاد نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم پاکستان کے داخلی معاشی سماجی اورسیاسی سنیاریو پر روشنی ڈالیں تو تب ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔پاکستان ایک کی بجائے کئی ریاستوں کا منظر پیش کرتا ہے۔ایک پاکستان میں سیاست کے راجے مہاراجے سیاست کررہے ہیں جو اپنے مالی وسائل میں اضافے اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں غریق رہتے ہیں۔دوسروں کے مال غنیمت پر ہاتھ صاف کرنا انکا پیشہ ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کے علاوہ کراچی میں جو منظم قتل و غارت اور مار دھاڑ ہورہی ہے وہ دراصل وسائل اور اختیارات پر قبضے ہی کا دوسرا نام ہے۔کراچی میں کمانڈو ٹائپ دہشت گرد ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔یہ ڈاکو قاتل و لٹیرے سیاسی راجوں کے چرنوں میں پناگاہ ڈھونڈھ لیتے ہیں۔اس پاکستان کے سیاسی رہائشیوں کے دوسرے من پسند مشاغل میں جمہوریت کی دھول کو پلید کرنا اور عوام کو ایسی بدخواہ انکھ سے دیکھنا کہ بصارت و بینائی جاتی رہے۔اس پیرس ٹائپ پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ طاقت کو قانون کا درجہ ہے۔یہاں غریبوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں عوام کو برسات کے موسم میں پیدا ہونے والے ان پتنگوں سے تشبیہ دی جاتی ہے جو بجلی کے کھمبے پر نصب ٹیوب کے گرد پھڑ پھڑا کر صبح صادق سے پہلے دم توڑ دیتے ہیں۔اس قسم کے پاکستان میں سیاسی مہاراجوں نے پچاس ارب ڈالر سے زائد کی قومی دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا رکھی ہے۔ پاکستان کے ایک حصے کو فوجی پاکستان کہا جاسکتا ہے۔یہاں عام ادمی پر نہیں مار سکتا۔سیاسی حکومتوں کو گھر بھیجنے کی پلاننگ یہاں ہوتی ہے۔یہاں کے باسی افیسر و جرنیل سارا دن سیاسی حکومت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔خذانے کا 80٪ خاکی پاکستان کے بارعب اور اکھڑ مزاج جرنیل لے جاتے ہیں۔فوجی شہشاہوں کے مشاغل میں گالف کھیلنا شراب پینا اور سیاست دانوں کی خرمستیوں پر کف افسوس ملنے کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت کو کمزور کرنے کا سکرپٹ تحریر کرنا شامل ہیں۔پاکستان کا ایک حصہ ایسا ہے جہاں کے 75٪ لوگ غربت و مصائب کی چکی میں پس رہے ہیں۔ محکومی غلامی اور درماندگی اور مفلوک الحالی نے ہر سو اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔مہنگائی استحصال اور بے روزگاری انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کا جن ہر گلی میں محو خرام ہے۔90 فیصد مقہور پاکستانیوں کے گھروں کی دیواریں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔یہاں کے ہسپتالوں کے بستر ان مریضوں سے بھرے رہتے ہیں جو گدلے پانی کے استعمال کا نتیجہ ہیں۔یہاں کے دکھیاروں کے درد کا درماں کوئی نہیں۔غریب عمر بھر اچھے دنوں کا خواب دیکھتا رہتا ہے مگر سالہا سال گزر جاتے ہیں مگر انکی امیدیں بر نہیں لاتیں۔ یہ حصہ واقعی جزوی ازاد کی تعریف پر پورا نہیں اترتا کیونکہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے عوام کو ڈھور ڈنگر سمجھ رکھا ہے۔ 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔یہاں کے سیاہ بختوں کی روزانہ امدنی دو امریکی ڈالر ہے۔اکثریت خوراک کی کمی کا شکار ہے،بے روزگاری نے نوجوانوں کو خود کش حملہ اور بننے کی طرف مائل کردیا ہے۔ کیا ایک ایسا دیس جہاں کے باسیوں کا معیار زندگی اتنا متضاد ہے جتنا افریقہ کے کسی ملک اور یورپ کا ہوسکتا ہے جہاں محمود و ایاز کی ایک صف کا کوئی تصور نہ ہو۔انصاف ناپید ہوجائے۔قانون کے رکھوالے ڈاکو سیاسی رہبر سیاسی گھوڑے سرکاری دفاتر کرپشن کے گڑھ بن جائیں جہاں روزانہ بھوک و ننگ کے کارن مائیں معصوم بچوں کے ہمراہ خود کشی کرتی ہوں جہاں 21صدی کی چکا چوند میں بھی ایک کروڑ بچے تعلیمی زیور کے نور سے تہی داماں ہوں اطراف و کنایاف میں جہالت کے سائے دراز ہوں جس ملک کے علما فضلا قرانی تعلیمات کی اپنے مسلک کی رو سے خود ساختہ تشریح کرکے زاتی و سیاسی فوائد حاصل کریں جہاں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر خود کش بمبار اپنے ہم مذہب نام لیواوں کو بارود کی غذا بناتے ہوں جس سماج کے منی پاکستان میں خفیہ ہاتھ روزانہ ٹارگٹ کلنگ کا شوق پورا کرنے کے لئے 30سے 40 معصوم لوگوں بھون دیں جس ریاست میں بار بار ائین کو کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر پھاڑ دیا جائے کیا ایسے پاکستان کو ناکام ریاست کا درجہ دینا غلط کیوں؟
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team