اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔23-07-2010

  تنازعہ کشمیر کلنٹن اور پاکستان

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

پاکستان اور بھارت کے مابین ہر مرتبہ ناکامی کی صلیب پر لٹکنے والے تنازے کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور یہ نقطہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ حال ہی میں اسلام اباد میں پاک بھارت وزراے خارجہ مذاکرات کا سرکس شو منعقد ہوا جو بری طرح فلاپ ہوگیا۔دوسری طرف امریکن سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کا دورہ کیا۔پاک بھارت ڈائیلاگ اور ہیلری کی پاکستانی یاترا نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے زہن کے پردہ قرطاس پر ماضی کے کئی قصے ابھر ائے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی انتخابی کمپین میں مسلمانوں کو رام کرنے کے لئے کہا تھا مسئلہ کشمیر میرے انتخابی منشور کا جزو لانفیک ہے۔ کلنٹن بھارتی دورے پر ائے تو جنگجووں نے چائی سنگھ پورہ میں خون کی ہولی کھیل کر وائٹ ہاوس کے سادھو کا سواگت کیا۔ موجودہ صدر اوبامہ نے بھی صدارتی الیکشن کی دوڑ میں برصغیر کی دو ایٹمی قوتوں کے مابین اتش گیر مسئلے کا زکر زور شور سے کیا۔اوبامہ نے کلنٹن کی طرح مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کا وعدہ کیا تو جنگجووں نے بمبئی کا26 الیون کردیا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ برطانیہ او ر امریکہ کشمیری کشاکش کے ملزم ہیں۔برطانیہ نے تقسیم ہند کے وقت بھارت کو کشمیر پر جارہیت اور قبضے کے لئے فری ہینڈ دیا جبکہ امریکہ پچھلی چھ دہائیوں سے تنازعے کو حل کرانے کے لایعنی دعوے اور وعدے تو کرتا چلا ارہا ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک ک تین پات۔ کشمیر کے حوالے سے برطانیہ اور امریکہ کی حالیہ پالیسیوں کے ضمن میں ہر صاحب شعور کے من میں سوالات کا طوفان امڈنے لگتا ہے کہ کیا برطانیہ اور امریکہ کے تھنک ٹینک یہ یقین کرسکتے ہیں کہ کیا بھارت کشمیر پر بامقصد اور حق پرستانہ مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہے ؟کیا وہ سونیا گاندھی اور کانگرس کو اعتماد میں لے سکتے ہیں اور کیا بھارتیوں کی سوچ مثبت ہے؟ سعیدہ وارثی اور ہیلری نے جس برق رفتاری اور الفت سے پاک افغان تجارتی معاہدہ کروایا بھلا وہی سلوک پاکستان سے کیوں نہیں کیا جاتا اور وہی خلوص اور خلعت فاخرہ پاکستان کو دینے میں کیا رکاوٹیں ہیں۔اس معاہدے پر شکوک کے تیر برسانے والے ماہرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اب امریکہ کا ایجنڈہ کچھ اور ہے۔بھارت بمبئی حملوں کی زمہ داری پاکستان پر عائد کرتا ہے۔جب کبھی بامقصد تصفئیے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو بمبئی دہشت گردی طرفین کے مابین تو تکار کا سبب بن جاتی ہے۔اسی طرح ماضی میں جب بھارتی افواج سیاچین خالی کرنے والی تھیں تو بھارتی پارلیمان کے احاطے میں دہشت گردانہ کاروائی نے بھارتی افواج کی واپسی کے سامنے سرخ نشان لگادیا۔بل کلنٹن21 مارچ2000 میں بھارت کے دورے پر ائے ابھی بھارتی قیادت اور بل کلنٹن کے مابین کشمیر پر ایک لفظ کا تبادلہ خیال نہیں ہوسکا تھا کہ36 سکھوں کو سفاکیت کے ساتھ مار دیا گیا اور پھر پورے بھارت میں پاک مخالف احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کا طوفان امڈ ایا۔بی جے پی کے حکومتی جادوگروں نے یہ کہہ کر کلنٹن سے راہ فرار اختیار کی کہ اگر اس موقع پر کشمیر پر بات چیت ہوئی تو ہندوستانی واجپائی سرکار کو راندہ درگاہ بنادیں گے۔ کلنٹن نے مارچ2006 میں امریکہ کی سابق خاتون سفیر اور وزیرخارجہ میڈم البرائٹ کی لکھی گئی کتاب

the might and almight

 کی تقریب رونمائی میں بطور ممان خصوصی شرکت کی۔کلنٹن نے تقریب سے خطاب کیا تو انکی انکھیں نمناک ہوگئیں وہ بوے کاش میں بھارت اور پاکستان کے دورے پر نہ جاتا تو36 بے گناہوں کا خون نہ ہوتا۔ مغربی میڈیا کے مطابق کلنٹن کا یہ دورہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب اہم قدم تھا جسے بھارتی ایجنسیوں نے ناکام بنادیا۔ سکھوں کے قتل عام کے بعد واجپائی اور سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے برطانوی اخبار اکانومسٹ کو انٹرویو دیا کہ اسکھوں کے قتل عام نے بھارت اور کشمیر کو قریب تر کردیا۔کلنٹن نے 6سالوں بعد سلھوں کی یاد میں ٹسوے بہائے اور رندھیر لہجے میں کہا سکھوں کے قتل عام پر مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔ ایک طرف کلنٹن پر کشمیریوں کی چاہت کے پاگل پن کا دورہ پڑا ہوا ہے تو دوسری جانب انکی ملکہ عالیہ نے اسلام اباد میں کشمیر کے متعلق جو کچھ فرمایا وہ انکے مجازی خدا کلنٹن کی موجودہ سوچ سے متصادم ہے۔ہیلری نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔دونوں ملک ڈائیلاگ کریں مگر ظلم تو یہ ہے بھارتی مذاکرات کار کشمیر کے متعلق کوی شبد سننے کے روادار نہیں۔یوں امریکہ مسئلہ کشمیر کے سلجھاو میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ امریکہ سے توقع کرنا کہ وہ جنگی پارٹنر شپ ہونے کے ناطے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا تو یہ خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔ جہاں تک کلنٹن کے اہ و فغاں کا تعلق ہے تو سچ کوئی اور کہانی سنانے کے لئے بیتاب ہے۔کلنٹن نے دو ہزار چھ کے دورے میں بھارت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ واشنگٹن نے بھارت سے

stregeric relation

 استوار کرلئے ہیں جبکہ پاکستان تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔بھارتی دھماکوں کے جواب میں28 مئی1998 کے پاکستانی دھماکوں کے جواب میں دخل در معقولات کے ضمن میں جس روئیے کا اظہار کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کلنٹن نے چند گھنٹے پر محیط پاکستان کا دورہ کیا تو انہوں نے پاکستانی حکام اور عوام سے اچھوتوں والہ رویہ روا رکھا حالانکہ طویل سفارت کارانہ ریلیشن اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں خدمات کے عوض کلنٹن کو دونوں ایٹمی طاقتوں کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کرتے۔ کلنٹن جانتے تھے کہ نہرو غیر جانبدار تحریک کا سرکردہ رہنما تھا۔سرد جنگ کے دور میں بھارت سوویت یونین کا اتحادی و حاشیہ بردار تھا۔ بھارت کی فوجی اور دفاعی قوت کا منبع ماسکو تھا۔ کشمیری ایشو جب بھی یواین او میں پیش ہوا روسی مندوب نے اسے ویٹو کردیا۔ایسے عدیم النظیر تعلقات کے باوجود دہلی نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرلئے تاکہ امریکہ سے راہ و رسم بڑھانے کا موقع مل سکے۔ویسے بھی صہیونیت کے پجاری اور ہندوتوا کے پیروکار نظریاتی طور پر ایک ہی سکے کے دورخ ہیں کیونکہ دونوں میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔1992 میں اسرائیل کے توسط سے بھارت نے اسلحے کی خرید کا سلسلہ جنبانی شروع ہوا کیونکہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بھارت کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت تھی۔دوسری طرف امریکہ کو جنوبی ایشیا میں چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے بھارتی خدمات درکار تھیں۔یوں1992 میں امریکہ سے اسلحہ خریدنے کی ابتدا کرنے والا بھارت اج امریکہ کا جوہری پارٹنر بن چکا ہے۔ وائٹ ہاوس نے اپنے وفادار حلیف پاکستان کو مستحکم بنانے کی پالیسی سے گریز کیا۔دہشت گردی کی امریکی جنگ میں پاکستان کو1.50 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا۔ہیلری بھی ڈومور کا مطالبہ لے کر ائیں تھیں۔امریکہ افغانستان میں کھائی جانے والی مار کا فضلہ پاکستان کے سر تھوپتا ہے اور اب وہ پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا ہے۔ان حالات میں پاکستان کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو بھارت کی طرح جوہری پارٹنر بنانے کی تجویز پر ہیلری نے جو کچھ کہا وہ طوطاچشمی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جوہری توانائی کے متعلق ملکہ عالیہ کہتی ہیں کہ عالمی خدشات کو دور کئے بغیر یہ مطالبہ قابل عمل نہیں مگر سوال تو ہے کہ جب بھارت کے ساتھ جوہری پارٹنرشپ کا امریکی نکاح منعقد ہوا تب امریکہ نے عالمی خدشات پر کان کیوں نہیں دھرے؟ ہیلری کے دورہ پاکستان اور پھر ایٹمی توانائی اور کشمیر کے متعلق ہیلری کلنٹن کی دھنیں سننے کے بعد یہ کہنا درست ہے کہ وہ امریکہ سے مطالبات کی فہرست لے کر وارد ہوئیں تھیں۔ اسکے عوض پاکستان کو کیا ملا اسکے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان کشمیر اور دیگر مسائل پر جاندار پالیسیاں بنائے۔ ارباب اختیار امریکن وار سے چھٹکارہ حاصل کر لیں تاکہ پچھلے اٹھ سالوں سے جاری دہشت گردی کے طوفان کو روکا جاسکے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو پاکستان امریکہ کی بجائے او ائی سی کے پلیٹ فارم سے کشمیریوں کی ازادی و خود مختیاری کا نعرہ لگائے۔اوبامہ کلنٹن اور ہیلری سمیت پوری دنیا کو جان لینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر روئے ارض سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو اسکے صرف دیوانے کی بڑ ہی کہا جاسکتا ہے۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved