اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔04-08-2010

    کابل کانفرنس اور خوشنما تصورات

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

امریکہ افغانستان میں متوقع شکست کی خفت مٹا نے اور خطہ افغان سے راہ فرار حاصل کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔اوبامہ اینڈ کمپنی چاہے کچھ کرلے افغانستان ایشو کے نام پر ایک نہیں دس ہزار کانفرنسیں منعقد کروائیں مگر سچ تو یہ ہے کہ اوبامہ کی قصاب افواج کا شکست کے میڈل کے ہمراہ بے نیل و مرام واپس جانا طئے ہوچکا بس رسمی اعلان باقی ہے۔کابل کانفرنس کے فیصلے اور نتائج اور ناٹو فورسز کی ناکامی کا روز روشن ثبوت ہے۔کابل کانفرنس 20جولائی کو منعقد ہوئی۔ منتظمین نے عزم کرکھا تھا کہ ایک مسحکم افغانستان سے دستبرداری کو مغربی دنیا کے مقاصد کے حصول کا زریعہ بنادیا جائے مگر اس پیغام سے نیٹو اور دوسرے اتحادیوں کے وہ وہم و وسوسے دور نہیں ہوسکتے جو کابل سے نکل جانے والی اسٹریٹیجی سے منسلک ہیں۔کابل انفرنس کی روح رواں امریکی وزارت خارجہ کی ملکہ عالیہ ہیلری کلنٹن تھیں جنہوں نے کئی وعدے کئے جن میں قابل زکر یہ ہیں۔1۔ ناٹو فورسز اپنے گھروں کو چلی جائیں گی اور افغان فورسز اپنے ملک کی سلامتی کی زمام کار تھامیں گی۔2۔ کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورنس کی ترویج کے لئے کرزئی سرکار اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے گی۔.3 مخالفین کے لئے لچکدار ڈیڈ لائن کی حمایت لازم ہے۔4۔ صدر کرزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری فوجیں2004 میں اس قابل بن جائیں گی کہ ریاستی سیکیورٹی و سلامتی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ شریکین کانفرنس نے اس امر سے اتفاق کیا کہ افغانستان میں این جی اوز اور امریکی فورسز کے توسط سے خرچ ہونے والی رقم کا کچھ حصہ افغان گورنمنٹ کو دیا جائے گا۔ماضی میں کرزئی سرکار کو ملنے والی سالانہ خیرات20٪ سے50٪ کردینے کا اعلان۔ چند ملکوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔انکی رائے یہ تھی کہ یوں کرپشن کا گراف ہمالیہ کی چوٹیوں کو چھونے لگے گا۔مغربی اخبار ٹائم میں شائع ہونے والے ٹونی کیرون کے ارٹیکل(کابل کانفرنس) میں ٹونی نے کابل کانفرنس کی ناکامی اور ناٹو کے انجام کی پیشین گوئی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کابل کانفرنس ناٹو الائنس میں شامل اتحادیوں کو یہ نقطہ باور کرانے میں ناکام ہوئی کہ افغان جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قابضین نے اس سال کے اخر میں چند افغان صوبوں کو مغربی فورس کی بجائے مقامی انتظامیہ کے سپرد کرنے کی منصوبہ بندی طے کررکھی تھی مگر یہ فیصلہ کالعدم ہوگیا کیونکہ مقامی انتظامیہ نے کنٹرول سنبھالنے سے معذرت کرلی۔طالبان جانتے ہیں کہ مغربی افواج پر اپنے ملکوں کا دباو بڑھ رہا ہے کہ اتحادی افواج کو کابل سے واپس بلایا جائے۔طالبان نے صدر اوبامہ کے اس اعلان پر مسرت کا اظہار کیا کہ موسم سرما میں امریکی فورسز کا انخلا شروع ہوجائے گا۔جنگجووں نے اوبامہ کے اس اعلان پر تبصرہ کیا کہ ناٹو نے اعتراف شکست کرلیا ہے۔دوسری طرف unoکے سیکریٹری جنرل اینڈرس فاگ نے کابل کانفرنس پر اپنے تبصرے میں کہا کہ ہمارا مقصد طالبان کو شکست دینا نہیں بلکہ ریاست کی اپنی داخلی افواج کی تشکیل اور اسکی مضبوطی کو یقینی بنانا ہے۔اگلے سال تک 3 لاکھ جوانوں پر مشتعمل افغان فوج اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ہم انتظار کی وجہ سے اس منصوبے کو ختم نہیں کرسکتے۔ ٹونی کیرون لکھتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ تربیت یافتہ افغان فوجی طالبان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ناٹو نے پروگرام بنایا تھا کہ افغان نیشنل ارمی کی تعداد کو 1 لاکھ30 ہزار تک پہنچایا جائے مگر یہ منصوبہ نقش براب ثابت ہواخوش گمانیوں سے لبریز اعداد و شمار نے ناٹو کے اس خواب کو چکنا چور کردیا کیونکہ ابھی تک افغان ارمی کا 30 فیصد فوجی یونٹوں کا حصہ بنا ہے۔ افغان فوجیوں کو تنخواہوں، مراعات اور دیگر سہولیات سے مزین کرنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ وہ کرزئی یا امریکہ کے لئے کٹ مرنے پر راضی ہوجائیں۔ناٹو کی یہ پلاننگ بھی تہہ خاک ہوئی کہ جنوب کے پشتون علاقوں میں گورے سپاہیوں کی جگہ افغان فوج زمہ داری سنبھال لے گی۔ یہ خوش فہمی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔افغان معاملے سے جڑت رکھنے والے کئی اتحادیوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ کسی فریق کی شکست پر ختم نہیں ہوگی بلکہ اسکا انجام باغیوں کے ساتھ سیاسی تصفئیے کی صورت میں ممکن بن سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان جنگ کے المیے کا حل صرف سیاسی معاہدے سے ہی ممکن ہوا کرتا ہے۔امریکہ ایک طرف بار بار ہاہاکار مچائے ہوئے ہے کہ طالبان سے مذاکرات یا مصالحت نہیں ہوسکتی مگر دوسری طرف امریکی گماشتوں پر مشتعمل افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کو بروئے کار لانے کے لئے برسرپیکار ہے۔ابھی تک طالبان نے ڈائیلاگ میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ ٹونی کیرون کے مطابق امریکہ نے یہ حکمت عملی اپنا رکھی ہے کہ طالبان کو پیچھے دھکیل دیا جائے اور انہیں اس زعم میں مبتلا ہونے کا کوئی جواز نہیں دینا چاہیے کہ وہ قوت کے بل پر کابل فتح کرسکتے ہیں۔ہزارہ، تاجک اور ازبک قبیلوں کی ابادی کل ابادی کا نصف ہے۔ماضی میں ان قبیلوں نے طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد اور امریکہ کی پشت بانی کی تھی۔کرزئی نے ان قبائل کو ہمنوا بنانے کے لئے اربوں خرچ کئے۔یہ قبائل طالبان کے ساتھ مصالحت کے مخالف و ناقد ہیں۔ قبائل کے بڑوںنے دھمکی دی ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی گئی تو ملک میں خانہ جنگی کا خون بہے گا۔یوں یہ بھی درست ہے کہ پشتونوں اور شمالی اتحاد کے تاجکوں ہزاروں اور ازبکوں میں مصالحت ناممکن ہے۔یہی وہ خدشہ ہے جس نے امریکی تھنک ٹینکس کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ افغانستان کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جائے تاکہ پشتون علاقوں پر طالبان کا جھنڈا لہرا دیا جائے اور طالبان کو پورے ملک کی بجائے ایک حصے پر قابض ہونے کا موقع مل سکے۔یہ وہ راستہ ہے جو کابل کانفرنس میں شریک مندوبین کے خوشنما تصورات سے مختلف ہے اور ان گرگوں کے دعووں کو اس لئے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وقت کے دھارے کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ٹونی کیرون کے محولہ بالا ارٹیکل اور یواین او کے سیکریٹری جنرل اینڈرس فاگ کے تبصرے اور کابل کانفرنس میں کئے جانیوالے وعدوں تجاویز اور شعلہ بیانیوں پر غور و خوض کیا جائے تو افغان جنگ کا انجام حقیقت بنکر رقص کررہا ہے کہ ناٹو کے لئے خوش کن نہیں۔uno کے سیکریٹری جنرل کے تبصرے کو اگرافغانستان کے حالیہ دگرگوں حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اعتراف شکست کرلیا ہے ویسے بھی یہ شکست نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔امریکہ افغانستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کررہا ہے اور اس سازش کو راندہ درگاہ بنانے کے لئے امت مسلمہ کو ہنگامی اقدامات کرنے چاہیں۔افغانستان کی ملی وحدت کا وجود پورے عالم اسلام کے لئے نیک شگون ہے۔ امریکہ اور ناٹو کے پالیسی سازوں کو ٹائن بے کے چالیس سالہ پرانے مضمون پر نظر دوڑانی چاہیے۔ٹائن بے نے کہا تھا کہ دنیا میں امریکہ اور سوویت یونین کے علاوہ دو ایسے ملک بھی ہیں جو حاکمیت اعلی کے منصب سے سرفراز ہیں ویت نام اور افغانستان
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved